پاک روس تجارتی حجم

پاکستان کی روس کے لیے برآمدات 2023 میں محض 8 کروڑ83 لاکھ ڈالر تھیں



ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور روس کے درمیان باہمی تجارتی حجم ایک ارب ڈالر ہے، لیکن دونوں ملکوں کے درمیان حال ہی میں مال کے بدلے مال کا تجارتی معاہدہ ہوا ہے جس کے انتہائی مفید اثرات بہت جلد مرتب ہوں گے۔ فی الحال ہم پاکستان کی ایکسپورٹ برائے روس اور امپورٹ کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاکستان کی روس کے لیے برآمدات 2023 میں محض 8 کروڑ83 لاکھ ڈالر تھیں اور 2022 میں 7 کروڑ60 لاکھ ڈالرز کے برابر تھیں۔ گزشتہ 15 سال کے اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے معلوم ہو رہا ہے کہ 2013 ایسا سال تھا جب 20 کروڑ60 لاکھ ڈالرز کی ایکسپورٹ کی گئی تھی۔ اس کے بعد ہر سال روس کے لیے برآمدات میں کمی واقع ہوتی رہی۔ اگلے برس تقریباً 19 کروڑ ڈالرز اور 2015 میں 16 کروڑ ڈالرز، 2016 میں 14 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز، اس طرح ہر سال کمی واقع ہوتی رہی، البتہ 2021 میں ساڑھے سترہ کروڑ ڈالرزکے ساتھ اضافے کی توقعات پیدا ہوئی تھیں لیکن اس کے بعد سے اب تک کے اعداد و شمار جیساکہ اوپر بتایا گیا ہے وہ انتہائی حوصلہ شکن رہے۔

بارٹر سسٹم کے نفاذ کے بعد امید ہے کہ اضافہ عین ممکن ہے لیکن یہاں پر سوال یہ جنم لیتا ہے کہ ہم وہ مال فراہم کر سکتے ہیں جوکہ روس طلب کرے اور اس کی منشا کے مطابق کوالٹی بھی ہو اور قیمت کے اعتبار سے ان کے لیے قابل قبول بھی ہو۔ ضرورت اس امرکی ہے کہ معاہدہ کرنے کے بعد اس سلسلے کے تمام صنعتکاروں کے لیے بریفنگ، ان کو آگاہی اور زیادہ سے زیادہ تاجروں کے روس کے دورے کو بھی آسان اور جلد ممکن بنایا جائے۔

اب دوسری طرف کا رخ کرتے ہیں یعنی پاکستان روس سے درآمدات کا مالی حجم کی کیا کیفیت ہے۔ پاکستان نے روس سے 2022 میں تقریباً 28 کروڑ ڈالرز کی گندم درآمد کی تھی۔ 2023 میں 88 کروڑ60 لاکھ ڈالرزکی درآمدات کا حجم تھا اور 2022 میں 58 کروڑ20 لاکھ ڈالرز کی اشیا درآمد کی گئیں جس میں سے بڑا حصہ محض گندم کا تھا۔

2021 میں 53 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز اور 2020 میں 61 کروڑ30 لاکھ ڈالرز۔ 2019 میں انتہائی کم تر سطح پر آگئی یعنی 22 کروڑ30 لاکھ اور 2018 میں 37 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز کی کمی کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ 2015 میں 17 کروڑ ڈالرز تک محدود ہوگیا۔ بہرحال 2023 کے امپورٹ اور ایکسپورٹ کو مدنظر رکھیں تو 2023 میں 97 کروڑ40 لاکھ ڈالرز اور 2022 میں 65 کروڑ70 لاکھ ڈالرز اور 2021 میں 71 کروڑ ڈالرز اور 2020 میں 75 کروڑ ڈالرز کی باہمی تجارت ہوئی۔ بات یہی ہے کہ اتنی کم تر درآمد و برآمد ہو رہی ہے تو ایسے میں پاکستان کے لیے کوئٹہ تافتان لائن کی اپ گریڈیشن کے لیے 70 کروڑ ڈالرز کا لگا دینا کیسا رہے گا؟ کوئٹہ سے زاہدان تک ریلوے لائن کے ذریعے ایران اور ترکی تک تجارت کا اہم ذریعہ ہے۔ یہ مال بردار گاڑیاں جن کو خستہ حال ریلوے ٹریک میسر ہے، البتہ مقامی تاجر کچھ سامان لے کر ایران جاتے ہیں۔

 اس صورت حال میں کم پیسوں میں فوری طور پر چترال سے افغانستان کی سرحد واخان کی پٹی اس کے بعد تاجکستان، واخان راہداری جوکہ افغانستان میں ایک تنگ پٹی ہے اس وادی سے گزرنے والا تجارتی راستہ قدیم زمانے سے مشرقی، جنوبی اور وسطی ایشیا آنے جانے والے مسافر استعمال کرتے رہے ہیں۔

واخان وادی جوکہ افغانستان میں واقع ہے اس کے ایک طرف تاجکستان ہے، یہ وادی ایک طرف پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کو جوڑتی ہے اور دوسری طرف اس کا مشرقی درہ چین سے جا ملتا ہے۔ بہرحال پاکستان افغانستان کی سرحد سے تاجکستان تک پہنچنے کے لیے 20 سے 25 میل کا ہی فاصلہ طے کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد یکے بعد دیگرے وسط ایشیائی ممالک کی سرحدیں آتی رہیں گی۔ واضح رہے کہ تاجکستان جب روس کا حصہ تھا تو دونوں ممالک مختلف ذرایع مواصلات کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے۔

 پاکستان اور روس کے درمیان گفتگو کا سلسلہ چل نکلا ہے بذریعہ ریل تجارت کے آغاز کے لیے مارچ 2025 کی تاریخ دی گئی ہے۔ ادھر باہمی تجارت کے سلسلے میں روس پر کچھ پابندیاں اور بینکنگ کے مسائل بھی ہیں البتہ دو درجن سے زائد ایسے آئٹمز ہیں جن کی روس میں زیادہ طلب کے باعث پاکستان کو ایکسپورٹ بڑھانے کا موقع ملے گا۔ 10 سے 15 پروجیکٹ ایسے ہیں جن میں پاکستان روس کے ساتھ مالی، تکنیکی اشتراک کا خواہاں ہے۔ حیدرآباد سکھر موٹروے کے علاوہ پاور جنریٹنگ کے کئی منصوبوں کے بارے میں روس سے تعاون حاصل کیا جاسکتا ہے۔

 وقت آگیا ہے کہ پاکستانی صنعت کار اور ایکسپورٹرز اب بڑی تعداد میں روس اور اس کے مختلف شہروں کا دورہ کر کے وہاں کے امپورٹرز سے بالمشافہ ملاقات کر کے ان سے میٹنگ کر کے ہی اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح سے بارٹر ٹریڈ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے۔ ہماری کچھ افرادی قوت بھی ماسکو میں روزگار کے سلسلے میں موجود ہے، لہٰذا حکومت اس بات کو بھی مدنظر رکھے کہ روس کو کس قسم کی افرادی قوت کی ضرورت ہے اور کس قسم کی تربیت یافتہ افرادی قوت کی روس میں مانگ ہے اور پاکستان وہ ضرورت اور طلب کس طرح پوری کرسکتا ہے کہ ہماری افرادی قوت کے لیے زیادہ سے زیادہ سود مند ثابت ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں