جب پہلی عالمی جنگ کے بعد لیگ آف نیشنز نے عثمانی صوبے فلسطین کا انتظام بطور امانت فاتح طاقت برطانیہ کے سپرد کیا تو یروشلم پہنچنے والے برطانوی حکام یہ دیکھ کے بھونچکے رہ گئے کہ اس سماج میں مختلف العقیدہ کمیونٹیز کس طرح ایک قومی (فلسطینی ) لڑی میں پروئی ہوئی ہیں۔ مزید حیرت تب ہوئی جب انھیں فلسطینی قوم پرست تحریک میں مقامی مسیحوں کے بھرپور کردار کا اندازہ ہوا۔
یہاں جدید فلسطینی صحافت کے بانی جافا کے مسیحی ال عیسی خاندان کا ذکر بنتا ہے۔اس خاندان کا زیتون اور صابن کا کاروبار تھا۔دو بھائیوں عیسی ال عیسی اور یوسف ال عیسی نے جنوری دو ہزار گیارہ میں ’’فلسطین ‘‘ کے نام سے ایک عربی ہفت روزہ نکالا اور یہ راتوں رات مقبول ِ عام سیاسی و ثقافتی رسالہ بن گیا۔ انیس سو انتیس میں یہ ہفت روزہ سے روزنامہ ہو گیا۔ اشاعت تین ہزار روزانہ تک پہنچ گئی جو دوسرے نمبر پر آنے والے اخبار سے دوگنی تھی۔
آخری عثمانی دور اور بعد ازاں برطانوی دور میں فلسطین اخبار کی اشاعت بیس بار معطل ہوئی۔کیونکہ یہ اخبار صیہونیت اور یروشلم کے گریک آرتھو ڈوکس چرچ کی قدامت پسند تعلیمی پالیسیوں کا شدید ناقد تھا۔
چرچ پر اخبار کا یہ اعتراض تھا کہ اتنا پیسہ اکٹھا کرنے کے باوجود چرچ عام فلسطینیوں کے لیے جدید تعلیمی ادارے کھولنے سے کیوں غافل ہے۔ چنانچہ دو ہزار چودہ میں زوال پذیر عثمانی انتظامیہ نے چرچ کی شکائیت پر اخبار کے مالک عیسی برادران کو جبراً اناطولیہ بھیج دیا۔ان بھائیوں کو انیس سو بیس میں برطانوی انتظامیہ نے واپسی کی اجازت دی اور روزنامہ فلسطین کی اشاعت بحال ہو گئی۔اخبار کی ادارت عیسی ال عیسی نے اپنے بیٹے رجا ال عیسی کے حوالے کر دی۔البتہ اخبار کی صیہونیت مخالف ادارتی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
انیس سو چونتیس میں جافا کے تین صحافیوں نے ایک ہفت روزہ ’’ الدفاع ‘‘ کے نام سے نکالا۔ انیس سو چھتیس تا انتالیس یہودی آباد کاری کے خلاف قومی تحریک کے دوران الدفاع نے سرکولیشن میں روزنامہ فلسطین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ انیس سو چالیس میں ’’فلسطین ‘‘ کی اشاعت نو ہزار اور ’’ الدفاع ‘‘ کی تیرہ ہزار تھی۔
انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل بننے کے بعد دونوں اخبارات جافا کے بجائے مشرقی یروشلم سے نکلنے لگے۔لیکن انیس سو سڑسٹھ میں جب مغربی کنارے پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا تو دونوں اخبار عمان منتقل ہو گئے۔روزنامہ فلسطین کے حصص المنار گروپ نے خرید لیے جو ایک شاہ پرست اردنی اخبار الدستور شایع کرتا تھا۔جب کہ الدفاع کو انیس سو اکہتر میں اردنی حکومت نے مستقل بند کر دیا کیونکہ اس نے سرکاری پالیسیوں پر کھلی تنقید شروع کر دی تھی۔
مگر روزنامہ فلسطین کی تاریخی اہمیت اس لیے مسلم ہے کہ اس نے فلسطینی قوم پرستی کو ایک مدلل بیانیہ دیا۔ یہ پہلا اخبار تھا جس نے انیس سو سترہ کا بالفور ڈکلریشن آنے سے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ یورپ سے اٹھنے والی صیہونی تحریک کے آگے اگر عربوں نے بروقت بند نہ باندھا تو نتیجہ عربوں کی بربادی کی شکل میں نکلے گا۔
انیس سو اٹھارہ میں صیہونیت کے قبضہ گیر منصوبے کے خلاف عوامی بیداری کے فروغ کے لیے متعدد شہروں میں لگ بھگ چالیس مسلم کرسچن ایسوسی ایشنز قائم ہوئیں جن کے ارکان کی تعداد تین ہزار تھی۔ جلد ہی ان ایسوسی ایشنز نے فلسطین عرب کانگریس کے نام سے ایک ملک گیر اتحاد قائم کر لیا۔ اس اتحاد نے پہلے برطانوی کمشنر سر ہر برٹ سیموئیل کی تقریبِ حلف برداری کا بائیکاٹ کیا۔
اتحاد کا مطالبہ تھا کہ فلسطین کو آزادی دی جائے یا پھر اسے بلادِ شام کا حصہ بننے کا حق دیا جائے۔فلسطین میں ایک یہودی قومی وطن کی تشکیل کی اجازت دینے والے بالفور ڈکلریشن کو واپس لیا جائے۔فلسطین میں یہودیوں کی بڑی تعداد میں آمد روکی جائے۔
تاہم فلسطین عرب کانگریس پر مقامی مسلم کرسچن اشرافیہ کی چھاپ تھی جو نئی برطانوی انتظامیہ کو اس قدر بھی خفا نہیں کرنا چاہتی تھی کہ اس کے اپنے کاروباری و سیاسی مفادات خطرے میں پڑ جائیں۔ مگر اس کانگریس کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے فلسطینی قوم پرستی کو آگے چل کے ایک مربوط شکل میں ابھرنے کے سفر میں ابتدائی کردار نبھایا۔
اس بڑھتے ہوئے شعور کے سبب ہی فلسطینی خودمختاری کے لیے انیس سو چھتیس تا انتیس کی بھرپور سیاسی تحریک چل سکی۔وہ الگ بات کہ صیہونی برطانوی گٹھ جوڑ کے سبب یہ تحریک اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی اور نہ ہی قدامت پسند قیادت سے خود کو بروقت آزاد کروا کے نوجوان قیادت کو ابھار سکی۔
مگر صیہونی قیادت مسلم کرسچن ایسوسی ایشنز اور فلسطین عرب کانگریس سے اتنی گھبرائی ہوئی تھی کہ اس کے سرکردہ رہنما ڈیوڈ بن گوریان اور ولادی میر جیبوٹنسکی کی مخالفت کے باوجود چند جوشیلے صیہونیوں نے مسلم کرسچن ایسوسی ایشنز کے سیاسی اثرات زائل کرنے کے لیے دو ہزار بائیس میں برطانوی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار کرنل کیش کو بیس ہزار پاؤنڈ کا عطیہ دیا تاکہ وہ مسلم کرسچن ایسوسی ایشنز کے مقابل سرکار نواز مسلم نیشنل ایسوسی ایشنز کھڑی کر سکے اور عرب آبادی میں صیہونی تحریک کے مقاصد کے بارے میں نرم گوشہ پیدا کیا جا سکے۔
یہ صیہونی فنڈ یروشلم ، نابلس ، طبریاس اور بسیان کے بلدیاتی مئیرز کو رام کرنے کے لیے استعمال ہوا۔ یروشلم مسلم نیشنل کلب کے لیے اس فنڈ سے ماہانہ سو پاؤنڈ باندھے گئے۔طبریاس کلب کو دو سو پاؤنڈ عطیہ دیا گیا۔مگر عام فلسطینی کے دل میں صیہونیت کے لیے نرم گوشہ تو خیر کیا پیدا ہوتا الٹا عممومی رویہ اور سخت ہو گیا۔
برطانوی کمشنر سر ہربرٹ سیموئل نے چیف سیکریٹری کرنل وینڈہم ڈیڈس کو راتوں رات ابھرنے والی مسلم نیشنل ایسوسی ایشنز کے پس منظر کی چھان پھٹک پر مامور کیا۔کرنل وینڈہم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ایسوسی ایشن کے اکثر کرتا دھرتا ناقابلِ اعتبار ہیں اور ان کی سرگرمیوں کے سبب عام فلسطینی میں برطانوی انتظامیہ کی حکمتِ عملی کے خلاف شکوک اور اضطراب میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
(جاری ہے)
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)