اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے ایک قرار داد منظور کی جس میں غزہ میں فوری اور غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا، جسے امریکا اور اسرائیل نے مسترد کردیا ہے۔
شام پر اسرائیلی فضائی حملے جاری ہیں، عرب ٹی وی کے مطابق بمباری میں ہوائی اڈوں، ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ڈپو اور فضائی دفاعی نظام کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ شام کے نگران وزیراعظم نے بیرون ملک موجود شامی شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ وطن واپس آجائیں جب کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا ہے شام کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت اور ریاست کا مستقل ہونا ضروری ہے۔
بین الاقوامی سطح پر عالمی طاقتوں کی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مشرق وسطیٰ کو جنگ کی طرف دھکیلا گیا ہے۔ اس وقت دنیا کے نوے فیصد ممالک میں کسی نہ کسی طرح ہلچل ضرور ہے، عالمی منظر نامہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دنیا اپنی بربادی کی طرف بڑھ رہی ہے جس طرح بڑی طاقتیں اسلحے کی فروخت جاری رکھے ہوئے ہیں، ایک نہ ایک دن یہ بارود کے پہاڑ، عالمی جنگ کی طرف لے جائیں گے۔ امریکا اور مغربی یورپ کے ممالک برسوں سے اسرائیل کی پشت پر کھڑے ہیں۔ یہ سب اسرائیل کے ناجائز قبضے کے حامی ہے۔
دنیا کے طاقتور ممالک صرف اسرائیل مخالف بیان بازی تک محدود ہیں اور اسرائیل کی جارحیت ہے کہ ُرکتی نظر نہیں آرہی۔ شام میں چند دنوں میں ہی اتنی بڑی تبدیلی کی کوئی بھی توقع نہیں کر رہا تھا اور بشار الاسد کا شام سے یوں فرار ہونا بھی تعجب انگیز ہے۔ ایک طرف بشار الاسد دس سال داعش اور ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف لڑتا رہا اور دوسری طرف دس دنوں میں ہی کسی مزاحمت کے بغیر ہی ملک چھوڑ کر فرار ہوگیا۔
ہم کسی طور بھی بشار الاسد کی ڈکٹیٹر شپ اور ظلم و ناانصافی کے حامی نہیں، لیکن بشار الاسد کا مثبت پوائنٹ یہ تھا کہ وہ حماس، فلسطین، حزب اللہ اور لبنان کا حامی اور اسرائیل کا سخت مخالف تھا۔ یہ عسکری اور شدت پسند گروہ اتنے مضبوط اور طاقتور کیسے ہوجاتے ہیں؟ تحریر الشام نے یہ جدید اسلحہ اور طاقت کیسے حاصل کی؟ شام جیسے جنگ زدہ ملک کے بیچارے عوام کے پاس کھانے کے لیے نہ ہی مناسب خوراک اور نہ سر چھپانے کے لیے کوئی سائبان ہوتا ہے، مگر یہ شدت پسند گروہ جدید اسلحے سے لیس کیسے ہوتے ہیں؟ اگر اس کے بارے میں تحقیق کریں گے تو معلوم ہوگا کہ ان کے پیچھے امریکا اور اسرائیل ہیں، جو شام میں اپنے اپنے مفادات کے لیے انھیں استعمال کر رہے ہیں۔
شام میں مسلسل جنگ اور بدامنی کا فائدہ کس کو ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بشار الاسد کے سقوط کے بعد اسرائیل نے جولان کی پہاڑیوں کا مکمل کنٹرول اور شام کے اندر دمشق کے قریب تک پیش قدمی کی ہے۔ جہاں پر بھی جنگ ہوتی ہے، وہاں اس کو مذہبی رنگ دے دیا جاتا ہے اور فرقہ واریت کا ماحول گرم کر دیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سنی شیعہ مسئلہ ہے، حالانکہ جب اس کو بڑی تصویر میں دیکھیں گے تو عالمی طاقتیں اور امریکا وہاں اپنے مفادات کے حصول کے لیے ایسی تمام جنگوں کا آغاز کرتا ہے اور ایسے شدت پسند گروہوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اسرائیل اس جنگ میں اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سرگرم رہا ہے۔ امریکا شامی مخالف گروہوں کو فوجی مدد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ مالی اور سیاسی مدد بھی فراہم کرتا رہا ہے، جس کی وجہ سے اسد کی حکومت کمزور پڑگئی۔ امریکا شام میں مختلف مذہبی اور علاقائی گروہوں کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہے اور انھیں ہتھیار فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، اس کا واحد مقصد شام میں روس اور ایران کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا اور اپنے عالمی طاقت اور اسٹرٹیجک مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔ شام میں تیل کے بڑے ذخائر دیر الزور، الحسکہ اور رقہ کے علاقوں میں واقع ہیں۔
جنگ سے پہلے شام میں تیل کی پیداوار روزانہ 400,000 بیرل تھی، جو جنگ کے بعد بڑی حد تک کم ہوگئی۔ قدرتی گیس کے ذخائر خاص طور پر بحیرہ روم کے ساحلی علاقوں اور شام کے اندرونی حصوں میں موجود ہیں۔ امریکا شام کے تیل کے ذخائر کو اسد حکومت سے دور رکھنے کے لیے شامی ڈیموکریٹک فورسز (SDF) کی مدد کرتا رہا ہے، تاکہ اپنے مفادات کو مستحکم کر سکے۔ شام کی زرخیز زمینیں، جو فرات اور دجلہ دریاؤں کے قریب واقع ہیں، شام کی زراعت اور معیشت کا ایک اہم حصہ ہیں، خاص طور پر گندم، زیتون اور کپاس کی پیداوار کے لیے۔ ترکی شام کی زرخیز زمینوں اور پانی کے وسائل پر کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔
فرات کے بہاؤ پر قابو پانے کے لیے ترکی کئی ڈیم بنا رہا ہے، جو شام اور عراق کے لیے مستقبل میں سنگین مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ترکی کی ان تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے دجلہ اور فرات کے ذریعے، خاص طور پر عراق کو ملنے والے پانی میں 80 فیصد تک کمی ہوئی ہے۔ اسرائیل نے مشرق وسطیٰ ہی نہیں دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کُشی اپنی انتہا کو چھو رہی ہے اور اب ایران بھی مسلسل اسرائیلی جارحیت کا شکار ہو رہا ہے۔ اس ہفتے ہیومن رائٹس واچ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر غزہ میں فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر کے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً 1.9 ملین افراد غزہ کی آبادی کا 90% پچھلے ایک سال کے دوران اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں اور 79% علاقہ اسرائیل کے جاری کردہ انخلا کے احکامات کے تحت ہے۔ اس ساری صورت حال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صہیونی حکومت اس خطے کو پوری طرح برباد کر دینے کے ساتھ ساتھ مجبور فلسطینیوں سے خالی بھی کروانا چاہتی ہے، جب کہ دوسری طرف اسرائیل، غزہ کو ملیامیٹ کرنے کے ساتھ ساتھ لبنان میں بھی کارروائیاں کررہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 56 لاکھ فلسطینی پناہ گزین شام، لبنان، اردن، اسرائیل کے مقبوضہ علاقوں اور غزہ میں رہتے ہیں۔ پناہ گزین تکالیف سے بھرپور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دنیا بھر کے کئی ممالک امریکا، اسرائیل گٹھ جوڑ اور ان کی غزہ میں دہشت گردانہ کارروائیوں کی مخالفت کرچکے ہیں جب کہ ایران، شام اور یمن کی حوثی حکومت کھل کر فلسطینی مزاحمت کاروں کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس لیے اسرائیل نے ایران، لبنان کے خلاف بھی ایک طرح جنگ کا آغاز کر رکھا ہے۔
اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق فلسطینیوں کو حق آزادی ملنا چاہیے، لیکن آج تک ان قراردادوں پر ذرہ برابر عمل نہیں ہو سکا۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین اور تجزیہ کار اس ساری صورتحال کو کسی گریٹر تھیم کا حصہ بھی خیال کر رہے ہیں تب ہی حماس کے حملے کو جواز بناتے ہوئے اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کر نے کے لیے قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے اور جنگ کا دائرہ کار بڑھاتا جا رہا ہے۔ فلسطین پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں اگر عالمی صورتحال پر غور کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ عالمی استعماری طاقتیں اپنا رسوخ کھوتی جا رہی ہیں۔
اسرائیل نے غزہ کے عوام پر جو ظلم و ستم جاری رکھا ہے اسے حماس کے خلاف اس کی انتقامی کارروائی کہنا قطعی مناسب نہیں ہوگا۔ اسرائیل، حماس کے حملے کو بہانہ بنا کر فلسطینی عوام کے خلاف انتہائی انسانیت سوز جارحیت کا جو شرمناک اور افسوس ناک کھیل کھیل رہا ہے۔ اس سے یہ واضح ہے کہ اس کا مقصد صرف حماس کو زیر کرنا نہیں ہے بلکہ وہ اس خطے کو مکمل طور پر ان لوگوں سے خالی کرانا چاہتا ہے جن کے اجداد نے اسرائیلی مہاجرین کو پناہ دی تھی۔
ان احسان فراموشوں نے دنیا کے سامنے اپنی بے چارگی اور پریشان حالی کا ایسا سوانگ رچایا کہ دنیا کی بڑی طاقتوں نے ان کے ہر اقدام کی تائید کی یا دانستہ طور پر صہیونی سازشوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ عالمی سطح پر اپنی مکاری اور دیدہ دلیری کے سبب اسرائیل نے وہ مرتبہ حاصل کر لیا کہ اہل فلسطین کا اس کے رحم و کرم پر منحصر ہو جانا نام نہاد انسانیت کے ٹھیکے دار طاقتوں کے لیے ایک عام بات ہو کر رہ گئی ہے۔
فلسطینیوں کی جانب سے جنگ بندی کا مطالبہ کرنے کی آواز اسرائیلی بمباری کی گھن گرج میں دب کر رہ گئی ہے، اگرچہ آج کی ترقی یافتہ دنیا کے نام نہاد مہذب ممالک انسانی حقوق کے بارے میں نہایت حساس ہیں۔ یہ ممالک اور ان کی نامور عالمی تنظیمیں کتے، بلیوں اور دیگر جانوروں کے حقوق کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں لیکن فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم انھیں دکھائی نہیں دیتے۔ امریکا اور عالمی طاقتوں کے اس گھناؤنے کھیل میں جن کا سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، وہ ان ممالک کے مظلوم عوام ہیں، جو ڈکٹیٹرز کے ظلم و ناانصافی کو بھی برداشت کرتے ہیں اور ان دہشت گرد گروہوں کی سفاکیت اور درندگی کا بھی نشانہ بنتے ہیں۔
اصولی طور پر ایسے مسئلے جو خطے کو عدم استحکام سے دو چار کرنے کا باعث بن رہے ہوں انھیں حل کرنے کے لیے عالمی برادری خصوصاً بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ایک عالمی جنگ کے ہر روز بڑھتے ہوئے خطرے کے سدباب کے لیے بلا تاخیر تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے اور اسرائیل سے جنگ بندی کرانے کے لیے فیصلہ کن اقدامات کرنا ہونگے، اگر عالمی برادری ایسا کرنے میں مزید تاخیر سے کام لے گی تو وہ دن دور نہیں جب فلسطین سے شروع ہونے والی جنگ پوری دنیا میں پھیل جائے گی اور عالمی امن تباہ ہوجائے گا۔