حضرت ابُوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہُوا اور عرض کیا: ’’یارسول اﷲ ﷺ! مجھ پر خدمت اور حسنِ سلوک کا لوگوں میں سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: تمہاری ماں کا۔ اس نے کہا: پھر کس کا؟ آپؐ نے فرمایا: تمہاری ماں کا۔ اس نے کہا: پھر کس کا؟ آپؐ نے فرمایا: تمہاری ماں کا۔ اس نے کہا: پھر کس کا ؟ (تو چوتھی مرتبہ) آپؐ نے فرمایا: تمہارے باپ کا۔‘‘
جنت ماں کے قدموں کے میں:
حضرت ابُوامامہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے سوال کیا: یارسول اﷲ ﷺ! ماں باپ کا ان کی اولاد پر کیا حق ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’وہ تمہاری جنّت اور جہنّم ہیں۔‘‘
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے، رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ماں کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرنے والا جو بھی اپنی ماں کو محبت اور احترام کی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کو ہر نظر کے بدلے میں ایک مقبول (نفلی) حج کا ثواب ملتا ہے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اﷲ ﷺ! اگرچہ وہ دن بھر میں سو مرتبہ دیکھے؟ حضورؐ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ وہ دن میں سو مرتبہ دیکھے۔‘‘
رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: خاک آلود ہو ناک اس شخص کی، خاک آلود ہو ناک اس شخص کی، خاک آلود ہو ناک اس شخص کی۔ (گویا آپؐ نے تین مرتبہ یہ بددعا فرمائی کہ وہ شخص ذلیل و خوار ہو) پوچھا گیا: یارسول اﷲ ﷺ! وہ کون شخص ہے، جس کے حق میں بددعا فرمائی جا رہی ہے؟ آپؐ نے فرما یا: ’’وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کو، یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے اور وہ شخص ان کی خدمت کرکے اور ان کو راضی کرکے جنت میں داخل نہ ہو سکا۔‘‘
کیوں کہ بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرنا بڑے اجر کی بات ہے اور جنّت میں داخل ہونے کا سبب ہے۔
والدین کی نافرمانی کرنا گناہ کبیرہ ہے:
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالی نے تمہارے اوپر ماں باپ کی نافرمانی کو حرام قرار دیا ہے۔
حضرت ابوبکرؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’شرک کے علاوہ تمام گناہوں میں سے اﷲ تعالی جس گناہ کو چاہتا ہے معاف فرما دیتا ہے، مگر ماں باپ کی نافرمانی کا گناہ کہ اس کو نہیں بخشتا، بل کہ اﷲ تعالی ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں جلد ہی سزا دے دیتا ہے۔‘‘
مشرک ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم:
اﷲ تعالی کا ارشاد ہے، مفہوم: ’’اور اگر وہ دونوں (ماں باپ) تجھ پر اس کا زور ڈالیں کہ تُو میرے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائے، جس کی تیرے پاس کوئی دلیل نہیں، تو تُو ان کا کہنا نہ ماننا، اور دنیا میں ان کے ساتھ شرافت سے بسر کیے جانا، اور اسی کی راہ پر چلنا جو میری طرف رجوع ہو، تم سب کو میرے پاس آنا ہے، پھر جو کچھ تم کرتے رہتے تھے میں تمہیں سب جتاؤں گا۔‘‘
اس سے معلوم ہُوا کہ اگر ماں باپ مشرک اور کافر ہوں تب بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے گا، البتہ اگر وہ شرک و کفر، یا کسی معصیت کا حکم کریں تو اس میں ان کی اطاعت نہیں کی جائے گی، اس لیے کہ اﷲ کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے گی۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے، ام المؤمنین حضرت اسماءؓ فرماتی ہیں کہ میری ماں میرے پاس آئی، جب کہ وہ مشرکہ تھی، تو میں نے نبی کریم ﷺ سے معلوم کیا کہ میری ماں میرے پاس آئی اور وہ مجھ سے اچھا سلوک اور صلۂ رحمی کی خواہش رکھتی ہے، تو کیا میں ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! اپنی ماں کے ساتھ صلۂ رحمی اور حسنِ سلوک کرو۔ (تفسیر قرطبی)
ماں کی قلیل خدمت پر کثیر ثواب:
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ نے ایک آدمی کو دیکھا، جو خانۂ کعبہ کا طواف کر رہا تھا اور اپنی ماں کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھا، یعنی اپنی ماں کو کندھے پر اٹھا کر طواف کرا رہا تھا، اس آدمی نے کہا: اے ابن عمر! آپ کا کیا خیال ہے، کیا میں نے اپنی ماں کو بدلہ دے دیا، ان کا میرے اوپر جو حق ہے میں نے وہ ادا کردیا ؟ ابن عمرؓ نے فرمایا: نہیں! اور نہ ایک مرتبہ خندہ پیشانی سے (تم اس کا حق ادا کر سکتے ہو) البتہ تم نے اس کے ساتھ احسان کیا ہے اور اﷲ تم کو قلیل خدمت پر کثیر بدلہ اور اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔
(تفسیر روح المعانی)
ماں باپ کی وفات کے بعد ان کی نافرمانی کرنے والی اولاد کیا کرے؟
کسی آدمی نے اپنے ماں باپ، یا ان میں سے ایک کی نافرمانی کی، ان کے حقوق کو ادا نہیں کیا، جس کی وجہ سے والدین اس سے ناراض اور ناخوش رہے اور اسی حالت میں ان کی وفات ہوگئی تو اس نافرمان اولاد کے لیے تلافیِ مافات کی صورت یہ ہے کہ وہ ان کے لیے برابر دعا کرتی رہے، ان کے لیے استغفار کرے اور ایصالِ ثواب کرتی رہے تو اﷲ تعالی ان کی ناراضی اور ناخوشی کو ختم کر دے گا اور اس نافرمان اولاد کا نام ان لوگوں میں شمار کرے گا جو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرتے ہیں اور ان کی رضا و خوش نُودی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ جب کسی ایسے بندے کے ماں باپ مرجاتے ہیں، یا ان دونوں میں سے ایک مر جاتا ہے جو ان کی نافرمانی کیا کرتا تھا اور پھر ان کی موت کے بعد وہ ان کے لیے برابر دعا و استغفار کرتا رہتا ہے تو اﷲ تعالی اس کو نیک و فرماں بردار لکھ دیتا ہے۔
رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اپنے ماں باپ، یا ان میں سے کسی ایک کی قبر کی ہر جمعہ زیارت کرے تو اس کی مغفرت کردی جاتی ہے اور اس کا نام نیکوکار اور والدین کی فرماں برداری کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔
امام اوزاعیؒ فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ جس شخص نے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کی، ان کی حیات میں، پھر ان کے قرض کو ادا کیا اگر ان پر کوئی قرض تھا، ان کے لیے استغفار کیا اور ان کو گالی دینے کا سبب نہیں بنا تو اس کو نیک و فرماں بردار میں شمار کیا جائے کا اور اس کا نام نیکوکار میں لکھ دیا جائے گا۔
بیوہ عورت کے حقوق:
زمانۂ جاہلیت میں بیوہ عورت پر ظلم و زیادتی کی انتہاء نہ تھی، شوہر کی وفات کے بعد اس کے مال و جائیداد کی طرح اس کی بیوی بھی وارثوں کی میراث شمار ہوتی اور اس پر ہر طرح کے مظالم کیے جاتے، اسلام نے اس دستور اور ظالمانہ رسم سے روکا اور بیوہ عورت کو بے مثال حقوق دیے۔ قرآن کریم میں اﷲ حکیم و قدیر نے فرمایا، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم عورتوں کے جبراً مالک ہو جاؤ اور نہ انھیں اس غرض سے قید رکھو کہ تم نے انھیں جو کچھ دے رکھا ہے اس کا کچھ حصہ وصول کرلو، بہ جز اس صورت کے کہ وہ صریح بدکاری کی مرتکب ہوں۔‘‘
تفسیر بغوی اور قرطبی میں ہے: زمانۂ جاہلیت اور اسلام کے ابتدائی دور میں لوگوں کا رویہ اور دستور یہ تھا کہ جب کوئی شخص مر جاتا تو میت کا سوتیلا بیٹا، یا اس کے عصبہ میں سے کوئی قریبی اس عورت پر کپڑا ڈالتا اور وہ اس بیوہ عورت کی ذات کا حق دار ہو جاتا، پس اگر وہ چاہتا تو اس سے بغیر مہر کے نکاح کر لیتا، یا اگر چاہتا تو دوسرے سے نکاح کرا دیتا، اور اس میں جو مہر ملتا خود رکھ لیتا، یا اگر چاہتا تو اس کو یوں ہی چھوڑے رکھتا اور اس کو نکاح کرنے سے روکتا اور کسی سے بھی نکاح کرنے نہیں دیتا، اسے تنگ کرتا اور تکلیف پہنچاتا، تاکہ اس بیوہ کو اس کے میت شوہر سے جو مال ملا ہے اسے دے کر اپنی جان چھڑا لے، یا وہ بیوہ عورت یوں ہی رہتی، تاآں کہ وہ مرجاتی اور وہ اس کے مال کا وارث ہوجاتا۔ وہ بیوہ عورتوں کا اسی طرح وارث ہوتے تھے جس طرح میت کے مال کے وارث ہوتے تھے۔ (تفسیر بغوی)
رسول اﷲ ﷺ کا بیوہ کے ساتھ نرم برتاؤ:
حضرت عبداﷲ بن ابی اوفیؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کثرت سے ذکر کرتے تھے، نماز لمبی پڑھتے تھے، خطبہ مختصر دیتے تھے، اور آپؐ کو بیوہ و مسکین کے ساتھ چلنے میں ناگواری نہیں ہوتی تھی، پس ان کے ساتھ چل کر ان کی ضرورت کو پوری فرماتے تھے۔
بیوہ کی خدمت کا ثواب:
بیوہ اور مسکین کی خبر گیری اور خدمت کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جو اﷲ کے راستے میں سعی کرے یعنی جو شخص بیوہ عورت اور مسکین کی دیکھ بھال اور خبر گیری کرتا ہے اور ان کی ضروریات کو پوری کرکے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہے اس کا ثواب اس ثواب کے برابر ہے جو اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور حج کرنے والے کو ملتا ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا گمان یہ کہ آپؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’بیوہ اور مسکین کی خبر گیری کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو رات بھر بیدار رہ کر عبادت کرے اور اس میں کوئی سستی اور تھکان نہ ہو اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو (دن کو کبھی) افطار نہ کرے، یعنی مسلسل ہر دن روزہ رکھے، جس کو صائم الدہر کہتے ہیں۔‘‘
بیوہ بیٹی کی کفالت کا اجر:
حضرت سراقہ بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں بہترین اور افضلِ صدقے کے بارے میں نہ بتاؤں ؟ وہ صدقہ اپنی اس بیٹی کے ساتھ حسنِ سلوک اور اس پر خرچ کرنا ہے، جو تمہارے پاس واپس بھیج دی گئی ہے اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ یعنی اگر تمہاری بیٹی کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی ہو یا وہ مرگیا، اور اس کے پاس کسبِ معاش کا کوئی ذریعہ نہ ہو، ایسا کوئی کمانے والا نہ ہو جو اس کی کفالت کر سکے، بل کہ صرف تم ہی اس کے لیے واحد سہارا ہو، اسی لیے ناچار ہوکر تمہارے گھر آن پڑی ہے تو تمہاری طرف سے اس کی کفالت، خبرگیری اور حسنِ سلوک ایک بہترین صدقہ ہے۔ اس پر مال خرچ کرنا افضل صدقہ ہے۔
اﷲ تعالی ہمیں تمام حقوق انسانی کی ادائی کی توفیق بخشے۔ آمین