لاپتہ افراد کے مسئلے کا حقیقی حل پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے جج صاحبان نے لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق عرض داشتوں کی سماعت کے دوران یہ رائے دی۔سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کے رکن جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اعلیٰ عدالتیں ہمیشہ پارلیمنٹ کو سپریم ادارہ سمجھتی ہیں اور اب یہ پارلیمنٹ کی ذمے داری ہے کہ خود کو سپریم ادارہ ثابت کرے۔
سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ذرا پہلے ایک ڈویژن بنچ کی سربراہی کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ متعلقہ وزارت کے سینئر ترین افسر تحریری طور پر یقین دہانی کرائیں کہ کسی شہری کو غیر قانونی طور پر حراست میں نہیں رکھا جائے گا۔ انھوں نے سینئر وکیل فیصل صدیقی کو عدالت کا مشیر مقرر کیا تھا اور انھوں نے معزز عدالت کو آگاہ کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سے اب تک 350 افراد لاپتہ ہیں، یوں اعلیٰ افسران نے سپریم کورٹ کے احکامات کی حکم عدولی کی ہے۔
جسٹس مندوخیل نے یہ بھی کہا کہ اس فیصلے کے مستقل حل کے لیے متعلقہ فریقین کو سامنے آنا چاہیے۔ فیصل صدیقی نے اپنی رپورٹ میں عدالت کو آگاہ کیا کہ کئی خاندان گزشتہ 10 برسوں سے اپنے رشتے داروں کو تلاش کررہے ہیں۔ بنچ کے ایک رکن جسٹس نعیم اختر افغان جو اپنی مرضی سے لاپتہ ہوئے ہیں‘ وہ اس میں شامل نہیں ہیں۔ انھوںنے بنچ کے اپنے برادر ججوں کو آگاہ کیا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم پر کئی لاپتہ افراد بازیاب ہوئے مگر وہ عدالت کے سامنے پیش ہو کر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان لوگوں کو اغواء کرنے والے کون لوگ تھے؟
اس صدی کے آغاز سے ملک میں لاپتہ افراد کا مسئلہ ذرایع ابلاغ کی زینت تھا۔ بلوچستان میں مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد لاپتہ ہوئے۔ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حسین احمد اس وقت قومی اسمبلی کے رکن تھے۔
انھوں نے اپنے حلقے سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کی بازیابی کے لیے مسلسل کوشش کی۔ جب 2002 میں اتحادی فوجوں نے کابل فتح کیا اور ملا عمر کی آمریت ختم ہوئی تو بہت سے غیر ملکی سمیت القاعدہ کے نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے لوگ روپوش ہو گئے تھے۔ ان میں پاکستانی شہریوں کے علاوہ افغانستان، سعودی عرب اور مصر وغیرہ سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔ پھر سابق صدر پرویز مشرف نے اپنی کتاب "In the line of fire" میں لکھا ہے کہ پاکستان میں آپریشن کے دوران طالبان اور القاعدہ کے بعض افراد کو جن میں پاکستان میں تعینات سابق سفیر بھی شامل تھے امریکا کے حوالے کردیا گیاتھا۔
2007میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سپریم کورٹ میں بحالی کی تحریک میں ایک مطالبہ لاپتہ افراد کا بھی تھا۔ افتخار چوہدری نے چیف جسٹس بننے کے بعد خیبر پختون خوا سے کچھ قیدیوں کو عدالت میں پیش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ چیف جسٹس کے اس فیصلے پر خاصا عملدرآمد ہوا۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس جاوید اقبال کو لاپتہ افراد کے کمیشن کا سربراہ مقرر کیا مگر جسٹس جاوید اقبال لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے لیے اہم اقدامات کرنے میں ناکام رہے، ان کے کردار پر مستقل الزامات لگتے رہے۔
راولپنڈی کی ایک معمر خاتون امینہ مسعود جنجوعہ کے شوہر 2007میں اچانک لاپتہ ہوئے۔ وہ اپنے شوہرکی بازیابی کے لیے ہر دروازے پر دستک دیتی ہیں مگر ان کے شوہر کے بارے میں کچھ پتہ نہ چل سکا۔ انھوں نے پھر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک منظم مہم شروع کی۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کے پاس 3800 گمشدہ افراد کے نام موجود ہیں۔ جب اطہر من اللہ، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنے تو انھوں نے رولنگ دی تھی کہ لاپتہ افراد کا مطلب وہ شہری ہیں جنھیں سرکاری ایجنسیوں کے اہلکار لاپتہ کرتے ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ کے ایک اور فیصلے میں سندھ حکومت کو ہدایت کی کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کو معاوضہ ادا کیا جائے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مسلسل کوشش کی جس کی بناء پر 2010میں اقوام متحدہ کا لاپتہ افراد کے بارے میں تحقیقاتی مشن پاکستان آیا۔پھریورپی یونین اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے یہ مطالبہ شروع کیا کہ لاپتہ افراد کو فوجداری جرم قرار دینے کے لیے قانون سازی کی جائے۔
تحریک انصاف کے دورِ اقتدار میں انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے شہریوں کو لاپتہ کرنے کو فوجداری جرم قرار دینے کے قانون کا مسودہ سینیٹ میں پیش کیا۔ اچانک اعلان ہوا کہ قانون کا یہ مسودہ لاپتہ ہوگیا۔ موجودہ حکومت بھی اس مسودے کو تلاش نہیں کر پائی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ مسلم لیگی رہنماؤں نے بھی جسٹس جاوید اقبال کی تنزلی کا مطالبہ کیا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے بھی جسٹس جاوید اقبال کی کارکردگی پر سوالات اٹھائے تھے ۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان میں سب سے زیادہ اٹھایا جاتا ہے۔ بلوچ یکجہتی کونسل کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جن کے والد آٹھ سال قبل لاپتہ ہوئے تھے جو تا حال واپس نہیں آئے، نے تربت سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا تھا اور اسلام آباد میں دس دن تک دھرنا دیا تھا۔ اس وقت نگراں حکومت نے اس مسئلے کے حل کی یقین دہانی کروائی تھی مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ بلوچستان میں کوئی دن نہیں گزرتا، جب لاپتہ افراد کے لواحقین کسی مرکزی شاہراہ پر احتجاج کرتے نظر نہیں آتے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے صدر اختر مینگل نے تو صورتحال سے مایوس ہو کر قومی اسمبلی سے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کیا تھا۔
جب بھی کسی بین الاقوامی فورم پر پاکستانی نمایندے بھارتی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ اٹھاتے ہیں تو بھارتی نمایندوں کے علاوہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اراکین لاپتہ افراد کے مسئلے پر بحث کرنے لگتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فاضل ججوں کی یہ بات بالکل درست ہے کہ پارلیمنٹ سب سے بالادست ادارہ ہے اور پارلیمنٹ کو اس مسئلے کا حل تلاش کرنا چاہیے۔