شام؛ اسد خاندان کی حاکمیت کی شام
شام کی تاریخ میں ایک نیا باب کھل چکا ہے۔ بشار الاسد، جو دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک اقتدار میں رہے، اب منظرعام سے غائب ہیں۔
یوں کہیے کہ حافظ الاسد نے جس انقلاب کی بدولت شام کی مسندِ اقتدار سنبھالی تھی اس کا خاتمہ ہو چکا ہے اور کم و بیش پچاس سال کے دور اقتدار کا خاتمہ ہو چکا۔
سابق شامی صدر نامعلوم مقام کے مسافر ہو چکے ہیں۔ اور مستقبل میں ان کیا مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں کیا کردار ہو گا اس حوالے سے صورتحال غیر یقینی ہے۔
عوامی احتجاج اور عالمی دباؤ کے نتیجے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ہوا۔ یہ تبدیلی نہ صرف شام بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کو سیاسی، سماجی، اور اقتصادی حوالے سے ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کرتی ہے۔
شام کے مستقبل کے بارے میں سوالات اٹھ رہے ہیں: کیا یہ تبدیلی واقعی شامی عوام کے لیے مثبت ثابت ہوگی؟ یا یہ محض ایک اور اقتدار کی تبدیلی ثابت ہوگی جو عوامی فلاح کے بجائے طاقت کے حصول پر مبنی ہوگی؟
ان سوالات کے جوابات وقت کے ساتھ سامنے آئیں گے، لیکن عوامی توقعات اب نئی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔
شام کی احتجاجی تحریک نے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ کوئی بھی انقلاب اس وقت تک پائیدار نہیں ہو سکتا جب تک اسے عوامی تائید اور حمایت حاصل نہ ہو۔
اگرچہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو ایک تاریخی موڑ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس تبدیلی کا اصل مقصد عوامی فلاح ہونا چاہیے۔
عوام کی حمایت کے بغیر کی جانے والی کوئی بھی تبدیلی دیرپا نہیں ہو سکتی۔ شام کے عوام نے خانہ جنگی، مہنگائی، اور عدم استحکام کے خلاف جدوجہد کی ہے۔
اب یہ ضروری ہے کہ نئی حکومت عوام کی توقعات کو مدنظر رکھے اور ملک میں امن و امان کی بحالی اور ترقی کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔ شام کے عوام کئی سالوں سے بدترین حالات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔
خانہ جنگی نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا اور شام کی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔ بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، روزگار کے مواقع کی کمی، اور تعلیمی نظام کی تباہی نے عوام کی زندگی کو بے حد مشکل بنا دیا ہے۔
ایسے میں نئی حکومت کو ان چیلنجز کا حل نکالنا ہوگا تاکہ عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہو سکے۔ شامی عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں، اور اب وہ امن اور خوشحالی کے حق دار ہیں۔ نئی حکومت کے لیے یہ لازم ہوگا کہ وہ اپنی پالیسیوں میں عوامی فلاح کو اولین ترجیح دے۔
شام کی صورتحال نے مشرق وسطیٰ میں موجودہ سیاسی طاقت کے توازن کو ایک بار پھر متزلزل کر دیا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت ایران اور روس کے قریبی تعلقات پر انحصار کرتی تھی، جبکہ امریکا اور اس کے اتحادی شام میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔ ان حالات میں نئے اتحاد اور بلاکس کے امکانات نمایاں ہو رہے ہیں۔
روس اور ایران کے لیے شام ایک اہم اسٹریٹجک مقام تھا اور اب ان ممالک کو اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
دوسری طرف امریکا اور یورپی ممالک شام میں جمہوری حکومت کے قیام کے حامی ہیں، لیکن ان کے مفادات بھی ہمیشہ سے تنازعات کا باعث رہے ہیں۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد روس اور ایران کو اپنے اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے کے لیے نئے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ دونوں ممالک نے شام میں اپنی موجودگی کو اسٹریٹجک اہمیت دی تھی، خاص طور پر روس کے لیے شام بحیرہ روم تک رسائی کا ایک اہم ذریعہ تھا۔
ایران کے لیے شام ایک اہم اتحادی اور اس کی علاقائی سیاست کا محور تھا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی حکومت ان دونوں ممالک کے ساتھ کیا رویہ اپنائے گی؟ اگر نئی حکومت روس اور ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کرتی ہے، تو اس سے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے۔
اس صورتحال میں شام کی خودمختاری اور غیر جانبداری کو قائم رکھنا ایک مشکل ہدف ہوگا۔ امریکا اور یورپی ممالک شام میں جمہوری حکومت کے قیام کے حامی رہے ہیں، لیکن ان کی مداخلت ہمیشہ سوالیہ نشان رہی ہے۔
بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کو وہ اپنی سفارتی کامیابی کے طور پر پیش کریں گے، لیکن اصل چیلنج یہ ہوگا کہ نئی حکومت کو استحکام دینے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا کردار اکثر تنازعات کو ہوا دینے والا رہا ہے۔
افغانستان اور عراق کی مثالیں دیکھتے ہوئے یہ اندیشہ برقرار ہے کہ شام میں بھی امریکہ اپنے مفادات کے لیے سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔ اس بار دیکھنا ہوگا کہ عالمی طاقتیں شامی عوام کے مفادات کو کس حد تک ترجیح دیتی ہیں۔
شام کی داخلی سیاست کے علاوہ اس تبدیلی کے علاقائی اثرات بھی گہرے ہوں گے۔ ترکیہ، جو بشار الاسد کی حکومت کے خلاف رہا، ممکنہ طور پر نئی حکومت کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک بھی شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
ان تمام علاقائی کھلاڑیوں کے اپنے اپنے مفادات ہیں، اور شام کی نئی حکومت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہوگا کہ وہ تمام فریقین کے ساتھ متوازن تعلقات قائم رکھ سکے۔
نئی شامی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوام کا اعتماد بحال کرنا اور ملک کی تعمیر نو ہوگی۔ ایک دہائی سے زیادہ کی خانہ جنگی کے بعد شامی عوام بنیادی سہولیات، روزگار، اور امن کے متلاشی ہیں۔ اگر نئی حکومت عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہی تو یہ تبدیلی محض ایک اقتدار کی تبدیلی تک محدود رہ جائے گی۔
شامی عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے حکومت کو سخت محنت اور شفاف حکمت عملی اپنانا ہوگی۔ عوام کے مسائل کے حل کے بغیر کوئی بھی تبدیلی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ شام کا مستقبل اس وقت مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے۔
بشار الاسد کے دور کا خاتمہ ایک اہم پیش رفت ہے، لیکن یہ صرف پہلا قدم ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئی حکومت کس حد تک عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتی ہے اور علاقائی اور عالمی طاقتوں کے دباؤ کا سامنا کیسے کرتی ہے۔
شام کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقتور حکمران آتے اور جاتے رہے ہیں، لیکن عوام کی امنگیں اور مسائل ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ یہ وقت شام کے عوام کے لیے حقیقی تبدیلی کا وعدہ پورا کرنے کا ہے، بصورت دیگر یہ تبدیلی بھی ماضی کی طرح ایک کھوکھلا خواب بن کر رہ جائے گی۔