آپ کبھی نہ کبھی سوچتے ہوں گے کہ میں فلاں کام اِس طریقے سے کر لیتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔ یوں فوائد زیادہ حاصل ہو جاتے یا ناکامی مقدر نہ بنتی۔
اکثر لوگوں کی تمنا ہوتی ہے کہ کسی طرح وہ ماضی میں پہنچ جائیں تاکہ انھیں اپنی غلطیاں اور کوتاہیاں درست کرنے کا موقع مل سکے۔مگر عملی طور پر کوئی انسان حال سے ماضی کی طرف نہیں پلٹ سکتا، ہاں وہ اپنے خیالوں میں ضرور ایسا سفر کر لیتا ہے۔گویا خیال توانائی (energy)کی ایسی قسم ہے جو کم از کم انسان کو ماضی کی سمت لے جانے پہ قادر ہے، گو وہ بھی ایک حد رکھتی ہے۔
برقی اشارے
خیال کیا ہے؟ ہمارا دماغ خصوصی خلیوں سے بنا ہے جو ’’نیورون‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ نیورون مختلف کیمیائی مادے خارج کرتے ہیں جنھیں ’نیوروٹرانسمیٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نیوروٹرانسمیٹر ایسے برقی اشارے (یا الیکٹریکل سگنل) چھوڑتے ہیں جن کی مدد سے تمام نیورون ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں۔ انہی برقی اشاروں کا بہاؤ ہمارے دماغ میں خیالات کو جنم دیتا ہے۔ بجلی (الیکٹرکسٹی) بھی روشنی یا نور کی طرح توانائی کی ایک قسم ہے۔
یادوں کی سرحد
خیال کی حد مگر یادداشت ہے۔ انسانی دماغ میں خصوصی نیورونوں پہ مشتمل گروہ کسی واقعے یا بات کی یاد محفوظ کرتے ہیں۔ اس یاد سے آگے خیال سفر نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پہ جب انسانی بچہ جنم لے تو اس کی یادیں رفتہ رفتہ ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ پہلے دن اس کی یادوں کا دائرہ صرف چوبیس گھنٹوںتک محدود ہو گا۔ اور یہ یادیں بچے کے دماغ میں محفوظ بھی نہیں ہوتیں کیونکہ اس کا شعور ناپختہ ہوتا ہے۔ معنی یہ کہ شعور پیدا کرنے والے دماغی حصّوں کے نیورون ناپختہ ہوتے ہیں۔
جب یہ نیورون بالغ ہو جائیں تو ہمارے متعلقہ دماغی حصے یادیں محفوظ کرنے لگتے ہیں۔ مگر خیال کی پرواز بس انہی یادوں یا دنیا میں پہنچ کر حاصل شدہ علم (معلومات) تک محدود رہتی ہے۔ مثلاً پڑھا لکھا آدمی یہ نظریہ جانتا ہے کہ ساڑھے تیرہ ارب سال پہلے اچانک کائنات وجود میں آ گئی۔ مگر کائنات کی پیدائش سے قبل کیا تھا، یہ اسے قطعی طور پہ معلوم نہیں۔گویا خیال کی طاقت ساڑھے تیرہ ارب سال پیچھے جا کر رک جاتی ہے۔ انسان پھر مختلف مفروضے اور نظریات بنا کر سوچتا ہے کہ شاید کائنات کی پیدائش سے قبل فلاں صورت حال یا حالت ہو گی۔ وہ سو فیصد حد تک سچائی نہیں جان پاتا۔ یہ خیال بھی اسی لیے پیدا ہوئے کیونکہ اسے معلوم ہے، کائنات فلاں وقت شروع ہوئی ۔اگر وہ یہ علم نہ رکھتا تو یہ مفروضے بھی جنم نہیں لیتے۔
غیرمعمولی نظریہ
سوال یہ ہے کہ سائنس کی رو سے کیا انسان ماضی کی سمت سفر کر سکتا ہے؟ اس کا جواب فی الحال نہ میں ہے لیکن سائنس داں یہ بھی کہتے ہیں کہ ممکن ہے، مستقبل میں انسان کوئی ایسا غیرمعمولی نظریہ دریافت کر لے یا ایسی ایجاد بنا لے جس کی مدد سے ماضی میں جانا ممکن ہو جائے۔ چونکہ سائنس و ٹیکنالوجی مسلسل ارتقا پذیر ہے لہذا انسانوں کے ہاتھوں ایسا کرشمہ انجام پا بھی سکتا ہے۔
تحریر کی طاقت
ماضی میں واپس جانے کی خواہش نے زمانہ قدیم سے انسانوں کو مسحور کر رکھا ہے۔ دور جدید میں اسی خواہش نے کہانیوں ، فلموں اور ٹی وی پروگراموں کے ایسے کرداروں کو جنم دیا جو اپنی کسی نہ کسی ماورائی طاقت یا جادوئی شے کے بل بوتے پر ماضی میں جا سکتے ہیں۔ ایسی پہلی داستان ’’اے سیپلیمنٹ ٹو دی جرنری ٹو دی ویسٹ‘‘(A Supplement to the Journey to the West) ہے جو چینی زبان میں 1640 ء میں چین کے مصنف، ڈونگ یوئی نے تحریر کی۔
اس دیومالائی داستان کا ہیرو آئینوں سے بنے ایک مینار اور اس میں لگے یشب پتھر (جیڈ) والے دروازے کی مدد سے ماضی یا مستبقل میں جانے اور واپس آنے پر قادر تھا۔ بعد ازاں برطانوی ادیب، ایچ جی ویلز نے 1895ء میں ایک ناول ’’ٹائم مشین‘‘ لکھ کر اس نظریے کو مقبول بنایا۔ 1960ء میں اسی ناول کی بنیاد پر ایک فلم بنائی گئی جس میں ایک موجد ایسی مشین بنا لیتا ہے جس میں بیٹھ کر وہ مستقبل میں جا سکتا ہے۔ تب سے ایسی کئی فلمیں بن چکیں جن کے کردار کسی نہ کسی طرح ماضی یا مستبقل میں جانے کی انوکھی صلاحیت رکھتے ہیں۔
مستقبل میں جانا آسان
سائنس دانوں کے مطابق ماضی کی نسبت مستقبل میں جانا آسان ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ یہ امر جاننے کے لیے پہلے آپ کو سمجھنا ہو گا کہ وقت (Time) کیا ہے اور وہ کیونکر کام کرتا ہے۔ گو دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنس داں خود بھی مکمل طور پہ وقت کو نہیں سمجھ سکے۔ تاہم وقت کے بارے میں جتنی بھی معلومات انسان کو حاصل ہوئی ہیں، یہ ضرور ظاہر کرتی ہیں کہ ماضی میں جانا انتہائی مشکل امر ہے۔
اضافیت کے نظریے
دور جدید میں جرمن نژاد امریکی سائنس داں، آئن سٹائن کے اضافیت (relativity) سے متعلق نظریات وقت، خلا ، کشش ِثقل اور کمیت (mass) کی تشریح کرتے ہیں۔ نظریات ِ اضافیت کا ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ وقت کے بہاؤ کی رفتار یکساں نہیں … یہ رفتار حالات کے مطابق کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو انسان کو بتاتا ہے کہ وقت میں سفر کرنا ممکن ہے، مگر صرف آگے کی طرف! گویا ماضی میں جانے کے لیے انسان کو فی الحال تمام معلوم سائنسی نظریات کی نفی کرنا ہو گی۔ ان میں سب سے اہم ’’حرحرکیات کا دوسرا قانون‘‘ (Second law of thermodynamics) ہے۔
وقت کا بہاؤ
اس قانون کی رو سے کائنات میں ہر شے ایک جیسی رہتی ہے یا پھر وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آجاتی ہیں۔ معنی یہ کہ اگر آپ نے ایک دفعہ انڈا توڑ لیا تو آپ دوبارہ اس کو کبھی نہیں جوڑ سکتے۔گویا کائنات کی کوئی بھی شے یا کوئی بھی عمل آغاز میں جیسا تھا، وہ دوبارہ اس جیسا نہیں ہو سکتا کیونکہ وقت صرف آگے کی سمت سفر کرتا ہے۔
رفتار کم یا زیادہ
لیکن جیسا کہ بتایا گیا، نظریہ اضافیت کی رو سے وقت کی رفتار کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور فرض کیجیے کہ آپ ایسے ہوائی جہاز میں سوار ہیں جو روشنی کی رفتار یعنی67 کروڑ دس لاکھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کررہا ہے۔ تب آپ کا وقت زمین پہ موجود انسانوں کے وقت سے کم تیزی سے گذرے گا۔ وجہ یہ ہے کہ نظریہ اضافیت کی رو سے رفتار جتنی زیادہ تیز ہو گی، وقت اتنی ہی زیادہ سست رفتاری سے گذرے گا۔ مگر انسان ابھی تک ایسی اڑن گاڑی نہیں بنا پایا جو روشنی کی زبردست رفتار سے سفر کر سکے۔
خلا میں انٹرنیشنل سپیس سٹیشن زمین کے گرد ساڑھے سترہ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چکر کھا رہا ہے۔ جبکہ زمین خط استوا پر سورج کے گرد ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھومتی ہے۔ امریکی خلاباز، سکاٹ کیلی نے حال ہی میں اس عالمی خلائی مرکز میں 520 دن گذارے۔ نتیجہ یہ کہ اس کی عمر میں اپنے جڑواں بھائی، مارک کیلی کی عمر کے مقابلے میں کچھ کم اضافہ ہوا۔ چونکہ سکاٹ زیادہ تیزی کے ساتھ کئی ماہ سفر کرتا رہا لہٰذا اس کی عمر جڑواں بھائی کی نسبت چھ منٹ پانچ ملی سیکنڈ کم ہو گئی۔
خلا میں سرنگیں
دور جدید میں کئی سائنس داں وقت میں سفر کرنے کے سلسلے میں مختلف نظریات پہ غور و فکر کر رہے ہیں۔ ایک نظریہ یہ ہے کہ خلا میں سرنگ بنا لی جائے جسے سائنسی اصطلاح میں ’’وارم ہول‘‘ (wormhole) کہتے ہیں۔ نظریہ یہ ہے کہ اگر ایسی سرنگ بن جائے تو انسان اس میں داخل ہو کر روشنی کی رفتار سے سفر کرتا محض مستقبل ہی نہیں ماضی میں بھی پہنچ سکتا ہے۔
یہ ایک اُمید افزا اور خوش آئند نظریہ تو ہے مگر اسے عملی صورت میں ڈھالنا ابھی ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ پہلے تو سائنس دانوں کو خلا میں سرنگ بنانا ہو گی ، جیسی فلموں میں بھی دکھائی جاتی ہے۔ پھر ایسا طریق کار وضع کرنا ہو گا کہ انسان اس میں داخل ہو کے روشنی کی رفتار سے سفر کر سکے۔ جدید ٹیکنالوجی فی الحال یہ کرشمے انجام دینے سے قاصر ہے۔
وقت میں سفر کے تناقص
وقت میں سفر کے عمل سے ’’تناقص‘‘ (paradoxes) بھی وابستہ ہیں۔ ان میں سب سے دلچسپ ’’دادا تناقص‘‘ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ فرض کیجیے، ایک انسان سفرکرتا ماضی میں پہنچ جاتا ہے۔ اتفاق سے وہ ایسے اعمال کرتا ہے کہ اس کے دادا اور دادی کی شادی نہیں ہو پاتی۔ اسی عمل سے یہ تناقص جنم لیتا ہے کہ گویا وہ انسان پیدا ہی نہیں ہوگا۔ تب یہ سوال جنم لیتا ہے:’’وہ پھر وقت میں سفر کرتے ماضی میں کیسے پہنچ گیا، جبکہ اس کا تو وجود ہی نہیں؟‘‘ یہ دماغ چکرا دینے والا تناقص ہے جو وقت میں سفر کی پُراسرایت مذید بڑھا دیتا ہے۔
برطانیہ کے ممتاز طبعیات داں، سٹیفن ہاکنگ بھی سمجھتے تھے کہ انسان شاید کبھی وقت میں سفر نہیں کر سکے۔ ان کا کہنا تھا: ’’اس امر کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج تک مستقبل سے کوئی بھی سیاح پلٹ کر زمین کی سیر کرنے نہیں آیا۔‘‘ گویا ماضی کی سمت سفر کرنا ممکن ہوتا تو اس وسیع کائنات میں ایسی مخلوق ضرور ہوتی جو یہ سفر کرنے پہ قادر ہو جاتی۔
ماضی میں جھانکنے والے آلے
انسان بہرحال ایسے آلات ضرور بنا چکا جو ماضی میں جھانکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان میں سرفہرست خلائی اور زمینی دوربینیں ہیں۔ ان کی مدد سے انسان اربوں سال پہلے وجود میں آنے والی کہکشائیں، ستارے اور سیارے دیکھ سکتا ہے۔ وجہ یہ کہ ان کی روشنی زمین تک پہنچنے میں کئی ارب سال لگاتی ہے۔لہذا اسی روشنی کا پیچھا کرتے ہوئے انسان خلائی دوربین کی مدد سے خصوصاً اربوں سال پہلے کے وقت میں پہنچ جاتا ہے۔