شام سے لے کر فلسطین تک کے علاقے کو بلادِ شام کہا گیا۔دمشق بلادِ شام کا سب سے اہم اور پرانا شہر ہے۔یہ شہر اتنا پرانا ہے کہ باآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ زمانۂ قبل مسیح سے اب تک مسلسل آباد ہے۔
شعرا اس شہر کو مدینۃ الیاسمین The city of Jasmin کہتے ہیں۔بردا دریا شہر کے بیچوں بیچ بہتے ہوئے ایک ایسی جھیل میں گم ہو جاتا ہے جو انتہائی گرم اور خشک موسم میںسوکھ جاتی ہے۔دمشق کی مسجدِ امیہ بھی زمانہ قبل مسیح سے ایک مرکزی عبادت گاہ رہی ہے۔رومن عہد میں یہ کفار کی عبادت گاہ تھی۔عیسائیوں نے اسے گرجا گھر میں تبدیل کر دیا اور حضرت خالدؓ بن ولید کے لشکر کے ہاتھوں مسلمانوں کے قبضے میں آنے کے بعد اس تاریخی عبادت گاہ کے آدھے حصے کو مسجد اور آدھے کو گرجا گھر رہنے دیا۔
آخرکار یہ عبادت گاہ پوری کی پوری ایک مسجد بنا دی گئی۔اسی مسجد کے اندر سیدنا یحییٰ ؑ کی مرقدِ مبارک ہے۔مسجد کے ایک کونے میں تنگ سی جگہ پر سیدی و سیدنا امام زین العابدین کو یزیدی دور میں دمشق لا کر پابندِ سلاسل رکھا گیا۔دمشق کے وسیع و عریض قبرستان میں کئی امہات المومنین،اہلِ بیت عظام اور صحابہ کرام کے مزاراتِ پرانوار ہیں۔یہ شہر سطح سمندر سے2230فٹ بلند ہے۔
شام میں جناب بشارالاسد کی ڈکٹیٹرشپ ختم ہو جانے سے پورے علاقے کا سیاسی منظر نامہ بدل گیا ہے۔جناب بشار کے دو بڑے حامی تھے،ایران اور روس۔ایسے لگتا ہے کہ دونوں حلیف ممالک مشکل ترین وقت میں ان کی مدد کے قابل نہیں رہے تھے اور سچ تو یہ ہے کہ کسی کو بھی یہ اندازہ نہیں تھا کہ یوں برق رفتاری سے مخالفین دمشق پہنچ کر آناً فاناً قبضہ کر لیں گے۔شامی سرکاری افواج زیادہ ترConscriptsپر مشتمل تھی۔
ان کے پاس بہت پرانے اور فرسودہ ہتھیار اور آلات تھے۔وہ عوامی امنگوں اور اپنی مرضی کے خلاف ہتھیار سجائے ہوئے تھے۔جونہی ان پر دباؤ آیا،انھوں نے ہتھیار رکھے،وردی اتاری،سادہ کپڑے پہنے اور سویلین آبادی میں گم ہو گئے۔شاید اسی بناپر حیات التحریر الشام کے جنگجوؤں کو ادلیپ سے نکل کر صرف حلبAllepoمیں تھوڑی سی مزاحمت کا سامنا ہوا ورنہ اور کسی جگہ بھی کسی خاص لڑائی کی نوبت ہی نہیں آئی۔ حلب سے حمص پہنچنے میں چند دن ضرور لگے کیونکہ تحریر الشام کے جنگجو احتیاط سے قدم آگے بڑھا رہے تھے۔
وہ ساتھ ساتھ ترکی سے بھی بات چیت کر رہے تھے لیکن جب ایک دفعہ حمص کا انتہائی اہم شہر ان کی جھولی میں آ گرا تو وہ پورے اعتماد سے آگے بڑھے۔وہ سمجھ چکے تھے کہ شامی سرکاری افواج ان کے ساتھ لڑنے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔حمص کے بعد تو تحریر الشام کے جنگجو برق رفتاری سے دمشق کی طرف بڑھے۔دمشق کسی بھی خون خرابے کے بغیر ان کے قبضے میں یوں آ گیا جیسے اہلِ دمشق اپنے بازو وا کیے ان کو خوش آمدید کہنے کو بے تاب تھے۔
جناب حافظ الاسد نے 1971میں شام کے اندر اقتدار پر قبضہ کیا۔ان کے زمانے میں مسلمانوں کے دو ایک فرقوں پر بہت کٹھن وقت گزرا۔چند ایک بستیوں کو تو بغیر وارننگ زمین بوس کر دیا گیا۔حافظ الاسد نے آہنی ہاتھوں سے حکومت کی۔اس نے اپنے بڑے بیٹے کو جان نشین کے طور پر تیار کیا لیکن 1994میں وہ ایک کار حادثے میں چل بسا۔اس کی رحلت کے بعد حافظ الاسد نے دوسرے بیٹے بشار کو لندن سے بلا کر جان نشینی کے لیے تیار کرنا شروع کیا۔2000میں حافظ الاسد اس جہانِ فانی سے رخصت ہوا تو جناب بشار کو حکومت کا سربراہ اور بعث پارٹی کا سیکریٹری جنرل چن لیا گیا۔بشار 11 ستمبر 1965کو دمشق میں پیدا ہوااور صرف 35سال کی عمر میں ملک شام کا 19واں صدر بن گیا۔
8دسمبر 2024کو اپنے مخالفین کی برق رفتار پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے بشار الاسد شام سے بھاگ کراپنے خاندان کے ہمراہ ماسکو روس پہنچ گیا،جہاں اسے سیاسی پناہ دے دی گئی۔اس نے لگ بھگ 24سال حکومت کی۔اس کو اپنے قبیلے،فرقے کے علاوہ شام میں عیسائیوں اور دروز کی حمایت حاصل رہی۔
تحریر الشام ایکCohesive ہم آہنگ جنگجو گروپ نہیں ہے۔یہ کم و بیش 30مختلف گروپوں پر مشتمل ایک زبردست فورس ہے جس کے پاس ایک محتاط اندازے کے مطابق60ہزار کے قریب جنگجو اور جدید ہتھیار ہیں۔یہ بہت اچھے تربیت یافتہ اور نظم و ضبط کے پابند لوگ ہیں۔یہ پہلے اس لیے کامیاب نہیں ہوئے کیونکہ تیرہ سال قبل شروع ہونے والی خانہ جنگی میں بشار الاسد انتظامیہ کو روس اور ایران کی کھلی مدد حاصل تھی۔
اب کی بار روس نے پہلے والی دلچسپی نہیں دکھائی اور ایران کسی قابل نہیں تھا۔ابتدا میں تحریر الشام کو القاعدہ کی حمایت حاصل تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ تحریر الشام کے رہنما احمد حسن الشرع ابو محمد الجولانی نے وقت گزرنے کے ساتھ بہت سیکھا اور 2016میںاپنے آپ کو القاعدہ کے لیبل سے آزاد کر لیا۔ابو محمد الجولانی سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔ان کے والد مکرم گولان کے پہاڑی علاقے سے تعلق رکھتے والے انجینئر تھے۔
ابو محمد الجولانی اپنے گروپ کے دوسرے امیر ہیں ۔پہلے و ہ سر کے اوپر بڑا سا رومال رکھتے تھے لیکن اپنا نیا امیج بنانے کے لیے انھوں نے ذرا مغربی طرز کالباس زیبِ تن کرنا شروع کر دیا۔ان کا خاندان 1980میں شام واپس آیا۔القاعدہ سے دوری اختیار کرنے کے بعد انھوں نے کوشش کی کہ ان کے گروپ کوشامی عوام اور بین الاقوامی حمایت حاصل ہو۔وہ چاہتے ہیں کہ تمام شامی گروپوں کو اکٹھا کرکے ملک میں امن کو فروغ دیں۔اس کے لیے انھوں نے جہادی نظریات سے منہ موڑ لیاہے۔فی الحال تحریر کو امریکا،یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
دمشق میں اقتدار کی تبدیلی کا ابھی ابتدائی مرحلہ ہے۔الجولانی نے دمشق میں صلاح مشورے کے بعد محمد البشیر کو حکومت بنانے کی ذمے داری سونپ دی ہے۔ بشاری حکومت کے وزیرِ اعظم الجولانی نے یقین دلایا ہے کہ وہ اقتدار کی پرامن منتقلی میں پورا تعاون کریں گے۔فی الحال پچھلے وزیرِ اعظم ہی حکومتی معاملات چلا رہے ہیں۔اس سارے قضیے میں سب سے زیادہ نقصان ایران حزب اﷲ اور حماس کا ہوا ہے۔
عوام نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کر کے بہت توڑ پھوڑ کی۔ایران اپنی پراکسی حزب اﷲ کو ہتھیار اور ٹیکنالوجی شام اور عراق کے راستے ہی پہنچاتا تھا۔یہ راستہ اب بند ہو گیا ہے۔حزب اﷲ پہلے ہی اسرائیل کے تابڑ توڑ فضائی اور زمینی حملوں سے بہت کمزور ہو گیا ہے۔اس کے ہزاروں جنگجو اور رہنما مارے گئے ہیں۔حزب اﷲ اسرائیل کے لیے فوری تھریٹ نہیں رہا۔حماس کا کوئی حمایتی نہیں رہا۔ اسرائیل کے تمام مخالفین کی پیٹھ لگ چکی ہے۔شام میں موجودہ تبدیلی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسرائیل نے بفر زون پر قبضہ کر لیا ہے۔
اس طرح وہ گریٹر اسرائیل کی جانب ایک قدم آگے بڑھ گیا ہے۔روس کے شام میں بری، بحری اور فضائی اڈے ہیں۔تحریر الشام نے روس کو یقین دلایا ہے کہ اس کی فوجی تنصیبات کو کوئی خطرہ نہیں۔ایران نے نقصان کو کم کرنے اور مستقبل میں شام کے ساتھ روابط قائم کرنے کے لیے دمشق کو پیغام دیا ہے کہ ایران نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے۔ترکی سب سے زیادہ فائدے میں رہنے والا ہے۔
ترکی میں شامی پناہ گزین واپس لوٹ رہے ہیں اور دمشق میں نئی انتظامیہ ترکی دوست نظر آتی ہے۔فاتحینِ دمشق کا ایک نقاطی ایجنڈا یعنی بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ،تو پورا ہو گیا ہے لیکن اب اقتدار میں زیادہ سے زیادہ حصہ حاصل کرنے کے لیے متعدد گروہوں میں کھینچا تانی ہو گی اور پڑوسی ممالک بھی اپنے اثر و رسوخ کے لیے کوشاں ہوں گے۔خدا کرے کہ تمام گروہ مل بیٹھ کر خوش اسلوبی سے کسی فارمولے پر راضی ہو جائیں،گو ایسا ہونا تقریباً خلافِ فطرت ہے ۔آنے والے دنوں میں شام کے اندر بہت خون خرابہ ہو سکتا ہے۔