فاروق عادل کمال لکھاری ہیں۔ عاجزی اور انکساری سے مرصع‘ بھلا انسان ۔ مرنجان مرنج طبیعت رکھنے والا یہ شخص‘ حد درجہ اہم نکات پر قلم اٹھا رہا ہے۔ زیر بحث کتاب‘ اسی ترتیب کی ایک لڑی ہے۔ ویسے برادرم عبدالستار عاصم بھی انوکھے پبلیشر ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک نایاب کتاب چھاپتے چلے جا رہے ہیں۔ اب ذرا‘ اس کتاب کی بابت عرض کرتا چلوں۔
آغاز مسدس حالی سے ہوا۔ یعنی الطاف حسین حالی کی وہ مسدس‘ جس میں برصغیر کے مسلمانوں کی زبوں حالی کا قیامت انگیز احاطہ کیا گیا ہے۔ اور وہ بھی تقریباً ایک صدی پہلے۔ ویسے معاملات آج تک بھی جوں کے توں ہیں۔
کہیں تھا مویشی چرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا
یونہی روز ہوتی تھی تکرار ان میں
یونہی چلتی رہتی تھی تلوار ان میں
منیر انکوائری رپورٹ:- ان چند واقعات اور بیانات کو ذہن میں رکھ کر منیر انکوائری رپورٹ میں شایع ایک مکالمے پر غور کیجیے:
تحقیقاتی عدالت: کیا ہفتے میں ایک بار آپ میاں ممتاز دولتانہ ‘ وزیراعلیٰ پنجاب کے گھرجا کر ان سے ملا کرتے تھے؟
اختر علی خان: جی یہ درست ہے۔
عدالت : کیا آپ نے لاہور کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر (جنرل اعظم خان)کو بتایا تھا کہ ممتاز دولتانہ چاہتے تھے کہ تحریک کی حمایت کی جائے۔
اختر علی خان: یہ درست ہے۔ میںنے انھیں (مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ) یہ بیان دیا تھا کہ وہ اس تحریک میں دلچسپی رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اس تحریک کی حمایت کی جائے۔
عدالت: کیا آپ نے انھیں (مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ) یہ بھی بتایا تھا کہ وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان کو ان کے منصب سے علیحدہ کرانے کے لیے تحریک ممتاز دولتانہ کی خواہش پر شروع کی گئی تھی؟
اختر علی خان: جی یہ درست ہے‘ میںنے انھیں یہ بھی تحریری طور پر بتایا تھا۔
عدالت: کیا یہ درست ہے کہ میاں ممتاز دولتانہ نے تحریک شروع ہونے سے پہلے اپنے مکان پر ایک اجلاس بلایا اور تحریک چلانے کے لیے کہا ؟
اختر علی خان: جی دولتانہ نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ اگر ہم تحریک شروع کرتے ہیں تو ہمیں ان کی حمایت حاصل ہو گی۔ انھوں نے یہ ہدایت بھی کی تھی کہ تحریک کا رخ لاہور (صوبائی حکومت) کے بجائے کراچی (وفاقی حکومت) کی طرف ہونا چاہیے۔
عدالت: کیا وزیراعلیٰ لاہور میں غنڈہ گردی کے ذمے دار تھے؟
اختر علی خان: وزیراعلیٰ غنڈہ گردی کے ذمے دار تھے۔
عدالت: کیا وزیراعلیٰ نے (غنڈہ گردی کے لیے) جیل سے غنڈوں کو رہا کیا تھا؟
اختر علی خان: انھوںنے ایسا کیا تھا۔
بھونکنے پر پابندی:-یہ ایوب خان کے مارشل لاء کے نفاذ سے اگلے ہی روز کی بات ہو گی یا پھر اس سے گزشتہ روز کی۔ اردو دنیا کی ممتاز ادیبہ قرۃ العین حیدر ایوب خان کے سیکریٹری قدرت اللہ شہاب کے ہاں پہنچیں۔ پہلی ہی نگاہ میں وہ پریشان دکھائی دیں۔ شہاب نے ان کی کیفیت یوں بیان کی ہے:
بال بکھرے ہوئے۔ چہرہ اداس۔ آنکھیں پریشان۔
دفتر میں داخل ہوتے ہی انھوں نے سوال کیا:
اب کیا ہو گا؟۔
کس بات کا کیا ہو گا؟۔
قدرت اللہ شہاب نے وضاحت طلب کی۔ اس سوال پر عینی بیگم نے دوبارہ سوال کیا کہ کیا اب ادبی چانڈو خانوں میں بیٹھ کر گپیںہانکنا (شہاب کے مطابق قرۃ العین حیدر نے لوز ٹاک کے الفاظ استعمال کیے تھے)بھی جرم تصور کیا جائے گا؟ ان کا اشارہ مارشل لاء کے ایک ضابطے کی طرف تھا جس کے تحت اخبارات پر سنسرشپ نافذ کر دی گئی۔ اس ضابطے کے تحت افواہ سازی کو بھی جرم قرار دیا گیا۔ شہاب نے عینی بیگم کے اس سوال پر واضح کیا کہ آپ کا اندازہ درست ہے۔ گپ شپ بڑی آسانی کے ساتھ افواہ سازی تصور کی جا سکتی ہے۔ اس بات پر عینی دکھی ہو گئیں اور انھوںنے سوال کیا:
تو گویا اب بھونکنے پر بھی پابندی ہے؟۔
جب رشتوں کا بھرم ٹوٹا:- 1970کے انتخابات کے بعد آئین سازی کے سلسلے میں شیخ مجیب سے ابتدائی بات چیت کے لیے ذوالفقار علی بھٹو ڈھاکا پہنچے تو اس موقع پر اپنے انگریزی اخبار سن کی طرف سے حسین نقی بھی ڈھاکا گئے۔ مذاکرات کے بعد چائے پر صحافیوں سے بات چیت کے موقع پر شیخ مجیب الرحمن نے انھیں دیکھا تو اردو میں کہا:
’اے کاش دورش گلے اور چائے دو‘ کیوں کہ یہ میرا دوست بھی ہے اور دشمن بھی۔‘
ہم مذمت نہیں کرتے:- پاکستان کی معروف مذہبی شخصیت مولانا طارق جمیل کا کہنا ہے یہ تاثر درست نہیں کہ وہ ملک میںایک بڑا حلقہ اثر رکھنے کے باوجود خواتین کے حقوق‘ لاپتہ افراد یا اظہار آزادی کی رائے جیسے معاملات پر بات نہیں کرتے اور ان معاملات پر اپنے معتقدین کی راہ نمائی کرنے سے گریزاں ہیں۔
بی بی سی اردو کے لیے صحافی فاروق عادل کو دیے گئے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ملک (پاکستان) میں بے شمار مسائل ہیں‘ میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ اللہ تعالیٰ سے دوری ہے۔ یہ دنیاوی مسئلہ ہے اوراللہ تعالیٰ کے بندوں کی رائے کو ختم کر دینا اسی دوری کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اللہ کے بندوں کو ان کا حق نہ دینا اسی وجہ سے ہے کہ اظہار رائے کی آزادی سلب کرنے والے اللہ کو نہیں جانتے اگر وہ اللہ کوجانیں تو ایسا کیوں کریں۔
دانش گاہوں کے قذاق:- یکم دستمبر 2021 کو اس رپورٹ میں سب سے پہلا مقالہ جسے پاکستان سمیت پانچ ملکوں کے مصنفین نے مل کر لکھا‘ بعض سوالات کے جواب نہ دینے پر عارضی طور پر منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی تھی لیکن مصنفین نے یہ مقالہ خود ہی واپس لے لیا۔ یہ مقالہ تحقیقی جرنل شایع کرنے والے ممتاز علمی ادارے Elsevierکے معروف جنرل EBio Medicine میں شایع ہوا تھا۔ فہرست میں اس کے بعد جگہ پانے والے مقالے جسے پاکستان کے چھ مصنفین نے مشترکہ طور پر لکھا‘ اسے مندرجات (Data) کے سرقے کی بنا پر منسوخ کر دیا گیا۔ یہ مقالہ ممتاز ادارے Wiley کے جرنل International Journal of Clinical Practice میں شایع ہوا۔ تیسرا مقالہ بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والے چھ مصنفین نے مشترکہ طور پر لکھا ۔ اس مقالے کے اعداد و شمار اور نتائج غلط پائے گئے۔ اس بنا پر اسے بھی مسترد کر دیا گیا۔ یہ مقابلہ بھی وائلی کے اسی پرچے میں شایع ہوا۔
باتیں کچے کے ڈاکو کی:- میں نے کسی انجان کی طرح سوال کیا تو اس نے زہر خند ہو کر کہا کہ اتنے انجان نہ بنو سائیں‘ آپ بھی جانتے ہو‘ ظالم اور پولیس کے درمیان اتحاد اور مفاد کا رشتہ ہے جس میں کمزور بے آسرایوں پس جاتاہے جیسے چکی کے دو پاٹوں کے بیچ گندم ۔ پھر اس نے کسی امجد شاہ کا واقعہ بتایا جو پولیس تشدد کی وجہ سے کئی ہفتوں تک بے ہوش پڑا رہا‘ کہیں اس کی داد فریاد نہیں سنی گئی۔ مجھے بتاؤ سائیں! جب اس کے بچے بڑے ہوں گے‘ وہ کیا کریں گے؟ انتقام لینے کے لیے وہ میرے پاس آئیں گے یا میرے جیسے کسی اور کے پاس جائیں گے تاکہ انھیں سہارا ملے۔ اس نے خود ہی اپنے سوال کاجواب دیا۔
یہ کہتے کہتے بہ ظاہر اس نے بات ادھوری چھوڑی اور کسی اور خاندان کا واقعہ سنایاجس پر اتناظلم کیا گیا کہ وہ لوگ کنگال ہو گئے۔ خواتین بے آبرو ہوئیں اور بھاگ کر کہیں پناہ لینے پر مجبور ہو گئیں اور ان کے مرد جنگلوں میں مارے مارے پھرتے رہے پھر ایک روز کسی نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ دیا ‘ وہ ڈاکو بن گئے۔
ایسے لوگوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والے کون ہوتے ہیں؟
میرا یہ سوال اس نے سنا لیکن اپنی بات کی روانی پر اس نے کوئی فرق نہیں پڑنے دیا اور کہا کہ وہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔
مختصر کالم میں ‘ پوری کتاب کا احاطہ تو خیر ناممکن ہے۔ اس کو پڑھے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں۔ کمال کتاب بلکہ بے مثال تحریر۔