چند گنے چنے سیاستدانوں کو چھوڑ کر جنھیں ایک محاورے کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے، سیاستدانوں کی بھاری اکثریت اور اسٹیبلشمنٹ میں کوئی اختلاف نہیں ہے خصوصاً ان دنوں جو سیاستدان اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی سیاستدانوں کو للکار رہے ہیں، خود ان کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کی خدمت میں حاضر رہی ہے۔
اکثر پاکستانیوں نے ان سیاستدانوں کو دور سے دیکھا ہے اور ان کے خوش کن وعدوں اور جوشیلی تقریروں پر سر دھنتے آئے ہیں لیکن وہ اپنے ان رہنماؤں کی حقیقت حال سے ہر گز واقف نہیں ہیں اور اب تو بات اس نہج پر پہنچ گئی ہے کہ میں نہ مانوں والا معاملہ ہو چکا ہے۔
عوام کو ہوش و حواس سے اس قدر بیگانہ کر دیا گیا ہے کہ وہ ماضی قریب کو بھی بھول گئے ہیں حالانکہ ہمارے کسی بھی سیاستدان کا ماضی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی اور منشاء کے تابع رہا ہے اور انھی کی آشیر باد سے وہ اقتدار کی مسند پر براجمان رہتے آئے ہیں،وہی اپنی فوج کے خلاف کوئی تازہ محاذ برپا کیے ہوئے ہیں، اگر یہ محاذ وہ لوگ بناتے جو جمہوریت کی بھٹی سے کندن بن کر آئے ہوتے تو وہ حق بجناب تھے کہ وہ پہلا پتھر پھینک دیتے۔ لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تازہ عمل سے ماضی کے سیاسی گناہوں کا کفارہ ادا کرنا چاہتے ہیں تو پہلے انھیں اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیے۔
ہماری قوم کو بہت جلد بھول جانے کی عادت ہے اور ماضی قریب بھی اسے یاد نہیں رہتا۔ جس درخت کی چھاؤں تلے بیٹھ کر پھلے پھولے اسی درخت پر بیٹھ کر اس کی شاخوں کو کاٹنا شروع کر دیں گے تو پھر اس کا انجام وہی ہو گا جو آج ہو رہا ہے اور ملک میں جو لولی لنگڑی جمہوریت ہے وہ اسی درخت کے مرہون منت ہے اور اگر شاخیں کاٹنا شروع کر دیں گے تو دھڑام سے منہ کے بل آگریں گے۔
ہمیں یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ اسٹبلشمنٹ ہماری اچھی طرح دیکھی بھالی ہوئی ہے اور اس نے نام نہاد موجودہ مزاحمتی سیاستدانوں کے دست و بازو خوب آزمائے ہوئے ہیں۔ ہماری سیاستدانوں کی پنیری اسی زمین سے نکلی ہے اور جمہوریت کا راستہ اسی کوچہ و بازار سے گزرتا ہے البتہ اگر ہمارے سیاستدان یہ سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کا سیاست میں عمل دخل ہے تو انھیں اس عمل دخل کو منتخب اسمبلیوں کے ذریعے یکجہتی اور افہام و تفہیم سے روکنے کی کوئی سبیل پیداکرنا ہو گی۔
فوج کے ساتھ ٹکراؤ اس ملک کے ساتھ ٹکراؤ والا معاملہ ہے اور یہ ٹکراؤ ملک کی بقاء کے لیے سود مند ہر گز نہیں ہے اس ٹکراؤ سے گھات لگائے بیٹھے ہمارے دشمن فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں۔ پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے اور ہمارے سیاستدان جانے انجانے میں پاکستان کی کمزروی میں اپنا حصہ بقدر جسہ ڈال رہے ہیں۔
آئی ایم ایف کی غلامی کا مزہ قوم چکھ رہی ہے اور اس کی مرضی کے بغیر ہم ملکی معیشت کو سہارا دینے سے قاصر ہیں تو یہ مان لیجیے کہ آپ ایک بے بس اور مجبور قوم بن چکے ہیں کیونکہ جس کی مرضی کے بغیر آپ اپنا بجٹ نہیں بنا سکتے عوام کو کوئی سہولت فراہم نہیں کر سکتے تو اور بے بسی اور مجبوری کسے کہتے ہیں۔ ڈریں اس وقت سے جب پاکستان کی معیشت کو بہانہ بنا کر بیرونی قوتیں ہمارا ایٹم بم چھیننے کی کوشش کریں گے جو ہماری بقاء کا ضامن ہے۔
دوسری جانب اگر ملک میں جاری سیاسی سرگر میوں کی بات کی جائے جن کی وجہ سے ملک کا کاروبار جمود کا شکار ہو چکا ہے اور آئے روز کے دھرنوں نے معیشت پر کاری ضرب لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ ان دھرنوں کا موجب ہمارے کل کے انتخابات ہیں جن میں عوام کے ووٹ کا احترام نہیں کیاگیا اور اس احترام کی بحالی کے لیے تحریک انصاف کے کارکنان بہت سرگرم ہیں، ان دل و دماغ میں جو لاواپک رہا ہے، وہ ملک کے لیے کوئی نیک شگون کی بات نہیں ہے ۔
ان کے لیڈر جیل میں ہیں اور وہ جیل سے ہی سیاسی محاذ کو گرمائے ہوئے ہیں۔ انھوں نے تازہ ترین دھمکی سول نافرمانی کی دی ہے جس سے ان کی پارٹی کے بیشتر رہنماء بھی متفق نظر نہیں آتے، اس سے پہلے بھی وہ ایک بار اسلام آباد میں اپنے مشہور زمانہ دھرنے میں سول نافرمانی کی کال دے چکے ہیں لیکن ان کی وہ کال بھی ناکام ہو گئی تھی، شاید ان کو اب تک یہ سمجھ نہیں آسکی کہ سول نافرمانی کیا ہوتی ہے؟ یہ کب ہوتی ہے اور کس کے خلاف ہوتی ہے؟ پاکستان میں تو یہ اس گئے گزرے ملک کا بھٹہ ہی بٹھا دے گی، مجھے یقین ہے کہ ان کا ہر ساتھی ٹیکس بھی دے گا اور بل بھی دے گا ورنہ وہ ان آسائشوں کے بغیر گزراہ کیسے کرے گا۔
اس طرح کی بے مقصد سیاست اور حکمرانی کے طلبگار اس ملک کا ہی دھیان کر لیں جس کے اقتدار کے لیے وہ اتنی تکلیفیں اٹھا رہے ہیں، خدا کے واسطے اس ملک کو چلنے دیں، یہ کس کتاب میں لکھا ہے کہ فلاں فلاں ہو تو ملک چلے گا ، فلاں فلاں نہ ہو تو ملک نہ چلے ، ہاتھ جوڑ کر عرض ہی کی جا سکتی ہے کہ رحم کیجیے! اسمبلیوں کو استعمال کریں ۔
گفت و شنید کے دروازے کھولیں ، ہماری سیاست اس وقت ایک مدار میں گھوم رہی ہے جس سے نکلنے کی سبیل بہت آسان ہے ، صرف اپنی اپنی اناؤں کے خول سے باہر نکلنا ہوگا۔ خدارا اپنی اناؤں پر اس ملک کو قربان نہ کریں ۔ سیاست اور حکمرانی تب ہی ہو گی جب ملک ہوگا، ملک کی فکر کریں ۔ سیاسی قیادت ہی ملک کو چلا سکتی ہے بشرطیکہ سب سیاستدان بشمول بانی پی ٹی آئی اس ملک اور عوام سے مخلص ہوں۔