ابھی ہم قتل عام، سیکڑوں گمشدہ شہداء اور نامعلوم ہزاروں زخمیوں کی خود ساختہ کہانیوں کے شور و غوغا سے نکلے نہیں تھے کہ مدارس کی رجسٹریشن پر ایک نیا طوفان کھڑا ہو گیا، جو لگتا تو پیالی میں طوفان مگر خدانخواستہ یہ بات بگڑ گئی تو اس کے مضر اثرات ملک و ملت کے لیے خطرناک ہو سکتے ہیں ، اس لیے حکومت حکمت کے ساتھ خود معاملے کو حل کرے اور علماء بھی ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا ہونے کی غلطی نہ کریں۔
طاقتور طبقوں نے روز اول سے تمام وسائل کا رخ اپنی نسلوں کی طرف اور تمام تر مسائل کا رخ عوام کی طرف کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام ناک تک آچکے ہیں اور تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق لڑنے کے لیے موقع کی تلاش میں ہیں، اس لیے ایڈونچر کی گنجائش نہیں اور تصادم کو روکنے کے لیے فراست، تدبر اور افہام و تفہیم کے ساتھ تمام مسائل حل کرنا ہوں گے۔
حسب سابق موجودہ حکومت کا بھی دعویٰ ہے اس وقت ملک میں جمہوریت ہے تو چلو مان لیتے ہیں۔ جمہوریت میں تو پارلیمنٹ سپریم ہوتی ہے پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے متفقہ طور پر منظور شدہ مدارس رجسٹریشن بل پر جمہوریت کے علمبردار، افہام و تفہیم کے بادشاہ اور صدر مملکت آصف علی زرداری دستخط کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ حالانکہ بلاول بھٹو زرداری (جن کے لیے ان کی خواہش ہے کہ ان کی زندگی میں وزیر اعظم پاکستان بن جائیں) کی قیادت میں پیپلزپارٹی نے دونوں ایوانوں میں اپنا ووٹ دیا۔
اگر وہ اپنے جانشین کو وزیر اعظم بنتا دیکھنا چاہتے تو پارلیمنٹ کے منظور کردہ مسودہ بل پر دستخط ضرور کردیتے، میری تجویز تو یہ ہے کہ صدر مملکت بل پر اپنے اعتراضات واپس لے کر دستخط کر دیں یا اسپیکر قومی اسمبلی ان کو دوبارہ بھیج دیں تاکہ صدر اس پر دستخط کر دیں، تاکہ تنازع ہی ختم ہوجائیں ورنہ میڈیا کے غازی اور سوشل میڈیا کے لشکری اس معاملے کو بھی گھمبیر اور خطرناک رخ دینے کی بھرپور کوشش کریں گے تاکہ حالات کو خرابی کی طرف لے جایا جاسکے ۔
ریاست اور حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہیں تو چند سیکنڈز میں یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے بس صدر پاکستان بل کی منظوری کا عندیہ دے دیں جب کہ مولانا فضل الرحمن معترض اور اختلاف کرنے والے علماء کرام اور تنظیم اتحاد المدارس کے ذمے داران کو ساتھ بٹھا کر اتفاق رائے سے منظور شدہ قانون میں ترامیم تجویز کریں اور ان ترامیم کو قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دونوں ایوانوں سے منظورکرا کر قانون کا حصہ بنائیں جو مولانا فضل الرحمن صاحب جیسے زیرک اور معاملہ فہم سیاستدان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
اور اگر یہ صرف کچھ علماء کا اختلاف ہے تو صرف ایک ترمیم سے مسئلہ حل ہوجائے گا کہ ’’مدارس وزارت تعلیم یا سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہونے میں آزاد ہوںگے جو جہاں رجسٹریشن کرنا چاہتے ہیں وہ وہاں رجسٹرڈ ہوجائیں‘‘۔ اور اگر معاملے کو خوش اسلوبی اور دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے نہ کرنے کی پالیسی اختیار رکھی گئی تو پھر یہ مسئلہ بہت جلد درد سر بن جائے گا۔ اس کا خطرناک پہلو یہ ہے جو دینی طبقات جمہوریت کے خلاف ہیں اور جمہوریت کی وکالت کرنے کی وجہ سے مولانا فضل الرحمن سے ناراض ہیں ان کے موقف کو تقویت اور مولانا کا موقف کمزور ہونے کا خطرہ ہے اور خدانخواستہ اگر ایسا ہوا تو ذرا سوچیں کہ اگر جمعیت علمائے اسلام سے وابستہ لاکھوں لوگ بھی انتہاپسندوں کے نظریات و افکار کی طرف چلے جائیں گے تو حالات کیا رخ اختیار کریں گے؟
اس ملک میں چند ہزار بندوق برداروں نے گزشتہ کئی سال سے پاکستان خصوصاً پختونخوا اور بلوچستان کے عوام کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان روزانہ کوئی نہ کوئی جھڑپ ہوتی ہے۔ مولانا کے چاہنے والے تو ہر شہر اور گاؤں میں موجود مگر اتفاق سے زیادہ چاہنے والے خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس صوبوں میں ہیں جہاں دہشت گرد اور علیحدگی پسند ہماری سیکیورٹی فورسز سے نبرد آزما ہیں، ایسے میں جمعیت علمائے اسلام جیسی اعتدال پسند دینی جمہوری جماعت کے ساتھ اختلاف پیدا کرنا دانشمندی نہیں ہے، لہذا ریاست و حکومت کو حکمت کے ساتھ مدارس رجسٹریشن بل پر اٹھنے والے تنازعے کو افہام و تفہیم کے ساتھ طے کرنا چاہیے تاکہ ملک دشمن گروہ اور قوتیں حالات سے فائدہ نہ اٹھاسکیں۔سنا ہے کہ ریاست ماں ہوتی ہے اگرچہ ابھی تک ریاست کو ماں کے رنگ و روپ میں دیکھنے کا موقع نہیں ملا مگر اﷲ سے دعا ہے کہ اﷲ رب العزت مدارس کے رجسٹریشن والے معاملے پر ہمیں ریاست کی وہ ممتا والا خوبصورت روپ دکھا دیں۔
کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کو ہم اسلام کا قلعہ کہہ کہہ کر نہیں تھکتے مگر بلا تفریق و امتیاز ہر دور میں اس قلعے کو کمزور کرنے کے لیے نقب زنی کی جاتی رہی ہے، لیکن اللہ رب العزت اپنی قدرت کاملہ سے ایوان میں موجود علماء کرام کو ڈھال بنا کر ان کی وساطت سے حفاظت کر رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد آج تک ایوانوں میں موجود مدارس و مساجد کے محافظ علماء کے سرخیل پہلے مفتی محمودؒ اور اب مولانا فضل الرحمن ہیں۔ یہ اپنے پرائے سب مانتے ہیں کہ مدارس و مساجد مولانا اور جمعیت کی ریڈ لائنز ہیں مگر حیرت ہے کہ مدارس سے وابستہ علماء میں بھی ایسے لوگ ہیں جو مولانا کے اس کردار کے معترف نہیں، میرے خیال میں معترف تو وہ بھی ہیں مگر شاید مجبوریاں ہوں گی۔
مدارس کی رجسٹریشن پر پیدا کیے گئے ابہام کا مقصد اور مدارس کی آزادی و خود مختاری کو سلب کرنا ہے لیکن میرا وجدان مجھے کہہ رہا ہے کہ اس بار مدارس کی رجسٹریشن پر پیدا ہونے والے ابہام کا ہدف مدارس کم اور مولانا زیادہ ہیں۔ اگر اپنے ہی مد مقابل ہیں تو حکومت سے مولانا کیا گلہ کریں۔
موجودہ جمہوری حکمران’’بچاروں کے کمبل تو اتنے چھوٹے ہیں کہ سر چھپاتے ہیں تو پیر ننگے ہو جاتے ہیں، پیر چھپانے کی کوشش کرتے ہیں تو سر ننگا ہو جاتا ہے‘‘لیکن اس ملک کے فیصلہ سازوں کی اس اہم معاملے سے لاتعلقی بحیثیت محب وطن پاکستانی میرے لیے باعث اذیت و پریشانی ہے کیونکہ اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ علماء کرام جن کے سرخیل مولانا فضل الرحمٰن ہی ہیں، لہذا انھیں مارجنلائز کرنا ضروری ٹھہرا ہے تو سودا مہنگا ہے، اس لیے اس محاذ آرائی سے مولانا اور حکومت دونوں کو ہی بچنا چاہیے۔
سوسائیٹیز ایکٹ کیوں اور وزارت تعلیم کیوں نہیں؟ پر علیحدہ مفصل آرٹیکل اس کے بعد لکھوں گا مگر یہاں اس کے خلاصے سے صورتحال سمجھنے میں آسانی ہوجائے گی۔ مولانا جیسا زیرک اور معاملہ فہم سیاست دان اور اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کے ذمے داران سوسائٹیز ایکٹ پر اصرار اس لیے کررہے ہیں کیونکہ مدارس دینیہ فلاحی اور غیر منافع بخش ادارے ہیں اور تمام غیر منافع بخش ادارے قانونی طور پر سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹر ہونے کے پابند اور اس کے بعد ہی قانونی حیثیت اختیار کرسکتے ہیں۔ نہ صرف مدارس بلکہ بہت سے عصری علوم کے تعلیمی ادارے سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ اگر عصری علوم کے تعلیمی ادارے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹر ہو کر تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں تو پھر دینی مدارس پر اعتراض کیوں؟
تعلیمی اداروں کے علاوہ بڑے بڑے فلاحی ادارے بھی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت آزادانہ کام کررہے ہیں، ان کے بینک اکاؤنٹس کھولنے میں مسئلہ نہ کام میں کوئی رکاوٹ؟ ہم تمام فلاحی اور اصلاحی اداروں کے معترف ہیں مگر کیا مدارس قرآن و سنت اور عصری علوم کی مفت تعلیم، طلباء کے لیے مفت قیام و طعام اور کردار سازی جیسے فلاحی اصلاحی کام نہیں کر رہے؟ مدارس کی خدمات پر غیر متعصبانہ نظر ڈالی جائے تو ان کا مقام ہر لحاظ سے تمام عصری تعلیمی و فلاحی اداروں کی مشترکہ خدمات سے زیادہ ہے کیونکہ یہ فلاح و بہبود، اصلاح معاشرہ کے علاوہ عصری اور دینی علوم کی خدمات ایک ساتھ اور بلامعاوضہ ادا کر رہے ہیں۔