سندھ کابینہ نے اب یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرزکی تقرری کے ضابطے میں تبدیلی کی منظوری دیدی ہے۔ حکومت سندھ کے ایک فیصلے کے مطابق وائس چانسلر کے لیے اہلیت متعلقہ شعبہ میں ماسٹر ڈگری کے ساتھ مکمل پروفیسر شپ کے علاوہ گریڈ 21 کا بیوروکریٹ بھی وائس چانسلر بننے کا اہل ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ اب غیر تدریسی عملے کے علاوہ ٹیچرزکا تقرر بھی کنٹریکٹ کا بنیاد پر ہوگا۔ سندھ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ تعلیمی بورڈز کے مسائل حل کرنے کے لیے سندھ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن آرڈیننس میں ترمیم کی جائے گی۔ اب بورڈ کے چیئرمین بھی بیوروکریٹ ہوںگے۔
سندھ حکومت کے یہ فیصلے سرکاری یونیورسٹیوں کی ہیت کو تبدیل کر دیں گے۔ جدید تعلیمی نظام میں تعلیم کے مختلف مدارج میں جدید نظام میں پہلا مرحلہ اسکول کی تعلیم کا ہے۔ اسکول میں بچے کی شخصیت بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ بچہ بنیادی چیزیں سیکھتا ہے۔ اسکول میں استاد اس کا آئیڈیل ہوتا ہے، پھرکتابیں شامل ہوجاتی ہیں اور بچے کو زبانوں کے علم کے ساتھ لکھنا اور پڑھنا آتا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسکول کا استاد بچے پر جسمانی تشدد کرنے کا حق رکھتا تھا مگر تعلیم پر ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں بچوں کے حقوق کا تصور آیا اور پھر بچے کو سوال کا حق بھی مل گیا۔
بچہ میٹرک کرنے کے بعد کالج میں جاتا ہے۔ کالج میں خاصا آزادانہ ماحول ہوتا ہے۔ اب بچہ کو خاصی آزادی ملتی ہے۔ اسکولوں میں بچوں کی تنظیمی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے کلاس کا نمایندہ CR بننے کا موقع ملتا ہے۔ کچھ اسکولوں میں مختلف نوعیت کی سوسائٹیاں بھی قائم ہوتی ہیں۔ ایک زمانے میں جب طلبہ یونین کا ادارہ موجود تھا تو طالب علم جمہوری رویے سے آشنا ہوتا تھا۔ مختلف طلبہ تنظیموں سے بھی اس کا واسطہ پڑتا ہے مگر اسکول اور کالج میں ابھی طلبہ کو تحقیق کا موقع نہیں ملتا مگر برطانوی نظام تعلیم O لیول اور A لیول میں نصاب جدید سائنسی بنیادوں پر مرتب کیا جاتا ہے، اس بناء پر طلبہ کو مختلف موضوعات پر تحقیق کا موقع ملتا ہے۔
دنیا بھر میں یونیورسٹی کا تصور مختلف ہے۔ یونیورسٹی کے بنیادی فرائض میں تدریس کے علاوہ تحقیق بھی شامل ہے۔ یہ تصورکیا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں طلبہ اور اساتذہ ایک کھلے ماحول میں ہر موضوع پر تحقیق کریں گے اور تحقیق کے ذریعے معاشرے اور ریاست کو نئے نظریات سے آگاہ کریں گے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ طالب علموں کے لیے نصاب بھی خود تیار کریں گے اور وقت کے ساتھ اس نصاب میں تبدیلی کی جائے گی۔
اساتذہ اور طلبہ یونیورسٹی کے اداروں میں شامل ہو کر اس کا نظام چلائیں گے۔ اسی بناء پر یونیورسٹی کو مکمل خود مختاری دی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کے بنیادی ادارے اساتذہ اور طلبہ کے لیے قوانین بھی تیارکریں گے۔ اس سارے عمل کو علمی آزادی Academic Freedom کہا جاتا ہے۔ یورپ کی قدیم یونیورسٹیاں آج بھی علمی آزادی کے ادارے کی بناء پر دنیا بھر میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ یہ یونیورسٹیاں زندگی کے ہر شعبے میں تحقیق پر اربوں روپے خرچ کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طبی سائنس میں ہونے والی تحقیق کی راہ پر نئی دوائیاں ایجاد ہوتی ہیں۔ معاشیات میں ہونے والی تحقیق سے عام آدمی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے راستہ ہموار ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ صدی میں یونیورسٹیوں میں تحقیق کا رجحان نہیں تھا۔ ایم اے اور ایم ایس سی میں کسی موضوع پر تحقیق کو اضافی مضمون کا درجہ حاصل تھا اور محدود پیمانے پر ایم فل اور پی ایچ ڈی ہوتا تھا۔ طبی سائنس اور انجنیئرنگ یونیورسٹیوں میں تو تحقیق ہوتی نہیں تھی۔ یہ یونیورسٹیاں ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے اپنے اساتذہ کو امریکا اور یورپی ممالک میں بھیجتی تھیں۔ صرف چند نوجوان اپنے خرچ پر یورپی اور امریکی یونیورسٹیوں میں تحقیق کرتے تھے مگر نئی صدی کے آغاز کے ساتھ دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کے بنیادی ڈھانچے میں نمایاں تبدیلیاں رونما ہوئیں۔
اب یونیورسٹی گرانٹ کمیشن کی جگہ ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC وجود میں آیا۔ ایچ ای سی نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں نافذ نئے کورس رائج کیے اور بی ایس کی سطح سے تحقیق کا مضمون تدریس میں شامل ہوا اور پہلے سمسٹر سے تحقیق لازمی حیثیت اختیارکرگئی، یوں ایم ایس اور پی ایچ ڈی یونیورسٹی اساتذہ کے لیے لازمی قرار پائے۔ ایچ ای سی بہت سی وجوہات کی بناء پر تحقیق کے لیے ویسے فنڈز فراہم نہیں کرسکتا جیسے فنڈز بھارت، جاپان، یورپ اور امریکا کی یونیورسٹیوں کے پاس ہوتے ہیں۔ ریاستی بحرانات کی بناء پر یونیورسٹی کو ملنے والی گرانٹ کم ہوئی۔
ایچ ای سی کے سربراہوں نے یہ بیانیہ اختیارکیا کہ یونیورسٹیاں مالیاتی خود مختاری کے لیے فیسوں میں اضافہ کریں۔ اس صورتحال میں فی کورس کی فیس میں کئی گناہ اور بعض مضامین کی فیسوں میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔ تعلیمی آڈٹ نہ ہونے کی بناء پر غیر معیاری پی ایچ ڈی کے تھیسز بھی سامنے آئے۔ اس کے ساتھ ہی علمی سرقہ نویسی Plagiarism کا رجحان بھی تقویت پاگیا مگر مجموعی طور پر پاکستان کی یونیورسٹیاں ایک جدید دور میں داخل ہوئیں۔
یونیورسٹی کے مسائل کو سمجھنے اور معیارِ تعلیم کو بلند کرنے اور دنیا بھر میں یونیورسٹیوں میں تحقیق کے نتیجے میں سامنے آنے والے نئے رجحانات کو پاکستان یونیورسٹیوں میں رائج کرنے کا فریضہ وہی شخص بہتر طور پر انجام دے سکتا ہے جو یونیورسٹی کلچر میں ابھرکر سامنے آیا ہو اور خود تحقیق کی ہو، وہ شخص صرف پروفیسر ہوسکتا ہے، وہ طلبہ کے رجحانات سے واقف ہوتا ہے اور ان کے مسائل کا حل نکالتا ہے۔
اچھے وائس چانسلر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خود بڑا محقق ہو، انتظامی تجربہ ہو اور طلبہ کی نفسیات کو سمجھتا ہو۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بہت سے اساتذہ وائس چانسلر گزرے ہیں جنھوں نے یونیورسٹی میں بڑے بڑے بحرانوں کا حل بغیر کسی امتناعی اقدام کے کیا۔ جب ایک بیوروکریٹ وائس چانسلر تعینات ہوگا تو وہ علمی معاملات سے نابلد ہوگا مگر ان پر فیصلے کرے گا۔ ایم ایس اور پی ایچ ڈی کے تھیسز اور تحقیق کے لیے موضوعات کے بارے میں فیصلے کا تنہا مجاز ہوگا۔ یوں بیوروکریٹ وائس چانسلرکے لیے طلبہ اور اساتذہ کی علمی آزادی کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
ایک بیوروکریٹ کے پاس طلبہ، اساتذہ اور غیر تدریسی عملے سے نمٹنے کا صرف انتظامی راستہ ہی ہوگا۔ اس کے لیے علمی ادارے کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی جس سے یونیورسٹی میں علمی آزادی کو سخت نقصان ہوگا۔ اساتذہ کو کنٹریکٹ پر رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ استاد ہر وقت اپنے افسران کی تابعداری پر مجبور ہوگا۔ ایک زمانے میں چیئرمین اور ڈین مستقل ہوتے تھے، جونیئر اساتذہ کے ساتھ ان کا رویہ ڈکٹیٹرکا ہوتا تھا۔ اس وقت اساتذہ دس، دس سال تک ایڈہاک بنیادوں پرکام کرنے پر مجبور ہوتے تھے اور جو استاد اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتا تھا تو وہ ملازمت سے فارغ کردیا جاتا تھا۔
ناتجربہ کار بیوروکریٹ چارج سنبھالیں گے تو وہاں پر بھی صورتحال خراب ہوگی۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت برسر اقتدار آئی تو یونیورسٹی کے اس قانون میں تبدیلی کردی جو پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت حکومت نے سنڈیکیٹ سے رجسٹرار اور ڈائریکٹر فنانس کے تقررکا اختیار چھین لیا گیا۔ اس ترمیم سے وائس چانسلر بے اختیار ہوئے مگر جب اساتذہ نے احتجاج کیا تو حکومت نے ترمیم تو واپس نہ لی مگر کراچی یونیورسٹی میں اور سندھ یونیورسٹی کو اس قانون سے مستثنیٰ قرار دیا تھا البتہ دیگر یونیورسٹیوں میں یہ قانون نافذ ہوگیا۔
وفاقی اردو یونیورسٹی کی اساتذہ یونین کے سابق سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عرفان عزیز کا کہنا ہے کہ ’’ جامعات کے وائس چانسلرز کے عہدے کے لیے غیر پی ایچ ڈی افراد کی تقرری نہ صرف تعلیمی اداروں کے ساتھ ناانصافی اور غیر اخلاقی ہوگی بلکہ یہ پاکستانی جامعات میں تعلیمی معیار میں مزید گراؤٹ کا سبب بنے گی۔ یہ فیصلہ بین الاقوامی روایات اور اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہوگا۔‘‘
دنیا بھر میں یونیورسٹی کی سربراہی تعلیم و تحقیق میں ممتاز مقام رکھنے والے افراد کے سپرد کی جاتی ہے، اگرچہ حکومتی وزراء اس فیصلے کے حق میں دلائل دے رہے ہیں مگر پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق سینیٹر رضا ربانی نے اس ترمیم کو مسترد کردیا ہے۔ حکومت کو یونیورسٹیوں کی خود مختاری پر حملہ کرنے کے بجائے یونیورسٹیوں کے انتظامی اور مالیاتی بحران کے حل کے لیے مدد کرنی چاہیے۔