پاکستان میں 88 پولیو ورکرز کی شہادتیں ہوئی ہیں، حکام
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت میں حکام نے کہا ہے کہ ملک بھر میں حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام کی کوریج بہت کمزور ہے جبکہ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جس میں 88 پولیو ورکرز کی شہادتیں ہوئیں ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کا اجلاس عامر ولی الدین چشتی کی زیر صدارت منعقد ہوا جہاں اجلاس میں قومی ادارہ صحت ری اسٹرکچرنگ ترمیمی بل 2024 بل پر بحث ہوئی جبکہ پرائیویٹ ممبر بل سلیم مانڈوی والا نے 4 نومبر کو پیش کیا تھا۔
اجلاس کو حکام نے بریفنگ دی اور بتایا کہ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جس میں 88 پولیو ورکرز کی شہادتیں ہوئیں ہیں۔
صحت کوآرڈینیٹر ڈاکٹر مختار بھرتھ نے بتایا کہ قومی ادارہ صحت عالمی معیارکا ادارہ ہے، پولیو کیسز کی تلاش، تشخیص اور لیب کی ضروریات میں ہمارا ادارہ فعال کام کر رہا ہے۔
سربراہ پولیو ایمرجنسی آپریشن سینیٹر انوارالحق نے پولیوکیسز کے بارے بریفنگ میں بتایا کہ اس وقت پورے پاکستان میں پولیو وائرس موجود ہے جبکہ ہم 2021 اور 2022 کے دوران 14 ماہ تک پولیو فری رہے اور کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال اب تک 59 پولیو کیسز پاکستان میں سامنے آئے، 19 کیسز ایسے تھے جو معمولی معذوری کے تھے،10 کیسز بہت زیادہ معذوری کا شکار ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیو کی تقسیم میں کوئٹہ کے چار بلاک ہیں، پشاور اور کراچی پورا بلاک ہے، حکومت سندھ انسداد پولیو کے حوالے سے بہت اچھا کام کر رہی ہے۔
سربراہ پولیو ایمرجنسی آپریشن نے کہا کہ اندرون سندھ پولیو میں حکومتی کمٹمنت بہت زیادہ ہے، ملک بھر میں حفاظتی ٹیکہ جات پروگرام کی کوریج بہت کمزور ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئندہ سال جنوری تک پولیو وائرس کا پھیلاو کم ہوجائے گا اور وزیر اعظم نے بھی پولیو کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کرنے کی ہدایت دے رکھی ہے۔
ڈاکٹر مختار بھرتھ نے بریفنگ میں بتایا کہ کراچی اور بلوچستان میں صورت حال پھر بھی بہتر ہے، بل اینڈ گیٹس ملینڈا فاؤنڈیشن کی خدمات بھی بہت نمایاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی علاقوں میں ابھی تک بہت چیلجنز ہیں، پوری دنیا پولیو فری ہوگئی لیکن پاکستان اور افغانستان ابھی تک اس کو بھگت رہے ہیں۔