آزاد کشمیر کی سول سوسائٹی کا مثبت کردار

کمیٹی کے رہنما کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت نے اس ہڑتال کے خلاف طاقت کو استعمال کیا۔



آزاد کشمیر کے عوام نے اپنے ایک سیاسی حق کے تحفظ کے لیے اجتماعی قوت کا مظاہرہ کر کے جدوجہد کی ایک شاندار مثال قائم کی۔ اگر باقی صوبوں کے عوام آزاد کشمیر کے شہریوں کے نقشِ قدم پر چلیں تو ریاست پر عوام کی بالادستی کا تصور حقیقت کا روپ اختیار کرسکتا ہے۔آزاد کشمیر کی حکومت نے گزشتہ مہینے ایک صدارتی آرڈیننس نافذ کیا جس کے تحت جلسے جلوسوں کے انعقاد کے لیے انتظامیہ کی اجازت لازمی قرار دیدی گئی تھی۔

قانون "Peaceful Assembly and Pubilc Ordinance 2004" کے تحت بغیر اجازت جلسہ اور جلوسوں کو فوجداری جرم قرار دیا گیا تھا۔ جموں و کشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی JKJAC سول سوسائٹی کے اراکین، بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں، طلبہ نمایندوں، اساتذہ، دکانداروں اور دائیں بازو کی بعض جماعتوں کے اراکین پر مشتمل ہے۔

اس ایکشن کمیٹی نے اس قانون کو بنیادی انسانی حقوق کو غضب کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ ایکشن کمیٹی نے کشمیر کے تمام شہریوں کے عوام سے اپیل کی تھی کہ اس امتناعی قانون کے خلاف احتجاجی تحریک منظم کر لیں، یوں پاکستان کے سرحد سے متصل میرپور سے لے کر مقبوضہ کشمیر کی کنٹرول لائن پر آباد شہروں کوٹلی وغیرہ میں کئی دن تک مکمل ہڑتال رہی۔ ایکشن کمیٹی نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ مظفرآباد میں اسمبلی کی عمارت کے سامنے جمع ہوجائیں۔

ایکشن کمیٹی کی اپیل پر شہر سے قافلے مظفر آباد کی طرف روانہ ہوئے۔ کشمیر کی حکومت کے وزراء نے ایکشن کمیٹی کی احتجاجی تحریک کے خلاف ایک بیانیہ ترتیب دیا تھا مگر عوام نے حکومت کے اس بیانیہ پر توجہ نہ دی۔ کمیٹی کے رہنما کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر کی حکومت نے اس ہڑتال کے خلاف طاقت کو استعمال کیا۔ پولیس نے ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو گرفتار کرنا شروع کیا تھا۔

مظفر آباد کی حکومت نے ضلع افسران کو ہدایت کی تھی کہ احتجاجی تحریک منظم کرنے والے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے مگر انتظامیہ کے روایتی حربے ناکا م ہوئے جب ایکشن کمیٹی نے عوام کو مظفر آباد میں تعمیر شدہ قانون ساز اسمبلی کی عمارت کے سامنے دھرنا دینے کی ہدایات جاری کردیں۔ ایکشن کمیٹی نے کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے سے انکار کیا تو پھر حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا۔

 مظفر آباد کی مخلوط حکومت میں مسلم لیگ ن کے ساتھ پیپلز پارٹی بھی حصے دار ہے۔ بیرسٹر سلطان محمد چوہدری جو پاکستان میں اقتدار میں آنے والی تمام جماعتوں میں شامل رہے اور کشمیر کے اہم عہدوں پر فائز رہے۔ وہ آج کل پیپلز پارٹی کی جانب سے آزاد کشمیر کی صدارت کے عہدے پر فائز ہیں۔ انھوں نے وزیر اعظم کو ہدایات جاری کیں کہ متنازع آرڈیننس واپس لیا جائے۔ اس معاملے میں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ صدر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے دستخط سے یہ آرڈیننس جاری ہوا۔ کشمیر کی حکومت نے ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر بات چیت شروع کی۔ ایکشن کمیٹی کے رہنماؤں شوکت نواز میر، سردار عمر نذیر، امتیاز اسلم نے وزراء اور اعلیٰ افسران سے مذاکرات کیے۔

ان مذاکرات کے نتیجے میں ایک معاہدہ تحریر کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت تمام کارکنوں کے خلاف مختلف شہروں کے تھانوں میں درج مقدمات 7دن سے 3 ماہ کے دوران واپس ہوجائیں گے۔ اسی طرح اس احتجاج کو منظم کرنے والے تین اساتذہ کو ملازمتوں پر بحال کیا جائے گا۔ اسی طرح 13 مئی کے احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے کارکن اظہر کے لواحقین اور دیگر ہلاک ہونے والے 3 کارکنوں کے ورثاء کو 10, 10لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے گا۔

معاہدے میں یہ بھی شق شامل ہے کہ منگلا ڈیم کی تعمیر سے متاثر ہونے والے افراد کے بجلی کے بل معاف کیے جائیں گے۔ یہ مطالبہ بھی معاہدے میں شامل ہوا کہ پنجاب اور آزاد کشمیر کی حکومتیں منگلا ڈیم کی تعمیر کی بناء پر بے گھر ہونے والے افراد کے مسائل حل کریں گی۔ یہ بات بھی طے ہوئی کہ حکومت اپنے فراہم کردہ گندم کے معیار کو بہتر بنائے گی۔ شہریوں کو یہ شکایت ہے کہ گزشتہ مئی کی تحریک کے نتیجے میں حکومت جو سستی گندم فراہم کرتی ہے، اس کو انسانی استعمال کے قابل بنایا جائے، یوں اس معاہدے کے تحت آزاد کشمیر میں فوری طور پر امن قائم ہوگا۔

 جب 1948 میں آزاد کشمیر میں حکومت قائم ہوئی تو اس حکومت نے مختلف علاقوں میں اسکول اور کالج وغیرہ قائم کیے۔ میرپور، کوٹلی اور اطراف کے علاقوں میں اسکول اور کالج قائم ہوئے۔ 50کی دہائی سے ہزاروں افراد روزگار کے لیے برطانیہ چلے گئے۔ ان لوگوں نے اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ملک میں بھیجا، یوں کشمیر میں متوسط طبقہ وجود میں آیا۔ متوسط طبقہ کے بہت سے نوجوان کارل مارکس کے نظریات سے متاثر ہوئے۔ گزشتہ ایک عشرہ کے دوران بائیں بازو کی طلبہ تنظیم این ایس ایف بھی قائم ہوئی۔

مختلف شہروں میں دانشوروں نے اسٹڈی سرکل منعقد کرنے شروع کیے۔ 60 اور 70کی دہائی سے مقبول بٹ کی جماعت JKLF اس علاقے میں ایک مضبوط پوزیشن میں ہے مگر پھر بعض قوتوں کی جانب سے اس تحریک کو مذہبی رخ دینے کی حکمت عملی اختیار کی گئی مگر کئی نئی تنظیمیں منظم ہوئیں۔ جے کے ایل ایف کے رہنما مقبول بٹ کو بھارتی حکام نے پھانسی دیدی۔ دوسری طرف کنٹرول لائن کے اس طرف جے کے ایل ایف کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ نے بہتر رویہ اختیار کیا مگر جب سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں کنٹرول لائن کو ٹھنڈا کردیا گیا اور Cross Border Terrorism کا خاتمہ ہوا تو کنٹرول لائن کے قریب رہنے والوں کی بھارت کی اندھا دھند بمباری سے جان چھوٹی اور دریائے نیلم کے اس طرف آباد شہریوں کی زندگی معمول پر آئی۔

 گزشتہ حکومت کے دور میں جب بجلی کے نرخ بڑھا دیے گئے تو کشمیر کے لوگوں نے یہ سوچنا شروع کیا کہ منگلا ڈیم کشمیر کی زمین پر تعمیر ہو رہا ہے تو پھر کشمیر کو مہنگی بجلی قابل قبول نہیں ہے، یوں آزاد کشمیر کے دور دراز علاقوں میں لوگوں نے اپنی زمینوں پر لگے بجلی کے کھمبے اکھاڑ پھینکے۔ عوام نے یہ مطالبہ کیا کہ متعلقہ ادارہ اپنے کھمبوں اور گزرنے والی لائنوں کا معاوضہ ادا کرے، یہ مہم کئی ہفتے جاری رہی۔ اس سال ایک دفعہ پھر گندم اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ گندم کی بڑھی ہوئی قیمتوں کے خلاف احتجاج کے لیے ایک ایکشن کمیٹی بن گئی۔ اس ایکشن کمیٹی نے احتجاجی تحریک منظم کی۔ گندم پر سبسڈی کا مطالبہ کرنے والے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ بھارت کی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تو ختم کردیا ہے مگر وہاں گندم اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء کی قیمتیں آزاد کشمیر کے مقابلے میں بہت زیادہ کم ہیں۔ حکومت نے احتجاج کرنے والوں پر گولیاں برسائیں۔ پولیس کی فائرنگ سے 4 افراد جاں بحق ہوئے۔

بہرحال اسلام آباد اور راولپنڈی کی بیوروکریسی کو حالات کا ادراک کرنا پڑا۔ حکومت نے سستی گندم کی فراہمی کے لیے احتجاج کرنے والی ایکشن کمیٹی سے معاہدہ کیا، یوں سستی گندم کشمیر میں دستیاب ہونے لگی مگر اب حکومت نے جب احتجاج کے حق پر پابندی عائد کی تو لوگوں کو یقین ہوگیا کہ حکومت احتجاجی تحریک کے نتیجے میں عوام کو دی گئی مراعات واپس لے سکتی ہے، یوں ایک دفعہ پھر عوامی احتجاج ہوا اور حکومت کو ایک دفعہ پھر گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ مارکسٹ دانشور گرامچی نے سول سوسائٹی کی یہ تعریف کی ہے۔

Gramsci saw civil society as the public sphere where trade unions and political parties gained concessions from the bourgeois state, and the sphere in which ideas and beliefs were shaped, where bourgeois 'hegemony' was reproduced in cultural life through the media, universities and religious institutions to consent and legitimacy.  ‘manufacture

سندھ میں سول سوسائٹی نے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عمر کوٹ کے ڈاکٹر شاہنواز کے ماورائے عدالت قتل پر سول سوسائٹی کے اراکین نے رائے عامہ کو ہموار کر کے ریاست کو مجبور کیا کہ وہ ڈاکٹر شاہنواز کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کرے۔

 گرامچی کی متعین کردہ تعریف کے مطابق سو ل سوسائٹی دیگر صوبوں میں فعال ہوجائے تو عوام کے مسائل حل کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔ کشمیر کی سول سوسائٹی نے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کی جو مثال قائم کی ہے وہ باقی عوام کو نجات کا راستہ دکھا رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں