اسرائیل اور بھارت دو ایسے مسلم دشمن ممالک ہیں جنھیں کوئی اپنی قتل و غارت گری اور پرائی زمینوں پر قبضہ کرنے سے نہیں روک سکا ہے۔ اس سلسلے میں اگر دیکھا جائے تو اسرائیل بھارت پر سبقت لے گیا ہے اس نے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ وہ ویسے تو 1948 سے اپنے قیام سے ہی فلسطینیوں کو فلسطین سے زبردستی بے دخل کرکے قریب کے عرب ممالک میں دھکیلنے کی پوری کوشش کر رہا ہے تاکہ اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔
ادھر بھارت بھی اپنے اکھنڈ بھارت کے پرانے مسلم دشمن منصوبے کو پورا کرنے کے لیے ایک طرف بھارتی مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف ہے تو دوسری جانب آس پاس کے مسلم ممالک کو ہڑپ کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہے وہ اپنی آمدنی کا 80 فی صد حصہ جنگی تیاریوں پر خرچ کر کے خود کو جنوبی ایشیا کا سب سے طاقتور ملک بنانے کی راہ پرگامزن ہے۔ اس نے بھارت میں واقع کشمیر جیسی متنازع ریاستوں کو ہتھیانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے حالانکہ کشمیر کا مسئلہ اس نے خود پیدا کیا ہے اگر وہ تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت کشمیریوں کو اپنی مرضی کے مطابق بھارت یا پاکستان میں شامل ہونے کا حق دے دیتا تو یہ مسئلہ کبھی کا ختم ہو چکا ہوتا مگر وہ جانتا ہے کہ کشمیری کسی بھی صورت میں بھارت میں شامل ہونا نہیں چاہیں گے، ان کی اولین چوائس پاکستان ہوگی۔
کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے وہاں کئی آزادی پسند تنظیمیں وجود میں آچکی ہیں، ان میں جے کے ایل ایف کا نام بہت نمایاں ہے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے روح رواں نڈر و بے باک اور ذہین یاسین ملک ہیں۔ وہ ہر قیمت پر مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرنے کے لیے بھارت سے ایک عرصے سے نبرد آزما ہیں۔
بھارتی حکومت ان کی بہادری اور آتش بیانی سے بہت نالاں ہے، اس نے انھیں خاموش کرانے کے لیے لالچ بھی دی اور کشمیر میں اعلیٰ عہدہ دینے کی پیشکش کی مگر انھوں نے بھارتی قابض حکومت کی ہر آفر کو پیروں تلے روند دیا، پھر ان پر زیادتیوں کا سلسلہ شروع ہوا، ان پر کئی جان لیوا حملے کرائے گئے، ان کے گھر پر آئے دن چھاپے ڈلوائے گئے، ان کی پاکستانی خاتون سے شادی میں رکاوٹ ڈالی گئی، مگر وہ عزم و استقلال کی تصویر بنے رہے، انھوں نے پاکستانی خاتون سے ہی شادی کی جو انتہائی سمجھدار اور کشمیر کی آزادی کی متوالی ہیں۔ انھوں نے یاسین ملک کے مشن کو آگے بڑھانے میں زبردست مدد کی ہے، آپ کی بیوی کا نام مشعل ملک ہے جو اس وقت پاکستان میں مقیم ہیں۔ وہ ایک مشہور کشمیری آزادی پسند رہنما کی بیٹی ہیں۔
یاسین ملک کو اگرچہ بھارتی حکمرانوں نے چپ کرانے کی ہر قسم کی کوشش کر ڈالی مگر جب وہ اپنے مشن سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ ہوئے تو انھیں پہلے سری نگر میں قید کر دیا گیا اور اب وہ دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں قید ہیں، وہاں بھی انھیں رہائی کے ساتھ بہت سی مراعات دینے کی پیش کش کی گئی لیکن شرط وہی تھی کہ وہ اپنے مشن کو ترک کردیں اور کشمیر کی آزادی کے بجائے بھارت کی کشمیر پالیسی کو تسلیم کر لیں مگر انھوں نے بھارت کی یہی نہیں بلکہ دیگر پیشکشوں کو بھی ٹھکرا دیا۔ اب بھارتی حکومت سمجھ چکی ہے کہ یہ شخص بکنے والا ہے اور نہ ٹوٹنے والا ہے۔
یہ کشمیریوں کی آزادی سے کسی طرح بھی دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہے، چنانچہ اپنے اشاروں پر فیصلہ دینے والی سپریم کورٹ سے یاسین ملک کو اب پھانسی کی سزا کا مستوجب قرار دلوا دیا ہے جب کہ ان کا دامن صاف ہے وہ کسی قتل و غارت گری میں کبھی شامل نہیں رہے ہیں، ہمیشہ کشمیریوں کی آزادی کی تحریک کو پرامن ماحول میں چلایا ہے۔ ان پر صرف یہی جرم لاگو ہوتا ہے کہ انھوں نے مظلوم ومحکوم اور غلام کشمیریوں کی آزادی کے لیے آواز بلند کی ہے۔
کشمیر کا مسئلہ اب بھی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے اور سلامتی کونسل متعدد مرتبہ کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کی قراردادیں پاس کر چکی ہے، افسوس کہ غاصب اور ظالم بھارتی حکومتوں نے سلامتی کونسل کی کسی بھی قرارداد پر عمل نہیں کیا۔ مزید افسوس کا مقام یہ ہے کہ سلامتی کونسل کی جانب سے اس کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باوجود بھی بھارت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے بس بالکل اسی طرح اسرائیل کے خلاف سلامتی کونسل کی فلسطینیوں کی آزادی کے سلسلے میں پاس ہونے والی قراردادوں پر عمل نہ کرنے پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور اب تو وہ غزہ کے فلسطینیوں پر مسلسل ڈیڑھ سال سے نسل کشی کی وحشیانہ کارروائیوں میں مصروف ہے مگر افسوس کہ اس سے باز رکھنے والا کوئی نہیں ہے حتیٰ کہ اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔
حالانکہ سلامتی کونسل میں اس نسل کشی کو روکنے کے لیے کئی قراردادیں کئی ممالک کی جانب سے پیش کی جاچکی ہیں مگر افسوس کہ ان پر کوئی بھی عمل درآمد نہ ہو سکا اس کی اصل وجہ سب ہی جانتے ہیں کہ امریکا بہادر ہے اور خاص طور پر وہاں اس وقت موجود صدر بائیڈن ہیں جو خود مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن ثابت ہوئے ہیں۔
وہ اگر چاہیں تو نیتن یاہو فوراً جنگ بند کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے مگر وہ اسے ایسا کوئی حکم دینا ہی نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کی جان بچ سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا صدارتی دور بس اب چند دن کے بعد ختم ہونے والا ہے جسے ہمیشہ ایک سیاہ دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ انھوں نے دنیا میں امن و امان بحال کرنے کے بجائے جنگ و جدل کو ہوا دی ہے جاتے جاتے اب انھوں نے جوہری صلاحیت والے میزائل یوکرین کو روس کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی ہے۔ اب بتاؤ اس طرح کیا انھوں نے جاتے جاتے دنیا میں ایٹمی جنگ کا راستہ ہموار نہیں کردیا ہے؟ بہرحال اب دنیا نے ٹرمپ سے بہت امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں، کاش کہ وہ ان پر پورا اتر سکیں۔