بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری لینے کے بعد یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (UMT) کے بانی مالک حسن صہیب مراد مرحوم جیسے لیجنڈ کے ساتھ ان کے پہلے ادارے انسٹیٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ (ILM) میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس کے بعد 3 سال ملک کے معروف صنعتکار رزاق داؤد کے ادارے ڈسکون انجینئرنگ میں ایک نئی دنیا دیکھنے اور بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ILM اور DECSON کے تجربات پر کتاب لکھی جاسکتی ہے لیکن سردست اپنے موضوع کی مناسبت سے پاکستان کے بڑے صنعتی گروپ لیکسن ٹوبیکو کمپنی کے سیلز اینڈ مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے 8 سالہ تجربے اور اس کے نچوڑ کی بنیاد پر بات کروں گا۔
سیلز اور مارکیٹنگ کی اس وابستگی سے مجھے کنزیومر پراڈکٹس بیچنے کے لیے اشتہارات کی اہمیت کے ساتھ کنزیومرز کی معصومیت کا اندازہ بھی ہوا ہے بلاشبہ پروموشنل اشتہارات میں دکھائے گئے مناظر اور کہے گئے جملے حقیقت کے برعکس ہوتے ہیں مگر اشتہار اور پراڈکٹ کو دیدہ زیب بنانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ دوران تعلیم سیلز اور پروموشن کے سیمیناروں اور نوکری کے دوران پروفیشنل ٹریننگز کے دوران ہمیں پڑھایا گیا اور ہمارا مشاہدہ بھی یہی ہے کہ پروڈکٹس کی سیل میں 80فیصد حصہ مارکیٹنگ اسٹرٹیجی کا ہوتا ہے۔اب میںگزشتہ 23 سال سے پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہاؤس ایکسپریس میڈیا گروپ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اسرار ورموز اور خبر کی اہمیت، افادیت اور پراپیگنڈا کے نقصان دونوں سے واقف ہوں۔ اب ذرا سیاست اور خبر کے معاملے پر اپنا مشاہدہ اور تجربہ بیان کرتا ہوں۔
سیاسی جماعتیں اپنا منشور اور سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے میڈیا کا سہارا لیتی ہیں تاکہ ووٹرز اور سیاسی کارکنوں کی ذہن سازی کر سکیں۔ البتہ گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستانی سیاست میں جھوٹ اور بہتان تراشی کا چلن عام ہوا‘ادھر جھوٹی خبروںاور فیک نیوز نے ہر حد پار کردی۔ پرنٹ میڈیا اور نشریاتی ادارے سرکاری اور نجی شعبے کے چند محدود گروپس کے کنٹرول میں ہیں جسے پروفیشنل لوگ چلاتے ہیں۔ ملک دشمن خبر یا فیک نیوز چلانے کا تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ الیکٹرانک میڈیا سے پہلے جب ملک میں خبر کا ذریعہ صرف اخبارات ہوا کرتے تھے تو اگر کسی اخبار میں کوئی غلط خبر چھپ جاتی تو اخبار کے ایڈیٹر اور مالک عذاب میں آجاتے تھے۔
نجی شعبے کے زیر انتظام الیکٹرانک میڈیا ہاؤسز کی آمد کے بعد اگر کوئی غلط خبر چل جاتی ہیں تو عارضی طور پر چیلنز بند ہوجاتے ہیں یا پروگرام پر پابندی لگ جاتی تھی اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے جس کا کوئی مالک اور ادارہ متحمل نہیں ہوسکتا ہے‘ اس لیے مین اسٹریم میڈیا جھوٹ اور فیک نیوز سے بچا ہوا ہے مگر جب ہر قدغن اور پابندی سے آزاد سوشل میڈیا خبر رسانی کے ذرایع بنے تو چند ایک سلجھے اور سمجھ دار صحافیوں کے علاوہ نام نہاد صحافیوں اور یوٹیوبرز نے غدر مچا کر ہر اخلاقی قدر پامال کردی۔ جس شخص کے ہاتھ میں اسکرین ٹچ موبائل ہے اس کا اپنا چینل ہے۔
بغیر کسی لائسنس اور اجازت کے اس کے منہ میں جو آتا ہے وہ بول کر اپ لوڈ کردیتا ہے اور اگر سودا بکنا شروع ہوا تو گھر بیٹھے ڈالر کمانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف جو شخص اربوں روپے کی سرمایہ کاری کرکے ہزاروں لوگوں کو ملازمتیں دیتا ہے ان پر غیر ضروری حکومتی کنٹرول ہوتا ہے، ان کے این او سی جاری کرنے کے لیے ناک سے لکیریں نکلوائی جاتی ہیں۔
اس ناانصافی اور تضاد نے میڈیا کا توازن بگاڑ کر رکھ دیا ہے اور تمام میڈیا ہاؤسز معاشی بحران کا شکار ہوگئے کیونکہ جو اینکر ملک کے بڑے بڑے میڈیا چینلز کے کروڑوں روپے کے اسٹوڈیو میں بیٹھ کر پروگرام کرتے ہیں تو ان کے ویورز ہزاروں میں ہوتے ہیں مگر جب وہ اینکر پرسن ادارے کے اسٹوڈیو سے اٹھ کر اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر سوشل میڈیا کے کسی ٹول پر وی لاگ کرکے اپنے ڈیجیٹل یوٹیوب چینل پر اپ لوڈ کرتا ہے تو میلینز کے ویوز آتے ہیں۔ بعض یوٹیوبرز کے سبسکرائبرز تو بڑے بڑے میڈیا چینلز سے بھی زیادہ ہوتے ہیں اور ویورزکا تو کوئی مقابلہ نہیں۔ جس کی وجہ سے میڈیا انڈسٹری کے اشتہارات کا بزنس یوٹیوب چینل پر منتقل ہو رہا ہے۔ سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟ تو سمجھ یہی آتا ہے کہ حکومت کی چشم پوشی، مصلحت پسندی اور حکومت وقت (بلاتفریق و استثنیٰ) کی نااہلی اس کے بنیادی اسباب ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا کی اپنی حدود و قیود اور ذمے داریاں ہیںلہٰذا وہاں جھوٹ اور فیک نیوز کا چلنا ممکن نہیں ہے‘ سنسنی خیزی کے خلا کو پرکرنے کے لیے مادر پدر آزاد سوشل میڈیا ٹائیگرز اور یوٹیوبرز تیار بیٹھے ہیں۔ وہ ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مہنگائی کی چکی میں پھنسے اور حکومت وقت سے نالاں عوام کو مرچ مصالحہ لگا کر وہ کچھ بتاتے ہیں جو عوام سننا چاہتے ہیںلیکن حقیقت نہیں ہے۔ یہ حالات کی ستم ظریفی، حکومت کی نااہلی اور ریاست کی لاتعلقی کا نتیجہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم متشدد ہوچکے ہیں۔ ہمیں گالم گلوچ، غیبت اور بہتان تراشی ہی اچھی لگتی ہے جس کا فائدہ یوٹیوبرز اٹھاتے ہیں۔
جو کسر رہ گئی تھی وہ سیاسی پارٹیوں کے سوشل میڈیا ایکٹیوٹس نے پوری کردی۔ ایک وقت تھا کہ سچ سچ اور جھوٹ جھوٹ ہوتا تھا مگر اب ہر بندے اور سیاسی پارٹی کا اپنا اپنا سچ اور اپنا اپنا جھوٹ ہے اور ہر ایک اپنی مرضی کا سچ سننا چاہتا ہے اور ہر یوٹیوبر کے برانڈڈ ویورز ہیں وہ اپنے اپنے ویورز کو ان کی مرضی کا سچ سناتے ہیں کیونکہ ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں اس لیے وہ وہی بولتے ہیں جو بکتا ہے چاہے وہ ملک دشمنی ہو یا مذہب دشمنی۔ دور نہ جائیں مادر پدر آزاد سوشل میڈیا کے لشکری جو آگ آج کل بھڑکا رہے ہیں اسے دیکھ کر ہر محب وطن پاکستانی کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ بے بنیاد، غلط خبروں اور ملک دشمن پروپیگنڈے کے علاوہ گالم گلوچ کے جس کلچر کو سوشل میڈیا کے لشکریوںنے پروان چڑھایا اس نے ہماری معاشرتی اقدار کا جنازہ نکال دیا ہے۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں مگر اس کا سہرا ’’تباہی سرکار‘‘ سوشل میڈیا کے گالم گلوچ بریگیڈ کو جاتا ہے۔
یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم سوشل میڈیا کو منفی انداز میں استعمال کر رہے ہیں یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ شاید ذہنی استعداد اور سمجھ بوجھ اتنی نہیں کہ سوشل میڈیا جیسے پلیٹ فارم کو فراست کے ساتھ استعمال کرے۔ اس لیے ملک وملت کے لیے دو دھاری تلوار ثابت ہو رہی ہے ایک طرف فحاشی، عریانی، گالم گلوچ اور ملک دشمنی تو دوسری طرف ملک کے الیکٹرانک میڈیا کو زمین بوس کرنے جارہی ہے۔ سوشل میڈیا کے لشکریوں کے غیر ذمے دارانہ کردار کو دیکھتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے کہ بندر کو ماچس پکڑوا دی گئی ہے۔
(جاری ہے)