ہم ساری زندگی لوگوں کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھتے ہیں، کبھی اپنی شخصیت کو لوگوں کی خاطر تبدیل بھی کر لیتے ہیں، کبھی ہم اپنے آپ کو دوسروں کے معیار پر جانچتے ہیں، پھر بھی لوگ ہم سے خوش نہیں ہوتے، لوگوں کو خوش کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ایک ہستی جو ہماری خالق و مالک و مددگار و کارساز ہے اور جو ہمارے خلوص و اعمال کی قدردان بھی ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے، ہم دنیا کو خوش کرتے کرتے نڈھال ہوجاتے ہیں اور دنیا ہے کہ پھر بھی خفا ہی رہتی ہے اور جسے خوش رکھنا چاہیے، جس کی خوش نُودی مطلوب ہے، جس کی رضا درکار ہے بس اسے خوش کرنا بُھول جاتے ہیں اور پھر وقتِ رخصت آ پہنچتا ہے۔
چلیے! آج بات کریں گے کہ اس وحدہُ لا شریک مالک کے پسندیدہ لوگوں کی، کہ اسے کیسے لوگ پسند ہیں۔۔۔ ؟ کیا ہم اس فہرست میں آتے ہیں یا نہیں۔۔۔ ؟ اور اگر نہیں آتے تو کیا ہُوا اس کا حل بھی ہمیں اسلام ہی نے بتایا ہے کہ ہم اس کی پسند کے مطابق اپنی شخصیت کو بنانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں، وہی تو ہمارا مالک اور اصل قدردان ہے۔
آئیے! دیکھتے ہیں اﷲ تعالٰی قرآن میں اپنے پسندیدہ بندوں میں کیا خصوصیات چاہتے ہیں۔
متّقین: مفہوم: ’’تم میں سے سب سے عزت والا اﷲ کے ہاں (وہ ہے) جو سب سے زیادہ متقی ہے۔‘‘ (الحجرات)
رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین مرتبہ اشارہ کرکے فرمایا: ’’تقویٰ یہاں ہے۔‘‘ (مسلم) یعنی اعمال ظاہرہ کرنے تو ہیں لیکن اس سے تقویٰ حاصل نہیں ہوتا بل کہ دل میں جو خشیت الٰہی ہوتی ہے، اس کے ذریعے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔
حضرت عمر بن خطابؓ نے حضرت ابی بن کعبؓ سے تقویٰ کے متعلق سوال کیا تو جواب ملا: کیا آپ کانٹے دار راستہ پر چلتے ہیں؟ حضرت عمر ؓنے جواب دیا: ہاں! حضرت ابی ؓنے کہا: پھر آپ کیا کرتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: اپنے آپ کو سکیڑ کر اور بچ کر گزرتا ہوں۔ سیّدنا ابیؓ نے جواب دیا: یہی تو تقویٰ ہے۔
لہذا تقویٰ اختیار کرنے والا شخص متقی ہے جو اﷲ کو بہت پسند ہے۔
متوکلین: ’’یقیناً اﷲ توکل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (آلعمران)
لغوی اعتبار سے کسی پر اعتماد اور عاجزی کے اظہار کا نام توکل ہے۔ اس مقام پر توکل سے توکل علی اﷲ (اﷲ پر بھروسا یعنی اعتماد) مراد ہے اور یہ قلبی عمل ہے، زبان کا اس میں کوئی دخل نہیں، یعنی مقدر پر راضی ہونا، ہر حال میں اﷲ تعالیٰ سے راضی رہنا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا
سر تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے
بندے کا توکل اس وقت تک درست نہیں ہوتا جب تک بندے کا دل اﷲ تعالیٰ پر اعتماد اور بھروسا کرنا نہ سیکھ لے۔ دل کا اس کے لیے فرماں بردار ہونا بہت ضروری ہے کہ خود سپردگی اور رضا مندی توکل کا ثمر ہیں۔
علماء کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ توکل محنت کرنے کے منافی نہیں کیوں کہ توکل اس وقت تک درست نہیں ہوسکتا جب تک انسان خود محنت نہ کرے۔ اگر ایسا نہیں تو یہ فاسد اور باطل توکل ہے۔ چناں چہ توکل آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کی حالت ہے اور محنت آپ ﷺ کی سنت ہے، توکل، دین کی منازل میں سے ایک منزل اور یقین رکھنے والوں کے مقامات میں سے ایک مقام ہے، بل کہ یہ مقربین کے عالی درجات میں سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے صاحب توکل کے لیے اپنی محبت کا اعلان اور اس کے لیے کافی ہونے کی ضمانت اٹھائی ہے۔ وہ بندے سے زیادہ قادر ہے اور بندے کے لیے خود اس کے نفس سے زیادہ خیر خواہ اور زیادہ رحم کرنے والا اور زیادہ نیکی کرنے والا ہے۔ اﷲ خود فرماتے ہیں، مفہوم : ’’اور جس نے اﷲ پر توکل کیا تو وہ اسے کافی ہے۔‘‘ (الطلاق)
صابرین: ’’اور اﷲ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (آلعمران)
صبر: لغوی لحاظ سے رک جانے کا نام ہے۔ شرعی اصطلاح میں نفس کو ناراضی اور واویلا سے روکنا اور زبان کو شکوے سے اور اعضاء کو پریشانی سے روکنا صبر کہلاتا ہے ۔ اس کی تین اقسام ہیں:
اﷲ کی فرماں برداری پر صبر: اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے رکنے پر صبر۔اﷲ کے آزمائش پر صبر: یہ بھی کہا گیا ہے کہ دنیا میں مصائب اور ناقابل برداشت صورت حال پر صبر کرنا اور آزمائش کے وقت حسن ادب کو ملحوظ خاطر رکھنا اور تقدیر پر معترض نہ ہونا بھی صبر ہے۔ وہ لوگ صابر ہیں جو اﷲ تعالیٰ کے پسندیدہ دین (اسلام) پر صبر کرتے، خواہ تنگی ہو یا آسانی، اس کو نہیں چھوڑتے۔ یہاں تک کہ ان کی موت اسلام پر ہی آتی ہے۔ اﷲ کے دیے ہوئے احکامات و عبادات پر ڈٹ جاتے ہیں۔ معاصی، شہوات، نفس کی خواہشات اور شیطانی قدموں کی پیروی نہ کرنے پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اور اﷲ کے راستے میں جو مصائب پہنچتے ہیں، ان کی وجہ سے دشمنوں کے سامنے کم زوری نہیں دکھاتے اور نہ ہی ان کے آگے جھکتے ہیں، دنیا کی محبت کے ترک پر صبر اور دار آخرت میں رغبت رکھتے ہیں۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہوتے ہیں اور جو تکالیف اس راستے میں آتی ہیں ان پر صبر کرتے ہیں۔
رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع کرنے والے، مفہوم: ’’کہہ دیجیے! اگر تم اﷲ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری اطاعت کرو، خود اﷲ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اﷲ تعالیٰ بڑا بخشنے والا اور ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (آلعمران)
وہ لوگ جو اﷲ تعالیٰ سے محبت رکھنے کی وجہ سے محمد رسول اﷲ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں اور کسی بدعت پر عمل نہیں کرتے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ کے پیار کرنے کی شرط یہی ہے، یعنی اتباعِ سنّت رسول کریم ﷺ۔ اس آیت نے فیصلہ کردیا کہ جو انسان اﷲ کی محبت کا دعوے دار تو ہے مگر وہ مجموعی طریقہ نبی کریم ﷺ پر نہیں چلتا وہ اپنے دعویٰ میں کاذب ہے۔ چناں چہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے ہمارے اس معاملہ (دین) میں کوئی نئی چیز جاری کی، جو (دین) میں نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘ (مسلم)
چناں چہ ایسی صفت والے کو اﷲ تعالیٰ پسند ہی نہیں کرتا، گو وہ ہزارہا محبت کا دعویٰ کرے۔ ہاں! اگر یہ آدمی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ ﷺ کے طریقے کے مطابق اعمال کرے گا، تو اﷲ تعالیٰ کا محبوب گردانا جائے گا۔
عدل و انصاف کرنے والے: ’’بے شک! اﷲ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (المائدہ){
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ’’انصاف کرنے والے اﷲ تعالیٰ کے پاس دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے۔ (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں اور گھر والوں اور جن کے نگران بنے تھے، ان میں انصاف کرتے تھے۔‘‘ (مسلم)
اس سے معلوم ہُوا کہ یہ فضیلت ان کو ملے گی جو کوئی بھی فیصلہ ہو اس میں انصاف کرتے ہیں اور یتیم کا خیال کرنا، صدقہ یا وقف کا کوئی مسئلہ ہو اس میں بھی اور اپنے اہل و عیال وغیرہ میں بھی انصاف سے کام لیتے ہیں۔ کثرت سے توبہ کرنے اور پاک صاف رہنے والے۔
مفہوم ’’بے شک! اﷲ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔‘‘ (البقرہ)
دوسرے مقام پر فرمایا، مفہوم: ’’اور اﷲ تعالیٰ پاک رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (التوبۃ)
تَوَّابُوْنَ: اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو غلطی کے بعد اﷲ تعالیٰ کا ذکر شروع کردیتے ہیں اور اپنے کیے پر شرمندہ ہوتے ہیں۔ گناہ کا احساس ہونے کے فوراً بعد توبہ و استغفار کرتے ہیں اور اس غلطی کو نہ دہرانے کا عہد کرتے ہیں۔ توبہ و استغفار کے بعد نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور اگر کوئی گناہ سرزد ہو تو پھر توبہ کرتے ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ جو انسان گناہ سے توبہ کرتا ہے ایسے ہوجاتا ہے کہ جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔
مُتَطَھِّرِیْنَ: اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو گندگی سے دور رہتے ہیں، اور صفائی کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے اس پر ہمیشگی کی حرص رکھتے ہیں۔
محبت کا جذبہ اور کوشش ہمیں بھی ان لوگوں کی فہرست میں شامل کر سکتی ہے جنہیں اﷲ پسند فرماتے ہیں، یہی زندگی کا مقصد ہونا چاہیے کیوں کہ دنیا والے کسی طرح ہم سے مطمئن اور راضی نہیں ہوسکتے، حقیقتِ زندگی یہی ہے کہ اپنے رب کو منا لیں، اس کے پسندیدہ ہوجائیں۔ کیا خوب صورت شعر شاعر نے کہا ہے:
یہاں آکے ہم اپنے مدّعا کو بُھولے
مِل مِل کے غیروں سے آشنا کو بھولے