پاکستان ایک نظر میں روزہ کی بنیادی شرط ’صبر و برداشت‘
رمضان المبارک کا اصل پہلو تو ’’صبر و برداشت‘‘ ہے جو بدقسمتی سے ہم بھلا چکے ہیں
SUKKUR:
یہ ابھی کچھ ہی دن پہلے کی ہی بات تھی کہ ایک صاحب جن کی وجہ سے پوری ٹریفک بلاک تھی، جب مودبانہ گذارش کی کہ جناب اگر آپ تھوڑی سی زحمت کر لیں تو تمام ٹریفک کھل جائے گی تو ان کا جواب تھا کہ نہیں جناب! ایسا نہیں ہو سکتا کیوں کہ میں تراویح کے لیے لیٹ ہو رہا ہوں۔ اب ان کو کون سمجھاتا کہ جناب پیچھے جو ٹریفک جام میں تین ایمبولینسز کھڑی ہیں ان میں تڑپتے مریضوں کا کیا قصور ہے۔ ہر کوئی اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک چلانے میں مصرو ف ہے۔ پانچ منٹ کا فاصلہ پچاس منٹ میں طے ہوا۔ وجہ کیا؟ ہر کوئی رمضان کی تیاری میں مصروف ہے اور دوسرے سے آگے نکلنے کا متمنی ہے۔
میں اُمید تو نہیں کرتا لیکن خدشہ یہی ہے کہ آپ نے بھی اِس طرح کے بہت سارے واقعات دیکھیں ہونگے کہ لوگ صرف اِس وجہ سے غصے سے آگ بگولہ ہورہے ہوتے ہیں کہ موصوف روزے سے ہیں۔ رمضان کا مہینہ نہ صرف انسان کو اپنے نفس کو قابو کرنے میں مددگارہوتا ہے بلکہ یہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
پورا دن انسان بھوک و پیاس کی شدت سہتا ہے۔ اس کا نفس اس کوکھانے پینے پر مجبور کرتا ہے لیکن وہ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اور جو شخص اپنے نفس پر قابو پا لے وہ انسانیت کی معراج پانے کا راستہ ہموار کر لیتا ہے۔لیکن رمضان کا حقیقی پہلو انسان بھلا دیتا ہے۔ اوراُ س پہلو کو بھلا دینے سے وہ اپنی عبادات کو ناقص کر دیتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں جس عمل کا اجر کئی گنا ہے وہ ''صبر و برداشت'' ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم اس عمل پر پورا نہیں اترتے۔ہم انجانے میں اپنی عبادات کو بے وقعت کر دیتے ہیں۔
رمضان کے مہینے کا تقاضا یہی ہے کہ ہر معاملے میں صبرو برداشت سے کام لیں۔ غصے پر قابو پائیں۔ اکثر دفاتر میں لوگ اپنے زیر سایہ کام کرنے والے ملازمین کے ساتھ بہت غصے سے پیش آتے ہیں۔ ان پر سختی کرتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم کاروبار زندگی سے مکمل طور پر الگ ہو جائیں۔ روزہ ہمارے معمولات کو متاثر کرنے کا نام تو نہیں۔ بلکہ رمضان کا مہینہ تو انسان کو ایک مکمل ترتیب سکھاتا ہے۔ ہرکام کو اس کے مقررہ وقت پر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
میں اپنی مثال نہیں دیتا۔ آپ خود سے پوچھیں۔ کیا آپ جس دفتر میں کام کرتے ہیں وہاں لوگ دفتر میں یقینی طور پر تاخیر سے بھی آتے ہونگے اور خواہش جلدی گھر جانے کی بھی ہوگی۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ جناب نے روزہ رکھا ہے۔ بھلا اب کوئی اُن سے پوچھے کہ جناب یہ بات کہاں لکھی ہے کہ رمضان میں معمولات زندگی کو متاثر کرلیا جائے۔
بات صرف دفتر کی تو ہرگز نہیں ہے بلکہ بازاروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا جائزہ لیں تو ہمیں گالم گلوچ عام نظر آتی ہے۔ دوکاندار حضرات نماز کے وقت بہت اہتمام کے ساتھ مساجد کا رخ کرتے ہیں لیکن یہی لوگ جب کسی گاہک کے ساتھ معمولی سی بات پر تلخ کلامی پر اتر آتے ہیں حیرت ہوتی ہے کہ جو مہینہ خصوصی طور پر ہمیں صبر و برداشت کا درس دیتا ہے اسی مہینے میں ہم صبر کا دامن مکمل طور پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے ۔ دفتر سے نکلنے میں کچھ تاخیر ہوگئی اور افطار کا وقت کم ہی رہ گیا تھا۔ ارادہ تو یہ کیا تھا کہ موٹرسائیکل کو تیز رفتاری سے چلاکر گھر پہنچ جاوں گے۔ لیکن جب سڑک پر آیا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ہر کوئی موت کا کھیل کھیل رہا ہے۔ جس کو دیکھو وہ بس بھاگنے کے چکر میں۔ نہ کوئی یہ دیکھ رہا ہے کہ تیز رفتاری نہ صرف اُس کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی نقصان کا سبب بن سکتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے کو جگہ دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ایسے ماحول کو دیکھتے ہوئے میں نے یہی فیصلہ کیا کہ موٹرسائیکل کی رفتار کو کچھ کم ہی کرلیا جائے اِس طرح دیر سے ہی کم از کم گھر پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں وگرنہ کہیں اور ہی نہ پہنچ جاوں۔
اگر آج ہم رمضان کے بابرکت مہینے میں یہ عہد کر لیں کہ ہم دوسروں کی خطاؤں کو درگزر کریں گے۔ کسی کی زیادتی پر صبر سے کام لیں گے۔ اور کسی کے غلط طرز عمل پر بھی برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے تو انفرادی سطح پر تو ہم میں ایک مثبت تبدیلی آئے گی ہی لیکن اجتماعی سطح پر بھی ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔ اور رمضان دراصل صبر و برداشت کا ہی درس لیے ہوئے ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
یہ ابھی کچھ ہی دن پہلے کی ہی بات تھی کہ ایک صاحب جن کی وجہ سے پوری ٹریفک بلاک تھی، جب مودبانہ گذارش کی کہ جناب اگر آپ تھوڑی سی زحمت کر لیں تو تمام ٹریفک کھل جائے گی تو ان کا جواب تھا کہ نہیں جناب! ایسا نہیں ہو سکتا کیوں کہ میں تراویح کے لیے لیٹ ہو رہا ہوں۔ اب ان کو کون سمجھاتا کہ جناب پیچھے جو ٹریفک جام میں تین ایمبولینسز کھڑی ہیں ان میں تڑپتے مریضوں کا کیا قصور ہے۔ ہر کوئی اپنی مدد آپ کے تحت ٹریفک چلانے میں مصرو ف ہے۔ پانچ منٹ کا فاصلہ پچاس منٹ میں طے ہوا۔ وجہ کیا؟ ہر کوئی رمضان کی تیاری میں مصروف ہے اور دوسرے سے آگے نکلنے کا متمنی ہے۔
میں اُمید تو نہیں کرتا لیکن خدشہ یہی ہے کہ آپ نے بھی اِس طرح کے بہت سارے واقعات دیکھیں ہونگے کہ لوگ صرف اِس وجہ سے غصے سے آگ بگولہ ہورہے ہوتے ہیں کہ موصوف روزے سے ہیں۔ رمضان کا مہینہ نہ صرف انسان کو اپنے نفس کو قابو کرنے میں مددگارہوتا ہے بلکہ یہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
پورا دن انسان بھوک و پیاس کی شدت سہتا ہے۔ اس کا نفس اس کوکھانے پینے پر مجبور کرتا ہے لیکن وہ صرف اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اور جو شخص اپنے نفس پر قابو پا لے وہ انسانیت کی معراج پانے کا راستہ ہموار کر لیتا ہے۔لیکن رمضان کا حقیقی پہلو انسان بھلا دیتا ہے۔ اوراُ س پہلو کو بھلا دینے سے وہ اپنی عبادات کو ناقص کر دیتا ہے۔ رمضان کے مہینے میں جس عمل کا اجر کئی گنا ہے وہ ''صبر و برداشت'' ہے لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم اس عمل پر پورا نہیں اترتے۔ہم انجانے میں اپنی عبادات کو بے وقعت کر دیتے ہیں۔
رمضان کے مہینے کا تقاضا یہی ہے کہ ہر معاملے میں صبرو برداشت سے کام لیں۔ غصے پر قابو پائیں۔ اکثر دفاتر میں لوگ اپنے زیر سایہ کام کرنے والے ملازمین کے ساتھ بہت غصے سے پیش آتے ہیں۔ ان پر سختی کرتے ہیں۔ روزہ رکھنے کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ ہم کاروبار زندگی سے مکمل طور پر الگ ہو جائیں۔ روزہ ہمارے معمولات کو متاثر کرنے کا نام تو نہیں۔ بلکہ رمضان کا مہینہ تو انسان کو ایک مکمل ترتیب سکھاتا ہے۔ ہرکام کو اس کے مقررہ وقت پر کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
میں اپنی مثال نہیں دیتا۔ آپ خود سے پوچھیں۔ کیا آپ جس دفتر میں کام کرتے ہیں وہاں لوگ دفتر میں یقینی طور پر تاخیر سے بھی آتے ہونگے اور خواہش جلدی گھر جانے کی بھی ہوگی۔ وجہ؟ وجہ یہ ہے کہ جناب نے روزہ رکھا ہے۔ بھلا اب کوئی اُن سے پوچھے کہ جناب یہ بات کہاں لکھی ہے کہ رمضان میں معمولات زندگی کو متاثر کرلیا جائے۔
بات صرف دفتر کی تو ہرگز نہیں ہے بلکہ بازاروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا جائزہ لیں تو ہمیں گالم گلوچ عام نظر آتی ہے۔ دوکاندار حضرات نماز کے وقت بہت اہتمام کے ساتھ مساجد کا رخ کرتے ہیں لیکن یہی لوگ جب کسی گاہک کے ساتھ معمولی سی بات پر تلخ کلامی پر اتر آتے ہیں حیرت ہوتی ہے کہ جو مہینہ خصوصی طور پر ہمیں صبر و برداشت کا درس دیتا ہے اسی مہینے میں ہم صبر کا دامن مکمل طور پر چھوڑ دیتے ہیں۔
ابھی کچھ ہی دن پہلے کی بات ہے ۔ دفتر سے نکلنے میں کچھ تاخیر ہوگئی اور افطار کا وقت کم ہی رہ گیا تھا۔ ارادہ تو یہ کیا تھا کہ موٹرسائیکل کو تیز رفتاری سے چلاکر گھر پہنچ جاوں گے۔ لیکن جب سڑک پر آیا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ہر کوئی موت کا کھیل کھیل رہا ہے۔ جس کو دیکھو وہ بس بھاگنے کے چکر میں۔ نہ کوئی یہ دیکھ رہا ہے کہ تیز رفتاری نہ صرف اُس کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی نقصان کا سبب بن سکتی ہے اور نہ ہی کوئی دوسرے کو جگہ دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ایسے ماحول کو دیکھتے ہوئے میں نے یہی فیصلہ کیا کہ موٹرسائیکل کی رفتار کو کچھ کم ہی کرلیا جائے اِس طرح دیر سے ہی کم از کم گھر پہنچنے کے امکانات زیادہ ہیں وگرنہ کہیں اور ہی نہ پہنچ جاوں۔
اگر آج ہم رمضان کے بابرکت مہینے میں یہ عہد کر لیں کہ ہم دوسروں کی خطاؤں کو درگزر کریں گے۔ کسی کی زیادتی پر صبر سے کام لیں گے۔ اور کسی کے غلط طرز عمل پر بھی برداشت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے تو انفرادی سطح پر تو ہم میں ایک مثبت تبدیلی آئے گی ہی لیکن اجتماعی سطح پر بھی ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گا۔ اور رمضان دراصل صبر و برداشت کا ہی درس لیے ہوئے ہے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔