ریلوے دفتر لاہور میں لگی سوا تین سو سال پرانی نایاب گھڑی
پاکستان ریلوے کے پاس نہ صرف تاریخی پرانے اور نایاب انجن اور عمارات ہیں بلکہ پاکستان ریلوے ڈی ایس آفس لاہور میں ایک ایسی نایاب گھڑی بھی ہے جو سوا تین سو سال پرانی ہے۔
نایاب گھڑی کو چلانے کے لیے ریلوے انتظامیہ نے باقاعدہ ایک ملازم بھی رکھا ہے جو ہر ہفتے اس گھڑی کو ایک مخصوص انداز کی بنی ہوئی ’’چابی‘‘ کے ذریعے چابی دیتا ہے اور اس کے بعد یہ گھڑی ایک ہفتے تک باقاعدگی کے ساتھ وقت بتاتی رہتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان ریلوے کے ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ آفس لاہور میں ایک بڑی ہی نایاب اور تاریخی گھڑی لگی ہوئی ہے جس کو ’’جان وارکر‘‘ نامی گھڑی ساز کمپنی نے 1698 میں بنایا اور پھر یہ ریلوے ڈی ایس آفس کی زینت بن گئی، اس گھڑی کو سوا 300 سال ہو چکے ہیں جو وقت بتا رہی ہے۔
گھڑی کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی سیکنڈ بتانے والی سوئی ایک گول دائرے کے اندر گھومتی رہتی ہے یعنی کہ سیکنڈ والی سوئی بھی الگ سے ہے۔ باقی دو سوئیاں اس کے ساتھ ایک بڑے ہینڈل کو ہلنے کے بعد گھوم کر اپنا چکر مکمل کرتی ہے۔
ریلوے ذرائع کا کہنا یہ ہے کہ اس قسم کی گھڑیاں ریلوے ہیڈ کوارٹر سے لے کر پاکستان ریلوے کے جہاں جہاں دفاتر ہیں ان میں نصب ہیں، کچھ گھڑیاں 200 سال پرانی ہیں تو کچھ ڈیڑھ سو سال پرانی ہے یعنی جتنی پرانی تاریخ ریلوے کی ہے اتنی ہی ان گھڑیوں کی بھی ہے۔ جدید دور کے باوجود یہ گھڑیاں ریلوے اسٹیشن ہو یا ریلوے ڈی ایس آفس اپنا وقت بتانے میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں رکھتی۔
ان گھڑیوں کی دیکھ بھال کے لیے ریلوے انتظامیہ نے باقاعدہ ملازمین رکھے ہوئے ہیں۔ ڈی ایس آفس لاہور میں لگی گھڑی کو محفوظ بنانے کے لیے باقاعدہ طور پر ایک لکڑی کا ڈبہ بنا دیا ہے جس کے اندر اس گھڑی کو فکس کر دیا گیا ہے۔ اس کے لیے ایک مخصوص ہینڈل نما چابی ہے جو اس کے ذریعے دی جاتی ہے اور پھر یہ ایک ہفتے تک کام کرتی رہتی ہے۔
ریلوے ملازم بشیر کے مطابق اس کا کام یہی ہے اور وہ ہر ہفتے یہ ڈیوٹی سر انجام دیتا ہے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ اس قسم کی گھڑیاں ریلوے کے پاس بہت ساری ہیں، بہرحال یہ ایک ریلوے کی بہت بڑی تاریخی گھڑی ہے جو ریلوے ڈی ایس آفس میں آج بھی دوسری گھڑیوں کے مقابلے میں کام کر رہی ہے۔
جدید دور میں جہاں سوئیوں کے بغیر لیزر والی دیگر گھڑیاں بھی آ چکی ہیں لیکن اس کی اپنی اہمیت آج بھی اتنی ہی اہم ہے۔ جان وارکر نامی کمپنی برطانیہ کی تھی اور اس نے یہ گھڑیاں بنائی تھیں جو آج بھی پاکستان سمیت برصغیر کے مختلف ممالک کے شہروں میں موجود ہیں۔