حکومتی صورت حال

حکومت پی ٹی آئی کے سلسلے میں وہ کچھ نہیں کر سکی جس کی توقعات تھیں


محمد سعید آرائیں December 13, 2024
[email protected]

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت صرف پیپلز پارٹی کی مرہون منت ہے اور پیپلز پارٹی متعدد بار وفاقی حکومت پر اپنے تحفظات کا اظہارکر چکی ہے ۔ اسی لیے وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو بلاول بھٹو سے ملاقات کرنا پڑی اور پیپلز پارٹی اور حکومتی کمیٹیوں کی ملاقاتوں پر اتفاق کیا گیا جس سے ظاہر ہے کہ حکومتی کمیٹیوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان رابطے اور مشاورت زیادہ نہیں ہوتی ہے ۔

(ن) لیگی حکومت اہم فیصلے کر رہی ہے اور پیپلز پارٹی سے مشاورت کرتی ہے نہ بلاول بھٹو کو اعتماد میں لیتی ہے جس کا اظہار بلاول بھٹو بھی کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ تحفظات کے باوجود حکومت کی حمایت جاری رکھیں گے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی سندھ حکومت کے وفاقی حکومت کے بعض معاملات پر وزیر اعظم کو خط لکھا ہے جس میں سندھ کے پانی کے مسئلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

بلاول بھٹو نے بھی مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس مقررہ آئینی مدت میں منعقد نہ کرنے کی شکایت کی ہے۔ انھوں نے حال ہی میں وزیر اعلیٰ بلوچستان سے گفتگو میں یقین دلایا ہے کہ بلوچستان کے وفاق سے متعلق امور متعلقہ فورم پر اٹھائیں گے اور وفاقی حکومت کو بلوچستان کے تحفظات سے بھی آگاہ کیا جائے گا۔

پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے بھی بہت شکایات ہیں اور اس کا موقف ہے کہ پنجاب میں جو پاور شیئرنگ فارمولا دونوں پارٹیوں میں طے پایا تھا، اس پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ گورنر پنجاب بھی تنقید کرتے رہتے ہیں ۔

پنجاب کے وزراء کو پیپلز پارٹی کے گورنر سے متعلق بیانات دینے سے گریزکرنا چاہیے کیونکہ آصف زرداری صدر مملکت ہیں تو وزیر اعظم شہباز شریف ہیں اور وفاق میں دونوں مل کر چل رہے ہیں۔ کے پی میں گورنر اور پی ٹی آئی کے وزیر اعلیٰ کے درمیان سیاسی رنجش سمجھ میں آتی ہے مگر پنجاب میں (ن) لیگ اور پی پی دونوں کی مشترکہ حکومت ہے۔ وفاق میں پی پی کے وزیر نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ وفاق مکمل طور مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے جہاں ملک کا سب سے بڑا عہدہ صدر مملکت پی پی کے پاس ہے۔

پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو مولانا فضل الرحمن کے گھر جا کر یقین دلا چکے ہیں کہ صدر مملکت بل پر دستخط کردیں گے۔ صدر مملکت نے بل واپس کیا جس پر مولانا فضل الرحمن نے دھمکی دی ہے کہ جے یو آئی مدارس بل پر اسلام آباد تک لانگ مارچ کرے گی، اگر یہ لانگ مارچ ہوا تو وفاقی حکومت کے لیے مسائل بڑھیں گے اور (ن) لیگ اور جے یو آئی کے درمیان دوریاں مزید بڑھیں گی۔ آجکل سینیٹر فیصل واؤڈا بھی خاصے سرگرم ہیں اور خاصے معنی خیز بیانات دے رہے ہیں۔

ادھر حکومت پی ٹی آئی کے سلسلے میں وہ کچھ نہیں کر سکی جس کی توقعات تھیں۔ پی ٹی آئی حکومت کو تو کچھ سمجھتی ہی نہیں، اس کا خیال ہے کہ بالاتر اگر حکومت کا ساتھ دینا چھوڑ دیں تو حکومت ختم ہو جائے گی، اس لیے اس حکومت سے پی ٹی آئی مذاکرات کرنا ہی نہیں چاہتی۔ (ن) لیگ میں بھی اس کے بعض رہنما یہ چاہتے ہیں کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات نہ ہوں اور اسی میں حکومت کا فائدہ ہے۔

 وزیر اعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ بالاتر اور حکومت ایک پیج پر ہے اور پی ٹی آئی کے وزیر اعظم بھی یہی دعوے کیا کرتے تھے مگر ان کی اپنی سیاسی ناپختگی اور غلط فیصلوں کی وجہ سے بالاتر ان کی حکومت کی حمایت سے دستبردار ہوگئے تھے اور پی ٹی آئی حکومت ختم ہوگئی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ پی ٹی آئی کے سابق وزیر اعظم اور موجودہ وزیر اعظم میں فرق ہے۔

موجودہ حکومت میں بانی پی ٹی آئی کے خلاف جو 188 مقدمات درج ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ عدالتوں میں جاتے ہی اڑ جاتے ہیں اور بانی کی سزا کے خلاف جو فیصلے بانی کے حق میں آئے ان کے خلاف حکومت ہائی کورٹ نہیں گئی جس سے بانی کو سیاسی فائدہ اور حکومت کی بدنامی الگ ہوئی۔ (ن) لیگ اور پی پی کے درمیان اتحاد قائم ہے جب کہ دوسری پارٹیاں بھی اتحاد میں شامل ہیں۔ البتہ کہیں کہیں اختلافات سامنے آجاتے ہیں ،جیسے سندھ میں کینال کے مسئلے پر پی پی حکومت سے نالاں ہے مگر اتحاد بدستور موجود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں