کراچی؛ سرکاری شعبے کا سب سے پرانا رہائشی منصوبہ 40 برس بعد بھی غیرآباد

پلاٹ کے مالکان بجلی، پانی جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہ ہونے کے سبب گھر تعمیر کرنے سے قاصر ہیں

کراچی:

کراچی کا سرکاری شعبے میں سب سے پرانا رہائشی منصوبہ ہاکس بے اسکیم 42 40  برس بعد آج بھی غیر آباد ہے۔

دہائیوں سے آباد نہ ہونے والے مذکورہ منصوبے کے تقریباً 70 فیصد پلاٹ انویسٹرز نے خرید لیے ہیں جو قیمتیں بڑھنے کاانتظار کر رہے ہیں تاکہ اپنی سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کیا جائے، جب کہ بقایا 30 فیصد پلاٹ ابھی تک مکان بنانے کے خواہشمند لوگوں کے پاس ہیں لیکن وہ علاقے میں پانی، بجلی اور دیگر بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باعث تاحال تعمیرات کرنے سے قاصر ہیں۔

مذکوہ منصوبہ1984 میں اس وقت کی کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) نے نچلے اور درمیانے طبقے کے لوگوں کے لیے شروع کیا تھا۔  6 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر قائم یہ رہائشی منصوبہ 71 سیکٹرز پر مشتمل ہے، مجموعی طور پر اس منصوبے میں 75ہزار پلاٹ ہیں، ان میں 80 گزسے400 گز تک کے پلاٹ شامل ہیں۔

1993 میں حکومت سندھ نے لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی بنائی اور 1996 میں مذکورہ اسکیم کے ڈی اے سے لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو منتقل کی گئی۔  ایل ڈی اے حکام کے مطابق ابتدائی طور پر یہ اسکیم 11 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر مشتمل تھی، بعد میں یہاں کی زمین مختلف اداروں کو دی جاتی رہی اور اب ہاکس بے اسکیم 42 کی کل اراضی 6243 ایکڑ ہے۔

ایل ڈی اے کے ایگزیکٹو انجنیئر آغا نفیس کے مطابق اسکیم 42 کے بعض سیکٹرز میں کچھ گھر آباد ہوئے ہیں تاہم اکثر سیکٹرز میں ابھی تک ویران ہیں۔ ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایل ڈی اے 2008 تک اسکیم 42 میں ترقیاتی کام کرواتی رہی ہے لیکن اس کے بعد فنڈز کی کمی کے باعث ترقیاتی کام نہیں ہوسکے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ جب مذکورہ اسکیم کے ڈی اے سے ایل ڈی اے کو منتقل ہوئی، اس وقت کے ڈی اے کو 47 کروڑ روپے بھی ایل ڈی اے کو منتقل کرنے تھے لیکن یہ رقم ابھی تک ایل ڈی اے کو نہیں ملی۔  

مجموعی طور پر ہاکس بے اسکیم 42 کے ترقیاتی کام مکمل کرنے کے لیے ایل ڈی اے کو 30 ارب روپے کی ضرورت ہے، یہ رقم جمع کرنے کے لیے انہوں نے اسکیم 42 کے کمرشل پلاٹس نیلام کرنے کا منصوبہ بنایا ہے اور  آئندہ سال جنوری سے کمرشل پلاٹوں کی نیلامی شروع کی جائے گی۔

اس کے علاوہ اسکیم 42 رفاعی پلاٹوں کو بھی نیلام کیا جائے گا تاکہ مطلوبہ رقم حاصل ہوسکے۔  انہوں نے بتایا کہ نئے سال سے پلاٹوں کی لیز دینے کا کام بھی شروع کردیا جائے گا۔  ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ پانی کی مین لائن بلاک 19 سے بلاک ایک تک بچھادی گئی ہے، جلد ہی پانی کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔

دریں اثنا مقامی پراپرٹی ڈیلر کامران احمد کے مطابق پانی کی مین لائن 2008 میں مصطفیٰ کمال کے دور میں بچھادی گئی تھی جس پر اس وقت 25 کروڑ روپے لاگت آئی تھی، تاہم اسے ابھی تک حب ڈیم سے منسلک نہیں کیا گیا۔  پانی کی مین لائن حب ڈیم سے منسلک ہوتے ہی اسکیم 42 میں پانی کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ کسی بھی علاقے کو آباد کرنے میں پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات لازمی درکار ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اسکیم 42 میں دونوں چیزیں دستیاب نہیں ہیں اور یہ بات بھی سمجھ سے بالا ہے کہ ابھی تک یہاں پانی اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات کیوں نہیں میسر نہیں کی جا سکیں جب کہ کراچی میں کسی غیرقانونی طور پر قائم ہونے والی کچی آبادی کو بھی فوری طور پر دونوں چیزیں دستیاب ہو جاتی ہیں۔

ہاکس بے اسکیم سیکٹر 12 میں گھر تعمیر کرنے والے ایک شہری غلام مرتضیٰ نے بتایا کہ انہوں نے کافی عرصے سے اپنا گھر تعمیر کروایا ہوا ہے لیکن آبادی نہ ہونے اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث وہ ابھی تک اپنے گھر میں منتقل نہیں ہو سکے۔ اپنا گھر ہونے کے باوجود وہ کسی اور علاقے میں کرایے پر رہنے پر مجبور ہیں اور اسکیم 42میں تعمیر کردہ اپنے گھر کی حفاظت کے لیے ایک چوکیدار رکھا ہوا ہے، جسے ہر ماہ تنخواہ دینے کے ساتھ ان کے لیے پانی کا بھی بندوبست کرنا پڑتا ہے۔

بلاک 3 میں اپنی فیملی کے ساتھ مقیم سینئر صحافی نظام الدین صدیقی نے بتایا کہ انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا گھر بنایااور تقریباً ساڑھے 3 سال سے یہاں آباد ہیں  لیکن ابھی تک پانی اور بجلی سمیت بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہیں، ان کے سیکٹر میں پانی کی لائنیں بچھائی ہوئی ہیں لیکن تاحال ان میں پانی کی فراہمی شروع نہیں کی گئی ہے۔

Load Next Story