معزول صدر بشار الاسد کے فرار ہونے کے بعد شام میں عدم استحکام کی صورتحال ہے، جب کہ اسرائیل نے اس صورتحال کا ناجائز فائدہ اٹھا کر دمشق کے قریب دفاعی اہداف پر بڑا حملہ کردیا ہے۔ اسرائیل نے شامی مقبوضہ گولان کے بفر زون میں مزید علاقے پر قبضہ کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے لبنان کے وزیراعظم سے ٹیلی فون پر بات کر کے شام میں پھنسے پاکستانیوں کے بیروت کے راستے انخلا میں مدد مانگی ہے۔
شام کی یہ جنگ کب تک امن میں بدلے گی؟ اگر شام کی جنگ کسی اور شکل میں شروع ہوجاتی ہے تو مشرق وسطیٰ پراس کے اثرات کس کس سمت اور شکل میں سامنے آئیں گے؟ یہ وہ اہم سوالات ہیں جن کا جواب آنے والا وقت دے گا۔ اس وقت خطے میں ایک نئی جنگ کی شروعات بھی بعید از امکان نہیں ہے۔ جس میں ابتدائی اور فطری طور پر پہلے درجے اور دائرے میں مشرق وسطیٰ کے پرانے رکن ممالک کے لیے خطرات زیادہ ہوں گے۔
امریکا کی خاص توجہ شام کے کیمیائی ہتھیاروں پر مرکوز ہے تاکہ یہ خطرناک ہتھیارکسی غلط ہاتھوں میں نہ جائیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا انتہائی محتاط اقدامات کررہا ہے اور ترکی کے حکام کے ساتھ اس حوالے سے رابطے میں ہے۔ امریکا کی توجہ ایک نئے اور مستحکم شام کی تشکیل پر ہے، امریکا کا ماننا ہے کہ شامی باغی رہنما اب تک درست بیانات دے رہے ہیں، جو ظاہرکرتا ہے کہ باغیوں کی حمایت کسی حد تک امریکا کی پالیسی کا حصہ ہو سکتی ہے۔ شام میں موجود روسی اڈوں کی حیثیت اور مستقبل کے بارے میں امریکا کسی قیاس آرائی سے گریزکررہا ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ یہ عالمی سطح پر اہم سیاسی اور اسٹرٹیجک سوالات کو جنم دے گا۔
سعودی عرب، ایران اور قطر نے اسرائیلی قبضے میں توسیع اور شام پر حملوں کی مذمت کی ہے، جب کہ مصر نے گولان میں اسرائیلی قبضے کو ’’کُھلا ڈاکا‘‘ قرار دے دیا۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق 1974 کے معاہدے کے بعد پہلی بار اسرائیلی فوج اس بفرزون میں داخل ہوئی ہے۔ بشار الاسد کا روس پہنچنا اور انھیں سیاسی پناہ ملنا ممکنہ طور پر امریکا اور مغربی ممالک کے لیے باعث تشویش ہوسکتا ہے۔ شام میں اسد حکومت کے خاتمے کے بعد خطے میں ایران، ترکی اور سعودی عرب جیسے ممالک کی پوزیشن اور اثر رسوخ میں تبدیلی آسکتی ہے، جو خطے کے سیاسی توازن پر اثر ڈالے گی۔
شام کے اس اچانک سامنے آنے والے منظر نامے پر پریشانی میں مبتلا لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے۔ ان میں کئی وہ لوگ ہیں جو شام کے اس باغیانہ اور جنگی تناظر میں پورے مشرق وسطیٰ کو جلتا ہوا دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ انھیں خوف ہے کہ اس خطے میں جاری جنگ کا اختتام کہاں جا کے ہو گا اور آنے والے دنوں میں کس کا مقدر بارود اور بغاوت کی زد پر ہوگا۔
بشار الاسد کی پشت پرکھڑی ایران اور روس جیسی بڑی طاقتیں جب کہ دوسری طرف مغربی طاقتوں کے علاوہ عرب اور دیگر ممالک کی پراکسیزکے دوپاٹوں میں بے گناہ شامی تیرہ برس سے کچلے جا رہے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ شام میں دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں اپنے اپنے مفادات کے لیے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ ان میں سے ہرکسی کی خواہش ہے کہ خانہ جنگی کی یہ آگ بڑھتی رہی، تاکہ اسلحہ کے بیوپاری اپنا اسلحہ بیچتے رہیں اور دوسروں کے وسائل لوٹنے والے جی بھرکے اپنی آرزو پوری کرسکیں۔ مغربی ممالک، بالخصوص امریکا اور یورپی یونین، اس تبدیلی کو شام میں استحکام اور جمہوریت کے قیام کے لیے ایک موقع کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کریں گے۔ دوسری جانب، روس اور چین جیسی عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گی۔
عالمی طاقتیں شامی خانہ جنگی کی آگ بڑھکانے میں کتنی دلچسپی رکھتی ہیں۔ امریکا اور دیگر یورپی ممالک بظاہر بشار کے اتحادی روس اور ایران پر زور دے رہے تھے کہ وہ انسانیت کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم سے باز آجائیں، لیکن پس پردہ یہی قوتیں ہیں جنھوں نے شام اور عراق میں انسانیت کے خلاف تاریخ کے بد ترین مظالم کی بنیاد رکھی۔ 2003 میں امریکا کا عراق پر حملہ، عرب بہار اور داعش ایسے دہشت گردوں کو مشرق وسطیٰ میں کھڑا کرنے کے پیچھے صرف اور صرف ایک سوچ کارفرما ہے کہ کس طرح مشرق وسطیٰ کے وسائل پر کنٹرول برقرار رکھا جائے۔ اس سلسلے میں روس امریکا، برطانیہ، فرانس سمیت ساری عالمی طاقتیں ایک پیج پر ہیں۔خانہ جنگی کے نتیجے میں مہاجرین انتہائی بے کسی کی حالت میں شام سے منسلک سرحد پر اقوام متحدہ کے مہاجرکیمپوں میں رہ رہے ہیں جب کہ دس لاکھ سے زیادہ پناہ گزین بحیرہ روم کے راستے یورپ میں پہنچے ہیں۔ ان میں سے ہزاروں افراد پناہ حاصل کرنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ دنیا میں تارکین کا اس وقت تک کا سب سے بڑا المیہ ہے اور اس نے ساری دنیا کو ہلا کے رکھا ہوا ہے۔ میدان پر صورت حال یہ تھی کہ معزول صدر بشار الاسد کے ساتھ روس اور ایرانی فوجی طاقت اور جنگجو ملیشیا تھی، جب کہ عرب ممالک ترکی اور امریکا سفارتی محاذ اور مالیاتی امداد اپوزیشن کو فراہم کر رہے تھے۔ اس طرح دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اور علاقائی طاقتیں شام میں ملوث ہوچکی تھیں۔
2011میں عرب بہار کے دوران شام میں عوامی احتجاج شروع ہوئے، جن میں جمہوریت، انسانی حقوق اور آزادی کے مطالبات کیے گئے۔ ان احتجاجوں کو طاقت سے کچلنے کی حکومتی کوششوں نے جلد ہی ایک خونریز خانہ جنگی کی صورت اختیارکر لی، جو 14 سال تک جاری رہی۔ خانہ جنگی کے دوران لاکھوں افراد جاں بحق ہوئے اور لاکھوں مزید بے گھر ہو گئے۔ جنگ کے دوران مختلف اندرونی اور بیرونی قوتیں ملوث ہوئیں، جنھوں نے شام کو ایک پراکسی جنگ کا میدان بنا دیا۔ بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ عوامی احتجاج کی طاقت، بین الاقوامی دباؤ اور اندرونی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔ اس زوال کو ایک ایسے لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے گا، جس نے شام کی تاریخ کا رخ موڑ دیا۔
معصوم بچوں کی دل ہلا دینے والی تصویروں نے پوری دنیا کو ایک غم اور الم میں مبتلا کیا ہوا ہے، لیکن کیا ایسی خانہ جنگیوں کا کوئی حل نکالا جاسکتا ہے۔ کیا یہ دکھ کا اظہار شام کے بے کس شہریوں کے لیے دوا کا کام کر سکتے ہیں۔ یہ سوال آج پوری انسانیت کو خود سے پوچھنا چاہیے۔ بار بار مذاکرات ہوتے ہیں لیکن عالمی طاقتوں اور مسلم ممالک اور خود شامی حکومت کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے یہ ناکام ہوجاتے تھے اور پھر یہ خون اور آگ کا کھیل اسی طرح جاری رہتا۔ ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور دوسرے مسلم ممالک میں یہ عالمی طاقتیں دخل اندازی نہ کریں لیکن خود مسلم ممالک کا یہ حال ہے کہ وہ ان کو نہ صرف مداخلت کی دعوت دیتے ہیں اور اپنے عوام پر ظلم کرنے کے لیے شراکت دار بناتے ہیں۔ دوسری جانب مسلم اُمہ کی بے بسی کا یہ عالم ہے کہ وہ خود او آئی سی جیسی تنظیم کے باوجود شام جیسے المیہ کا کوئی پر امن حل نکالنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ ویسے تو او آئی سی شامی حکومت کے خلاف بار بار مذمتی قراردادیں منظور کرچکی ہے لیکن وہ اس لیے بے اثر ہیں کہ ان ملکوں کے آپس کا نفاق انھیں کوئی عملی قدم اٹھانے سے روکتا ہے۔ طاقت میں مست حکمرانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ قدرت کی ڈھیل کو اپنی طاقت نہ سمجھیں۔
اسد کی حکومت کے خاتمے سے شامی پناہ گزینوں کے اپنے وطن واپس جانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے، جو کہ عالمی سطح پر ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے، اگرچہ اس سب کا حقیقی اثر شام کی داخلی صورت حال، عالمی برادری کے اقدامات اور خطے کے دیگر مسائل پر منحصر ہوگا۔ شام کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے، اب یہ دیکھنا ہوگا کہ شام اور خطے کے دوسرے ممالک اس تبدیلی کا کس طرح سامنا کرتے ہیں اور اسے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔ شامی عوام کے لیے یہ موقع ایک نئے سیاسی، سماجی، اور اقتصادی دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ تاہم، یہ انحصار کرے گا کہ نئی حکومت کس حد تک عوام کے مسائل کو حل کرنے اور ایک جامع نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔ اگر یہ تبدیلی موثر سیاسی قیادت اور عوامی شمولیت کے ساتھ آگے بڑھی، تو شام نہ صرف خانہ جنگی کے زخموں کو مندمل کر سکے گا بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک مثبت مثال بھی بن سکتا ہے۔