لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے فیلڈ کورٹ مارشل میں انھیں باقاعدہ چارج شیٹ کر دیا گیا ہے۔ ویسے تو جب انھیں فوجی تحویل میں لیا گیا تھا تب ہی اس بات کا سب کو یقین تھا کہ وہ چارج شیٹ بھی ہونگے اور انھیں سزا بھی ہوگی۔
ایک عمومی رائے یہی تھی کہ اگر فوج کے پاس ٹھوس ثبوت نہ ہوتے تو انھیں فوجی تحویل میں نہ لیا جاتا۔ ثبوت موجود تھے تو فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی۔ بہر حال اب ان پر کیا الزامات ہیں اور ان کی کیا تفصیلات ہیں وہ بھی سامنے آگیا ہے۔
میری رائے میں اب یہ بات طے ہو گئی ہے کہ فیض حمید کو موت کی سزا نہیں ہو سکے گی۔ انھیں زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے ان پر فرد جرم میں جو الزامات ہیں ان میں فوج میں بغاوت یا میوٹنی جیسے الزامات نہیں ہیں۔ ان پر کہیں یہ الزام نہیں ہے کہ انھوں نے فوج میں بغاوت کی کوشش کی۔ ان پر سرکاری معلومات فراہم کرنے کا الزام تو ہے لیکن میں پھر کہوں گا کہ فوج میں بغاوت کا الزام نہیں ہے۔
وہ جو بھی کر رہے تھے فوج سے باہر سے کر رہے تھے۔ ان کے کاموں کو فوج کے اندر سے کوئی حمائت نہیں تھی۔ ورنہ وہ سب جو ان کی فوج کے اندر سے مدد کر رہے تھے ان پر بھی فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی کی خبر آجاتی۔ اور بتایا جاتا کہ فیض حمید کے ساتھ یہ لوگ بھی ملوث ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں یہ تو سمجھنا ہوگا کہ یہ فوج کے باہر سے فوج پر اثر انداز ہونے کا معاملہ تو ہے لیکن فوج کے اندر سے کچھ نہیں۔
یہ درست ہے کہ ان پر نو مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کا الزام سامنے آیا ہے۔ ان پر یہ الزام سامنے آیا ہے کہ انھوں نے نو مئی کے حملوں کی منصوبہ بندی کی۔ وہ کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو پر حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہیں۔ لیکن اس سب میں ان کو فوج کے اندر سے کوئی مدد حاصل نہیں تھی۔ وہ ایک سیاسی جماعت تحریک انصاف کی مدد سے یہ سب پلاننگ تو کر رہے تھے لیکن ان کو فوج کے اندر سے کوئی مدد حاصل نہیں تھی۔
اسی لیے شاید نو مئی ناکام ہو گیا۔ کیونکہ فوج آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ڈسپلن میں ان کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ فوج میں کوئی بغاوت نہیں تھی۔ فوج ایک ڈسپلن ادارہ ہے اور اس کا واضع ثبوت نو مئی کو بھی نظر آیا کہ فوج نے اپنا ڈسپلن برقرار رکھا۔ اسی طرح دیگر احتجاج کا بھی ذکر ہے۔ شاید وہ احتجاج جو سب تھے تو فوج کے خلاف لیکن ناکام بھی اسی لیے تھے کیونکہ ان کو فوج کے اندر سے حمائت حاصل نہ تھی۔ فوج کے اتحاد نے ان سب سازشوں کو ناکام بنایا۔ فوج جنرل عاصم منیر کی قیادت میں ڈسپلن میں بھی تھی اور متحد بھی تھی۔ اس لیے سب سازشیں ناکام ہوئی ہیں۔
فیض حمید پر یقیناً نومبر میں جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوانے کا الزام ہے۔ سب جانتے ہیں کہ تحریک انصاف کا مارچ اسی لیے تھا۔ لیکن ناکام بھی ہوا۔ تا ہم یہ فوج میں مداخلت کے زمرے میں ضرور آتا ہے۔ فیض حمید نے فوج کے خلاف سازش کی ہے۔ جس کی انھیں سزا مل رہی ہے۔ پھر نو مئی بھی جنرل عاصم منیر کے خلاف سازش ہی تھی۔ لیکن ناکام ہوئی ۔ تاہم اب یہ سوال ضرور موجود ہیں کہ ان سب سازشوں میں فیض حمید اکیلے نہیں تھے ان کے ساتھ بانی تحریک انصاف اور تحریک انصاف کی دیگر قیادت شامل تھی۔ پھر ان کاکیا ہوگا۔
کیا انھیں بھی اب شریک ملزمان کے طور پر فوجی تحویل میں لیا جائے گا۔ کیا ان کا سویلین عدالتوں میں ہی ٹرائل ہوگا۔ اب ان کے ساتھ کیا ہوگا۔ نہ ہی قانونی طور پر اور نہ ہی منطق یہ بات مانتی ہے کہ شریک ملزمان کے خلاف تو کوئی کارروائی نہیں ہوگی ۔لیکن فیض حمید کو سزا ہو جائے گی۔ شریک ملزمان کو ساتھ سزا ہوگی تب ہی انصاف کا عمل مکمل ہوگا۔
ہمیں یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی اور سول کرمنل ٹرائل کی کارروائی میں بہت فرق ہے۔ سول کرمنل ٹرائل میں مقدمہ کے شروع میں فرد جرم عائد ہوتی ہے اور شواہد اس کے بعد پیش کیے جاتے ہیں۔ جب کہ فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی میں پہلے شواہد پیش کیے جاتے ہیں۔ ملزم کو ان شواہد کے مقابلے میں اپنی بے گناہی میں شواہد پیش کرنے کا پورا موقع دیا جاتا ہے۔ ملزم کو وکیل کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ ہر ثبوت پر بحث ہوتی ہے۔
اس کے بعد جو ثبوت ناکافی ہوتے ہیں انھیں مسترد کر دیا جاتا ہے۔ جن الزامات کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آجاتے ہیں اور ملزم کے پاس بھی ان میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا۔ صرف انھی الزامات پر فرد جرم عائد ہوتی ہے۔ اس لیے اس فرد جرم عائد ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم فیض حمید کی حد تک تمام ثبوتوں کو دیکھ لیا گیا۔ انھیں فیلڈ کورٹ مارشل کی کارروائی کا حصہ بنا لیا گیا ہے اور ان پر فرد جرم لگائی گئی ہے۔ یہ سویلین کرمنل ٹرائل کی طرح مقدمہ کی کارروائی کا آغاز نہیں بلکہ اب اختتام ہے۔ اب مزید کوئی ثبوت اور شہادتیں نہیں ہونگی۔ بلکہ اب مقدمہ کی کارروائی میں سزا کا تعین اور باقی قانونی معاملات رہ گئے ہونگے۔ اس لیے اس فرق کو سمجھنا ہوگا۔
فیض حمید کی سزا کا تحریک انصاف کو خوف تھا اور خوف ہے۔ یہ کہنا کہ فیض حمید کی سزا کا تحریک انصاف پر کوئی اثر نہیں ہوگا، غلط ہوگا۔ تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف ان تمام جرائم کے بینیفشری بھی ہیں۔ فیض حمید نے یہ سب ان کی محبت میں کیا ہے۔ ان کے اپنے بھی مقاصد ہونگے۔ لیکن تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کی محبت کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
یہ سوال سب کے ذہن میں ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ آسان حل تو یہی ہے کہ فیض حمید کے شریک ملزمان کا بھی فوجی ٹرائل ہو جائے، ان کا ٹرائل بھی ملٹری کورٹ میں ہو۔ لیکن یہ کوئی آسان حل نہیں ہے۔
اس میں بہت سی قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حوالے سے سپریم کورٹ میں ابھی کیس زیر سماعت ہے۔ معاملہ ابھی حل نہیں ہوا۔ ایسے میں آگے کیا ہوگا۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کیا جائے گا۔ یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہوگی۔ کیا نو مئی کے دیگر ملزمان کی طرح ان کا بھی ملٹری ٹرائل شروع کیا جائے گا اور فیصلہ نہیں سنایا جائے گا۔
کیونکہ سپریم کورٹ نے ٹرائل سے تو منع نہیں کیا ہوا صرف فیصلہ سنانے سے منع کیا ہوا ہے۔ لیکن اگر کل سپریم کورٹ سویلین کے ملٹری ٹرائل کی اجازت نہیں دیتی تو کیا ہوگا۔ کیا ایک نئی آئینی ترمیم لائی جائے گی۔ جس میں فیض حمید کے شریک ملزمان کے ملٹری ٹرائل کی راہ نکالی جائے گی۔ کوئی قانون سازی سے راستہ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ ابھی کچھ واضع نہیں ہے۔ لیکن آگے کچھ ہوگا اور اس کے پاکستان کے منظر نامہ پر گہرے اثرات ہونگے۔