منظر نامہ

سیاسی عدم استحکام ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔


شکیل فاروقی December 10, 2024
[email protected]

مضبوط معیشت کے فروغ اور تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کو لگام دینے میں پاکستان کی مسلسل ناکامی کی وجوہات میں نااہل حکمرانی اور کرپشن کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتر ہوتے ہیں۔ اِس کی ذمے دار کوئی ایک حکومت نہیں ہے۔ وہ حکومت بھی جو تبدیلی کے نام پر برسر اقتدار آئی تھی محض پروپیگنڈا کرنے کے سوائے اور کچھ بھی نہیں کرسکی۔

 ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ خرابی کہاں ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہماری ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حکومتوں کی بار بار تبدیلی کی وجہ سے ملک میں ٹھہراؤ نہیں آسکا۔ نہ کوئی روڈ میپ بن سکا اور نہ کوئی طویل المدت منصوبہ سازی کی جاسکی۔ ہر کے آمد عمارت نو ساخت۔ مطلب یہ ہے کہ ہر نئی حکومت نے اپنی مرضی کی تبدیلیاں کیں۔پہلے ن لیگ کی حکومت آئی جس نے اپنے انداز میں ملک کے نظام کے ساتھ من چاہے فیصلے کیے اور پھر اس کے بعد آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت نے الٹ پلٹ کی۔ بار بار کی اکھاڑ پچھاڑ کی وجہ سے معیشت متاثر ہوئی اور ملکی اور بیرونی سرمایہ کار اِس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے دلچسپی نہ لے سکی۔

دوسری جانب کرپشن ملک کی معیشت کو دیمک کی طرح چاٹتی رہی۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آوائے کا آوا ہی خراب ہے۔فنڈز کی خرد برد نے ملک کی معیشت کو بھاری نقصان پہنچایا ہے لیکن وقتی اور نمائشی پکڑ دھکڑ کے سوائے نتیجہ کوئی نہیں نکلتا اور وقت گزرنے کے بعد یہی ہوتا ہے کہ رات گئی، بات گئی۔اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ جمہوریت مفت میں بدنام ہو رہی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ بقول شاعر۔

مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

گویا ایک حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ کسی کا طریقہ واردات کچھ ہے اور کسی کا کچھ اور۔ جیسے ع کی شکل ویسی ہی غ کی شکل۔ فرق صرف نقطے کا ہے۔ ٹیکسوں کا ناقص نظام ملک کی معاشی ترقی میں ایک اور رکاوٹ ہے۔ فیڈرل بورڈ آف رؤنؤ (ایف بی آر) اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکا جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اِس کے کار پرداز کی کارکردگی مشکوک ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ 240 ملین سے زیادہ کی آبادی میں صرف 3 ملین ٹیکس ادا کرنے والے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو پورے محصولات وصول نہیں ہوتے۔

ملک کا آئین بڑی مشکل سے بنایا گیا تھا اور کوشش یہ کی گئی تھی کہ اس میں تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر ایسا آئین تیارکیا جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کا مکمل اتفاق ہو لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آئین کے ساتھ چھیڑ خانی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں آئین کی روح کو نقصان پہنچ رہا ہے۔معلوم نہیں کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر رُکے گا اور رُکے گا بھی یا نہیں۔ اس صورتحال پر ملک کے باشعور شہرؤں کو گہری تشویش لاحق ہے۔

یہ بات سنتے سنتے کان پک گئے ہیں کہ وطن عزیز نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس موڑ سے مڑنے کا سلسلہ کب ختم ہوگا۔ عام شہری مسلسل انتظار کرتے کرتے تھک کر نڈھال ہو رہے ہیں کہ حالات کب اور کیسے ٹھیک ہوں گے کؤنکہ ان کی ہمت اور سکت جواب دے رہی ہے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ حکمرانوں کو اقتدار کی ایسی ہوس ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ایک زمانے میں سادہ لوح غریب عوام کو روٹی،کپڑا اور مکان کے نعرے سے بہلایا پھسلایا گیا تھا لیکن یہ ایک جھانسہ کے سوا اورکچھ بھی نہیں تھا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے اعلانات اور دعوئوں کے باوجود بنیادی اشیاء اور ادویات کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی بلکہ اُن میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔

بیچارہ عام آدمی مہنگی دوا خریدنے سے بھی قاصر ہے۔ غنیمت ہے کہ خیراتی ادارے موجود ہیں جن کی وجہ سے غریب آدمی کی روح اور جسم کا رشتہ برقرار ہے۔ ایک جانب یہ صورتحال ہے اور دوسری جانب وہ خوش قسمت لوگ ہیں جنھیں چھینک بھی آجاتی ہے تو علاج کے لیے بیرون ملک چلے جانے کی سہولت میسر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں