مختار رانا مرحوم کی یاد میں

کامریڈ مختار رانا بھی اس دنیا سے منہ موڑ گئے۔ آج کی نسل ان کی شخصیت،سیاسی سرگرمیوں اورمحنت کشوں

muqtidakhan@hotmail.com

کامریڈ مختار رانا بھی اس دنیا سے منہ موڑ گئے۔ آج کی نسل ان کی شخصیت،سیاسی سرگرمیوں اورمحنت کشوں کے لیے کی گئی جدوجہدکے بارے میں آگہی تو کجا ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہے ۔ان کے انتقال کی خبرچند ایک اخبارات میں ایک کالمی چھوٹی سی خبر شایع ہوئی۔

بھائی معراج محمد خان کے علاوہ کسی سیاسی رہنماء کو ان کے انتقال پر تعزیت کرنے کی توفیق تک نہیں ہوئی ۔افسوس یہ ہے کہ محنت کشوں کے لیے بے لوث خدمات سرانجام دینے والے اس رہنماء کے انتقال پر کسی ٹریڈ یونین رہنماء کا اس سلسلے میں تعزیتی بیان بھی نظر سے نہیں گذرا ۔ان کے انتقال کی خبر نے البتہ میری یادوں کے 45 برس پیچھے کے دریچے کھول دیے ۔

1960ء کی دہائی کے آخری چند برس پاکستانی سیاست میں خاصے پرآشوب تھے ۔ عوام نے اپنی کئی مہینوں پر محیط تحریک کے ذریعے فوجی آمر ایوب خان کو اقتدار سے الگ ہونے پر مجبورکردیا تھا ۔لیکن بدنصیبی یہ ہوئی کہ وہ جاتے جاتے مارچ1969ء میں اقتدار ایک اور جرنیل یحییٰ خان کے حوالے کرگئے ۔جن کے اپنے مخصوص عزائم تھے ۔ مگر عوامی دبائو کے تحت انھوں نے پہلے غیر فطری ون یونٹ کا خاتمہ کیا، اس کے بعد عام انتخابات کا اعلان کردیا۔

اس زمانے میں آج کی طرح دائیں بازو کی جماعتوں کا انبار لگا ہوا تھا ، لیکن بائیں بازو کی صرف دو بڑی سیاسی جماعتیں تھیں جو دراصل ایک ہی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے ٹوٹنے کے نتیجے میں وجود میں آئی تھیں۔ان میںایک نیشنل عوامی پارٹی کا ولی خان گروپ تھا جس کے جنرل سیکریٹری محمود الحق عثمانی تھی، یہ روس نواز کہلاتا تھا ۔ جب کہ بھاشانی گروپ جس کے جنرل سیکریٹری میاں افتخار الدین کے فرزند عارف افتخار تھے، چین نواز کہلاتا تھا ۔

ان دو بڑی جماعتوں کے علاوہ چند چھوٹی موٹی جماعتیں بھی بائیں بازو کی سیاست کی دعویدار تھیں ۔چنانچہ ملک میں بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والی ایک وسیع البنیاد لبرل اور روشن خیال جماعت کی ضرورت بھی محسوس کی جارہی تھی ، جو اربن مڈل کلاس کی نمایندگی کرسکے ۔ یوں نومبر1967ء میں پیپلز پارٹی وجود میں آئی ہے ، جس میں معراج محمد خان ، مختار رانا ، حنیف رامے اورملک معراج خالد سمیت ان گنت کمٹیڈ سوشلسٹوں کے علاوہ ڈاکٹر مبشر حسن ، میر رسول بخش تالپور، خورشید حسن میر، حیات محمد خان شیر پائو جیسے لبرل ڈیموکریٹ بھی موجود تھے۔

ان کے علاوہ مولانا کوثر نیازی جیسے دائیں بازو کے رہنماؤں کی شمولیت نے اس کے دائرہ کار کو وسیع کردیا تھا۔اس جماعت کے قیام نے مڈل کلاس کے آزاد خیال لوگوں کے لیے سیاست میں گنجائش پیدا کردی تھی، جن میں سے بیشتر کسی بھی طور بائیں بازو سے تعلق نہیں رکھتے تھے، مگر وسعت قلبی اور آزاد خیالی انھیں بائیں بازو سے قریب لے آئی تھی ۔ پیپلز پارٹی مغربی پاکستان کی ایک مقبول ترین جماعت کے طور پر ابھر کرسامنے آئی،جس نے انتہائی قلیل مدت میں مقبولیت کی تمام ریکارڈ مسمار کردیے۔

پنجاب پیپلز پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کا سب سے بڑا محور اور مقبولت کا منبیٰ تھا جس نے اس جماعت کو نڈر، بہادر اور کمٹیڈ کارکنوں کی ایک ایسی کھیپ دی جو شاید ہی کسی جماعت کو میسر ہوئی ہو۔اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہ اس جماعت کی خوش قسمتی تھی کہ اپنے قیام کے وقت اسے ایسے گوہر نایاب ملے تھے جن کی حسرت ہر سیاسی جماعت کرتی ہے ۔مگر یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ پیپلز پارٹی ان گوہر نایاب ہستیوں کو سنبھالنے میں ناکام رہی اور پارٹی کے قیام کے چند برسوں کے اندر تقریباً سبھی بانی اراکین اس سے الگ ہوگئے یا کردیے گئے ۔احمد رضا قصوری سے شروع ہونے والا سلسلہ پھرکبھی رک نہ سکا۔


پھر پارٹی کے بانی جنرل سیکریٹری جے اے رحیم کوجس توہین آمیز اندازمیں کابینہ اور پارٹی سے نکالا گیا ، وہ پارٹی کی تاریخ میں ایک سیاہ باب ہے ۔مختار رانا جو فیصل آباد(سابقہ لائل پور)کے ایک نیک نام ٹریڈیونین رہنماء اور پیپلز پارٹی کے بارنی اراکین میں شامل تھے، 1970ء کے انتخابات میں اپنے شہر سے بھاری اکثریت کے ساتھ رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔ مگردیگر کمٹیڈ رہنمائوں کی طرح وہ بھی پارٹی کے ساتھ زیادہ عرصہ نہ چل سکے اور1974ء میں مستعفی ہوکر بیرون ملک منتقل ہوگئے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ہلچل مچادینے والی پیپلز پارٹی کے ارتقاء کا جائزہ لیا جائے تو اس کے پانچ ادوار سامنے آتے ہیں۔ پہلا دور اس کے قیام سے دسمبر1970ء کے انتخابات تک پھیلا ہوا ہے۔

یہ دہ دور تھا، جب پیپلز پارٹی مڈل کلاس کے ترقی پسند اور روشن خیال افراد کی نمایندگی کرتی تھی اور اس میں مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے دانشوروں، ٹریڈیونین اور سابق طالب علم رہنماء کی بڑی تعداد شامل تھی۔ اس زمانے میں اس کا طرز عمل لبرل، سیکیولر اور آزاد خیالی پر مبنی ہواکرتاتھا ۔دوسرا دور پیپلز پارٹی کے پہلے اقتدار کا دور ہے، جس میںقومی سطح پر بعض انتہائی اہم پیش رفت کے علاوہ ان گنت عوام دوست اقدامات کیے گئے ۔ لیکن بعض ایسے فیصلے بھی سامنے آئے، جن کی وجہ سے پیپلز پارٹی کا روشن خیالی والا چہرہ مسخ ہوا اور اس کی جمہوریت نوازی پر دھبہ لگا۔

خاص طورپر دوسری آئینی ترمیم جس نے شہریوں کے عقائد پر سوالات اٹھانے کا دروازہ کھولا ، پیپلز پارٹی کے لیے تاریخ کے ہر دور میں سوالیہ نشان بنا رہے گا ۔اسی طرح بلوچستان حکومت کی بلاجواز برخاستگی کے بارے میں سوالات اٹھتے رہیں گے ۔ پھر1976ء میںجب سردار دائود نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ کر افغانستان میں اقتدار سنبھالا، تو مرحوم بھٹو نے اسٹبلشمنٹ کے بہکاوے میں آکر افغان بنیاد پرست عناصر کی سرپرستی کر کے پاکستان میں شدت پسندی کے پروان چڑھنے کا راستہ کھول دیا۔

ستمبر سے دسمبر 1970ء کے دوران جب ہم لاہور میں ٹہرے ہوئے تھے، ہم اکثر و بیشترحنیف رامے مرحوم سے ملنے ان کے دفتر واقع پیسہ گلی انارکلی چلے جاتے تھے جہاں سے وہ اپنا رسالہ ''نصرت'' نکالاکرتے تھے ۔ حنیف رامے کی تاریخ، فلسفہ، سیاست، مصوری اورادب پر گفتگو سے ہم نے خاصا فیض حاصل کیا ۔ ان دنوں مرحوم حنیف رامے نصرت کی ادارت کے ساتھ پیپلز پارٹی کے لیے انتخابی پمفلٹ اور لیف لیٹ تحریر بھی کیا کرتے تھے، جن کا مضمون انتہائی دلنشیں ہواکرتا تھا۔ مثلاً انھوں نے پیپلز پارٹی کے ترنگے پرچم میں موجود رنگوں کی تفسیر یوں بیان کی کہ ''اپنے خون کی لالی سے حالات کی سیاہی کو سبزہ زار میں بدل دو۔'' رامے مرحوم اکثر مختار رانا کا تذکرہ کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان سے ملنے کا اشتیاق پیدا ہوا۔ مگر ان کے جیل میں ہونے کی وجہ سے ملاقات نہ ہوسکی۔

قومی اسمبلی کے الیکشن کے بعد ہم واپس سکھر آگئے ۔ ڈیڑھ مہینہ سکھر میں گذارنے کے بعد فروری کے وسط میں ایک بار پھر لاہور آنا ہوگیا ۔انتخابات ہوچکے تھے مگردستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں عوامی لیگ کی شرائط کے باعث تاخیر ہورہی تھی ۔اراکین اسمبلی پریشانیوں میں مبتلا تھے ۔ایک روز نصرت کے دفتر میں ہم تین دوست رامے صاحب کا انتظار کررہے تھے کہ مختار رانا وہاںتشریف لے آئے ۔پہلی ملاقات ہی میں ہم ان سے ایسے مانوس ہوئے جیسے کئی دہائیوں کی ملاقات ہو ۔ ان سے ہر موضوع پر کھل کرگفتگو ہوئی ۔ پھر رامے صاحب کے آنے پر چونکہ انھیں ان سے کوئی ضروری صلاح مشورہ کرنا تھا ، ہم وہاں سے اٹھ گئے۔اس کے بعد ہمارا یہ معمول بن گیا کہ جب بھی لاہور یا اسلام آباد جانا ہوتا، تو رانا صاحب سے رابطہ کر کے ان سے ضرورملاقات کی جاتی ۔

ملاقاتوں کا یہ سلسلہ ان کے قومی اسمبلی سے استعفے کے بعد بیرون ملک منتقل ہونے تک جاری رہا ۔ ان کے ساتھ یادگار ملاقات 28فروری 1971ء کومینار پاکستان پر پیپلز پارٹی کے جلسے کے بعد ہوئی ۔ یہ وہ جلسہ تھا جس میں بھٹو مرحوم نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت کا جوMNA ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کے لیے گیا ،وہ اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے ۔یہ جلسہ تھا، جس کے بعد بھٹو مرحوم کے اپنے کئی مرکزی رہنماؤں اوراراکین اسمبلی سے اختلافات کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اسی جلسے کے بعد احمد رضا قصوری اور بھٹو میں دوریاں شروع ہوئیں، کیونکہ قصوری صاحب ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کے حامی تھے۔

مختار رانا بھی ڈھاکہ اجلاس میں شرکت کے حامی تھے ، مگر اسوقت خاموش رہے ۔ لیکن جب کراچی میں مزدوروں پر وزیر اعلیٰ ممتاز بھٹو کے حکم پر گولی چلائی گئی تو انھوں نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور یوں اختلافات بڑھتے چلے گئے ۔ ہماری ان سے آخری ملاقات 1973ء کے اوائل میں اسلام آباد میں ہوئی اور یہ آخری ملاقات ہی ثابت ہوئی ، کیونکہ کچھ عرصہ بعد وہ قومی اسمبلی سے مستعفی ہوکر برطانیہ چلے گئے اور اس کے بعد انھیں دیکھنا نصیب نہیں ہوسکا ۔جب مجھے کامریڈ مختار رانا کے انتقال کی خبر ملی تو ان کی یادوں کے ساتھ پیپلز پارٹی کے المیوں کی داستان بھی فلم کی مانند آنکھوں کے سامنے گھوم گئی۔

ایک پارٹی جس نے اربن مڈل کلاس کی لبرل، روشن خیال اور ترقی پسند جماعت کے طور پر سفر کا آغاز کیاتھا ، حالات کے جبر کے تحت کس طرح فیوڈل کلاس کی نمایندہ جماعت بن گئی ۔کس طرح اس کی روشن خیالی داغدار ہوئی اور کس طرح عوام کی امنگوں کی آئینہ داری کے دعوے سے رجعت پسندوں کی آماجگاہ بن گئی ۔ مگر وہ لوگ بہر حال یاد آتے رہیں گے، جنہوں نے پیپلز پارٹی کو اپنے خوابوں کی تعبیر کے طور پر ایک روشن خیال جماعت بنانے کے لیے اپنا حصہ ڈالا۔ کامریڈ مختار رانا انھیں بے لوث سیاسی سپاہیوں میں سے ایک تھے ۔ حق مغفرت کرے عجب قلندر صفت انسان تھا۔
Load Next Story