پاکستان نے شام پر اسرائیلی جارحیت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اسرائیل نے دمشق سمیت تین بڑے ہوائی اڈوں اور دیگر اسٹرٹیجک فوجی انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنایا، دو سو پچاس حملوں میں درجنوں طیاروں، ہیلی کاپٹروں اور لڑاکا طیاروں کو تباہ کردیا گیا۔ دوسری جانب اسرائیلی ٹینک غزہ کی پٹی میں وسطی اور جنوبی حصوں تک داخل ہوگئے، حملوں میں رات بھر اور گزشتہ روز مزید انیس فلسطینی شہید ہوگئے۔
پاکستان اقوام متحدہ اور او آئی سی کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کے منصفانہ، جامع اور دیرپا حل کا حامی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے دو ریاستی حل کی مسلسل وکالت کی ہے۔ دنیا کے نقشے پر موجود ایک چھوٹا سا ملک اسرائیل اپنے مذموم منصوبوں و عزائم کی تکمیل کے لیے ایک کے بعد ایک ملک کو نشانہ بنا رہا ہے،کیونکہ وہ گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد صہیونی ٹینک شام کے دارالحکومت دمشق کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج کی فضائی اور زمینی جارحیت اور حملوں سے شام کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔اسرائیلی جارحیت نے پوری دنیا کو خوفناک عالمی جنگ کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس جنگ کا بڑا سبب اسرائیلی جارحیت یا اس کی جارحانہ پالیسیاں ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کی تاریخ سات دہائیوں پر مشتمل ہے۔ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد گزشتہ سات دہائیوں سے انسانیت دشمن کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کی زیادہ ترکارروائیاں ایران، عرب ممالک تک پھیلی ہوئی ہیں۔ دوسری جانب فلسطینی آزادی کی اس تحریک کو جاری رکھنے کی قیمت چکا رہے ہیں۔
ہر روز اپنے پیاروں کے لاشے دفناتے ہیں، ان گنت مظالم کے باوجود فلسطینیوں کے دل میں روشن ہونے والی شمع کو آج تک بجھایا نہیں جا سکا۔ ان کے لیے ایک راستہ بند کیا جاتا ہے تو وہ دوسرا راستہ کھول لیتے ہیں۔ اس وقت کہاں ہے او آئی سی اور کہاں ہے عرب لیگ۔ سب خاموش ہیں۔ یہ خاموشی آج سے نہیں 7 دہائیوں سے ہے۔ خطے میں امن کے لیے بہت سی کوششیں بھی کی گئی ہیں۔ ’’ابراہیم اکارڈ‘‘ جیسے امن معاہدے کیے گئے جس میں اسرائیل کے علاوہ یو اے ای، بحرین اور دوسرے عرب ممالک کو بھی شامل کیا گیا مگر سب سے زیادہ متاثرہ فریق فلسطین کو نظر اندازکیا گیا، حالانکہ ضروری تھا کہ فلسطین کے وجود کو تسلیم کرتے ہوئے اسے بھی ایسے امن معاہدوں میں شریک کیا جاتا۔
اب اسرائیل کو فلسطین کے وجود کو سرے سے تسلیم کرنا گوارہ نہیں۔ اسی سوچ کے تحت خود اسرائیل نے اس معاہدے کو سبوتاژ کردیا، ایسے بہت سے معاہدے ہوئے۔ جنگ بندی کی گئی مگر اسرائیل نے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین کے خلاف محاذ کھولے رکھا۔ جب جنگ بندی کے لیے اقوام متحدہ کے دروازے پر دستک دی گئی تو امریکا نے امن کی اس قرار داد کو ویٹو کردیا اور اسرائیل کو نہ صرف کھلی جارحیت کا موقع فراہم کیا بلکہ اسے ہر طرح کی امداد بھی فراہم کی۔ امریکا جیسی بعض بڑی طاقتیں بھی خطے میں امن نہیں چاہتی ہیں، وہ خود حالات کو خراب کرنا یا رکھنا چاہتی ہیں تاکہ یہاں کی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کر سکیں۔
بظاہر یہ کارروائی فلسطین، شام اور لبنان کے خلاف ہے مگر اب ایران کو بالکل اسی طرح گھیرنے کی کوشِش کی جارہی ہے جس طرح عراق کے صدام حسین کو ٹریپ کیا گیا تھا۔ ایران ابھی صبر کا دامن تھامے ہوئے ہے مگر اسرائیل کو بھرپور جواب بھی دے رہا ہے۔ اس کے میزائل حملے اسرائیل میں تباہی پھیلا رہے ہیں تاہم یہ حقیقت ہے کہ یہ جنگ ایران تک پہنچ کر عالمی جنگ کی شکل اختیار کرتی نظر آرہی ہے۔ طاقت کے توازن میں تبدیلی اور علاقائی منظر نامے کی تشکیل نو اسرائیل کا کوئی نیا خواب نہیں ہے۔ خطے میں جاری کشیدگی اور بدلتی صورت حال میں اسرائیل کے اس تصور کو پہلے سے کہیں زیادہ حقیقت کے قریب سمجھا جا رہا ہے۔ اس منصوبے کا سب سے بڑا مقصد اسرائیل کا خطے کے مسلمان ممالک کو اپنا زیر نگین بنانا ہے، اس کی پشت پر امریکا موجود ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے حال ہی میں اپنی گفتگو میں ایک ’’ نئے مشرق وسطیٰ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ متعدد بین الاقوامی فورمز پر اسرائیلی حکام اپنے ملک اسرائیل کے نقشے پکڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان تمام نقشوں میں کسی فلسطینی ریاست یا علاقے کا کوئی حوالہ نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم نے اسرائیل کے دو نقشے پیش کیے۔
ان میں سے ایک نقشے میں ان تمام ممالک کو سبز رنگ میں دکھایا گیا جو اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے کا حصہ ہیں یا اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال رکھنے کے خواہاں ہیں۔ سبز رنگ والے ممالک میں مصر، سوڈان، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، بحرین اور اردن شامل ہیں۔ دوسرے نقشے میں نیتن یاہو نے نہ صرف ایران اور خطے میں اس کے اتحادی ممالک شام، عراق، یمن اور لبنان کو سیاہ رنگ میں پیش کیا بلکہ ان علاقوں کو ’مکروہ‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ فلسطینی ریاست کے ایک افسانے میں تبدیل ہونے کی وجہ کا تین پہلوؤں سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے، 5 نومبر کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی بھاری اکثریت سے کامیابی کے پس منظر میں عرب مسلم سربراہی اجلاس منعقد ہوا۔ امریکا میں عرب مسلم ووٹروں کی ٹرمپ سے یہ توقعات کہ وہ مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے کوششیں کریں گے، ایک فریب کے سوا کچھ نہیں۔ صدر کے طور پر ٹرمپ کے پہلے دور میں ہی امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ یروشلم منتقل کردیا تھا۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی توثیق اور گولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کیا۔ یہ تمام اقدامات اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہیں۔
درحقیقت، ٹرمپ اور نیتن یاہو کے درمیان پرانا گٹھ جوڑ اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کو مزید تقویت دے گا۔ اپنی پہلی مدت کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور عرب ریاستوں جیسے متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے درمیان ابراہم معاہدے پر دستخط کروانے میں اہم کردار ادا کیا جس نے عرب دنیا میں یہودی ریاست کی سفارتی قانونی حیثیت کو وسیع کرنے میں مدد کی۔ ٹرمپ سے یہ توقع کرنا کہ وہ اسرائیل کو غزہ میں دشمنی ختم کرنے پر مجبور کریں گے اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اپنی بستیوں کو ترک کردیں گے، عبث ہے۔ دوسرا، اسرائیل سے زیادہ، آزاد فلسطینی ریاست کے مطالبے کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ 8 اکتوبر 2023 سے غزہ پر اسرائیلی حملوں میں 45000 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں لیکن مسلم دنیا نے کوئی خاطر خواہ مدد نہیں کی۔ محض بیانات اور سربراہی ملاقاتیں فلسطینی ریاست کو عملی شکل دینے میں مدد نہیں کر سکتیں۔
بلکہ مسلم دنیا کی منافقت اسرائیل کی غزہ، مغربی کنارے اور لبنان میں مظالم کو برقرار رکھنے کے ارادے کو مزید تقویت دے گی۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کی بیان بازی ان امکانات کو مزید نقصان پہنچائے گی جس کے لیے 1947میں اقوام متحدہ نے تقسیم کا منصوبہ پیش کیا تھا جس میں فلسطین میں یہودی اور ایک عرب ریاست کی سفارش کی گئی تھی۔ 1917میں بالفور ڈیکلریشن کے وقت جو بالآخر 1948میں اسرائیل کی تخلیق کا باعث بنا، یہودیوں کی تعداد فلسطینی آبادی کا صرف 7فیصد تھی۔ اب، فلسطینیوں کی اسرائیل کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ چاہتا ہے کہ وہ اردن اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کریں کیونکہ یہودی ریاست مغربی کنارے پر مستقل قبضہ کرنے کے اپنے خواب کا تعاقب کر رہی ہے۔
آخر کار، نہ تو عرب لیگ اور نہ ہی او آئی سی نے آزاد فلسطینی ریاست کے وجود میں آنے کے لیے کوئی ٹھوس کام کیا ہے۔ دو ریاستی حل کا مطالبہ کرنے والا امریکا اپنے موقف سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ ان حالات میں فلسطینی ریاست حقیقت سے زیادہ افسانوی نظر آتی ہے۔ ہر مسلمان ملک سمجھتا ہے کہ وہ محفوظ ہے۔ اسے کوئی مسئلہ نہیں ہے تو اسے کسی مسئلے میں الجھنے کی ضرورت کیا ہے؟ اسی پالیسی کے سبب اسرائیل کو شہ مل رہی ہے۔ اس وقت شام میں انتہا پسند اور باغی گروہوں کے غلبے سے انتہا پسندی، فرقہ وارانہ تشدد، نئے انتہا پسندگروہوں اور دھاروں کے ابھرنے، داخلی تنازعات اور تشدد کے پھیلاؤ کا باعث بن سکتا ہے اور خطے کی سلامتی اور استحکام کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔
شام میں اقتدار کی منتقلی عوام پر مرکوز عمل کے ذریعے ہونی چاہیے ورنہ یہ گہری اور دیرپا بے چینی کا باعث بنے گی اور کسی ملک کے استحکام، سلامتی اور ترقی کا باعث نہیں بنے گی۔ اسرائیلی جارحیت و خونریزی انسانیت کے منہ پر طمانچہ ہے۔اسرائیلی حملوں میں اسکول، اسپتال حتیٰ کہ ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے جو کہ عالمی جنگی اصولوں کے منافی ہے۔ اسرائیلی بربریت میں اب تک ہزاروں فلسطینی مسلمان شہید ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد معصوم بچوں کی ہے۔ حرف آخر، ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ذمے داری کا احساس کرے، کیونکہ مسئلہ فلسطین حل کیے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔