میڈیا کے مطابق کنٹینر سے گرایا جانے والا پی ٹی آئی کا کارکن کے پی کے وزیر اعلیٰ کے پاس ملنے پشاور پہنچ گیا جس کے بعد اس کی ہلاکت کی خبر غلط ثابت ہوگئی۔
ایک عالمی خبر کے مطابق مس انفارمیشن اور گمراہ کن بیانیے سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں اب پاکستان بھی شامل ہو گیا ہے اور یہ گمراہ کن بیانیے پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم کی گلوبل رسک رپورٹ 2024 کے مطابق جھوٹی معلومات اور غلط بیانیے کئی ممالک کے لیے سنگین چیلنجز بن گئے ہیں، جن میں اب پاکستان بھی شامل ہے اور آیندہ دو سال یہ جھوٹے بیانیے پاکستان کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔
یوں تو پاکستان کی سیاست سچ کی عادی اور جھوٹ سے دور کبھی رہی ہی نہیں۔ ملک میں غیر سول حکومت رہی ہو یا سول حکومتیں سب نے اپنے مفاد کے لیے سچ چھپایا اور جھوٹوں کے ذریعے حکومت کی اور حقائق عوام سے چھپا کر جھوٹوں کو فروغ دیا جس کی وجہ سے عوام کا حکومتی خبروں سے اعتماد ختم ہوتا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب صرف پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان ہوتا تھا، یہ دونوں سرکاری ادارے ہی معلومات کا اولین ذریعہ تھے ۔
اس وقت نجی ٹی وی نہیں تھے اور خبروں پر سرکاری بندش ہوتی تھی مگر اس وقت جھوٹے بیانیے بھی نہیں ہوتے تھے کیونکہ سوشل میڈیا کا وجود نہیں ہوتا تھا اور عوام کو سچائی کی تلاش کے لیے صرف غیر ملکی میڈیا میسر ہوتا تھا اور یہ حالت نہیں ہوتی تھی جس سے سوشل میڈیا کے بعد ملک پاکستان بھی اب کئی سالوں سے بھگت رہا ہے ۔
سچی خبروں تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے افواہوں کا بازار گرم رہتا تھا اور اگر کوئی افواہ سو فیصد غلط بھی ہوتی تھی اور حکومت اس کی تردید کرتی تھی یا سرکاری وضاحت جاری کرتی تھی تو لوگ اس پر یقین ہی نہیں کرتے تھے اور حکومتی موقف کو غلط اور جھوٹی خبروں اور افواہوں کو سچا سمجھتے تھے جس کی ذمے دار ماضی کی حکومتیں ہوتی تھیں جو کبھی سچ کو سامنے ہی نہیں آنے دیتی تھیں جس کی وجہ سے حکومتیں عوام کا اعتماد کھو چکی تھیں جس کے بعد سوشل میڈیا کا ظہور ہوا۔ شروع میں سوشل میڈیا کا غلط استعمال نہیں ہوتا تھا اور اس کی ایک ساکھ تھی۔
جنرل پرویز مشرف دور کو آمرانہ دور کہا جاتا تھا مگر قابل اعتماد سینئر صحافیوں نے متعدد بار تسلیم کیا کہ وہ دور میڈیا کی ترقی اورکسی حد تک سچائی کا دور تھا اور سرکاری پابندیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ نجی ٹی وی چینلز نے جنرل مشرف دور میں فروغ پایا ۔ جنرل مشرف کے بعد جب موبائل فونز عام اور سوشل میڈیا کی طرف عوام کا رجحان بڑھا تو سب سے پہلے پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کا سیاسی استعمال شروع کیا جو حکومت کے کنٹرول میں نہیں تھا۔
پی ٹی آئی کا اس سلسلے میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔ عمران خان نے اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں بنائیں اور اپنی حکومت میں پی ٹی آئی وزیر اعظم اپنی سوشل میڈیا ٹیم کی مکمل سرکاری سرپرستی کی، ہزاروں افراد کو سرکاری ملازمتیں دیں۔
پی ٹی آئی دور میں ہی میڈیا، صحافی اور اینکر تقسیم ہوئے۔ پی ٹی آئی حکومت ختم ہوئے ڈھائی سال ہوگئے اور ملک اور بیرون ملک پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے حکومت کو نچا رکھا ہے اور حکومت اب تک اس کا توڑ کرنے میں بری طرح ناکام ہے اور نئے نئے حکومتی حربے استعمال ہو رہے ہیں مگر پی ٹی آئی کے حامی سوشل میڈیا، اس کے حامی صحافیوں و اینکروں نے سیاسی فریق بن کر جھوٹوں کے نئے ریکارڈ قائم کیے اور جھوٹ کو اس قدر پھیلا دیا ہے کہ سرکاری سچ کو جھوٹا اور سوشل میڈیا کے شرمناک جھوٹوں کو عوام درست مان رہے ہیں۔
پرانا دور پھر آگیا اور حکومتی خبروں پر کوئی یقین نہیں کرتا۔ سیاسی میڈیا نے قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے اور سوشل میڈیا پر جھوٹ کے ریکارڈ قائم ہو رہے ہیں اور سچ اب مکمل طور پر چھپ گیا ہے۔