پینے کے صاف پانی کی فراہمی
مالک کائنات اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے ساتھ ساتھ اپنی مخلوق کے لیے بے شمار نعمتیں بھی پیدا کی ہیں
مالک کائنات اللہ تعالیٰ نے تخلیق کائنات کے ساتھ ساتھ اپنی مخلوق کے لیے بے شمار نعمتیں بھی پیدا کی ہیں جن میں سے ہر نعمت ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔ پانی ان نعمتوں میں رب کریم کی سب سے بڑی نعمت ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان تو کجا چرند پرند سمیت کسی بھی ذی روح کے وجود کے برقرار رہنے کا کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ صرف جانداروں کی زندگی کا ہی نہیں بلکہ کھیتوں کی سیرابی اور پیڑ پودوں کی بقا اور سلامتی کا تمام تر انحصار بھی پانی ہی کی دستیابی پر ہے۔
انسانی جسم کا مجموعی طور پر 60 فیصد حصہ جب کہ ہمارے جسم میں دوڑنے والے خون کا 90 فیصد حصہ بھی پانی پر ہی مشتمل ہے۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو انسان اس کے بغیر بمشکل سات دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ہمارے پھیپھڑوں کا 90 فیصد جلد کا 80 فیصد، پٹھوں کا 75 فیصد، ہڈیوں کا 22 فیصد اور دماغ کا 80 فیصد حصہ بھی پانی پر ہی مشتمل ہے۔ مختصراً یہ کہ انسانی جسم کا ہر عضو اپنی بقا و سلامتی کے لیے پانی کا محتاج ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ Water is Life۔ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت عظمیٰ کی اہمیت کے حوالے سے کسی شاعر نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے:
آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا
جسم میں پانی کی کمی ہوجانے کے باعث انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی طبیعت کی خرابی کا بنیادی سبب جسم میں پانی کی کمی ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے انسان کا خون گاڑھا ہونے لگتا ہے جس کے نتیجے میں جسم میں خون کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے اور وہ دل کی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ مناسب مقدار میں پانی نہ پینے کے باعث جسم کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں چکر آنے لگتے ہیں اور انسان پر بے ہوشی بھی طاری ہو سکتی ہے۔ اسی کو De-Hydration کہا جاتا ہے۔ پانی کی کمی کہ وجہ سے ہی گردوں میں پتھری اور گردوں کے دیگر امراض بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔
پانی جسمانی صحت کے علاوہ ذہنی صحت کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ طبی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ذہنی اور جذباتی صحت کا انحصار بھی پانی ہی پر ہے۔ مناسب مقدار میں پانی پینے، حتیٰ کہ غسل سے بھی ڈپریشن میں بہت افاقہ ہوتا ہے۔ ایڈن برگ کے ایک اسکول میں جب بچوں کو پینے کے لیے پانی کی بوتلیں ہمہ وقت فراہم کی گئیں تو ان کے امتحانی نتائج نمایاں طور پر اچھے رہے۔ طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ بچوں کو مشروبات کے بجائے سادہ صاف پانی پینے کی عادت ڈالی جائے۔ مناسب مقدار میں پانی پینے سے وزن کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے اور پانی انسان کو تندرست اور توانا رکھنے میں بھی بہت معاون ہوتا ہے۔
پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی نہ صرف صحت بلکہ مالی اور معاشرتی مسائل کو بھی جنم دیتی ہے۔ اگر کوئی غریب آدمی آلودہ پانی پینے کے باعث کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ''مفلسی اور آٹا گیلا'' والا معاملہ پیش آتا ہے کیونکہ علاج معالجے کے چکر میں اس کا دیوالہ ہی نکل جاتا ہے۔ وطن عزیز میں پانی سے پیدا ہونے والے امراض کے باعث جاں بحق ہونے والے بچوں کی شرح انتہائی تشویشناک ہے۔ تقریباً 1.2 ملین لوگ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی نذر ہو جاتے ہیں جس میں ہیپاٹائٹس سے لے کر گیسٹرو سمیت متعدد بیماریاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دماغ کو کھا جانے والی خطرناک بیماری اموئبا بھی آلودہ پانی کے استعمال سے ہی لاحق ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پینے کے صاف پانی تک رسائی کو انسان کا بنیادی حق قرار دے چکی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں جان و مال کے تحفظ جیسے بنیادی حقوق کی صورت حال کسی بھی اعتبار سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق وطن عزیز میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار بچے پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ 80 فیصد بیماریاں ہمارے ملک میں صرف آلودہ پانی پینے کے سبب لاحق ہوتی ہیں۔ بچوں میں ٹائیفائیڈ پھیلنے کا سب سے بڑا سبب بھی آلودہ پانی ہی ہے۔
1992ء میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیات کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں پینے کے صاف و شفاف پانی کے حوالے سے ایک عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر میں دستیاب ذرایع سے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے طریقہ کار تلاش کرنے کی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ اس کانفرنس کے ٹھیک ایک سال بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 22 مارچ 1993ء کو پہلا عالمی یوم آب منانے کی منظوری دی جس کے بعد یہ دن پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہر سال نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
2012ء میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق آیندہ دس برس میں کئی ممالک کے درمیان پانی کے مسئلے پر سنگین تنازعات جنم لے سکتے ہیں اور پینے کے صاف پانی کی طلب اور رسد میں توازن برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔
اس پس منظر میں یہ بات انتہائی خوش آیند اور امید افزا ہے کہ صوبہ سندھ کی حکومت فراہمی آب کی بنیادی انسانی ضرورت کی تکمیل کے لیے سنجیدگی کے ساتھ بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔
ریگستانی اور دور افتادہ ساحلی علاقوں تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے ضمن میں یہ بات قابل ذکر اور لائق توجہ ہے کہ اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جنھیں صرف 1.68 ڈالر فی ایک ہزار گیلن کے انتہائی سستے اور باکفایت نرخوں پر ڈی سیلینیٹڈ پانی دستیاب ہو رہا ہے۔
صوبہ سندھ کے عوام کے لیے یہ خبر کسی مژدہ جاں فزا سے کم نہیں ہے کہ اب سمندری پانی کو میٹھے اور پینے کے قابل بنانے کے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اور سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سندھ کے ساحلی اور دیہی علاقوں میں آر او پلانٹس کی تنصیب کے ذریعے پینے کے میٹھے پانی کا حصول ممکن ہوگیا ہے۔ حکومت سندھ نے کراچی سمیت قلت آب کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی کمر کس لی ہے۔
اس عظیم الشان منصوبے سے جن علاقوں میں سمندر کا صاف کیا ہوا پینے کا پانی عوام کو فراہم کیا جا رہا ہے ان میں مواچھ گوٹھ، مشرف کالونی، ماڑی پور، گریکس، لیاری اور قاسم محلے سمیت بہت سی آبادیاں شامل ہیں۔ ۔ اس اقدام نے حکومت مخالف لابی اور پانی چور مافیا کی صفوں میں کھلبلی مچا دی ہے ، تاہم یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ سندھ حکومت مزید آر او پلانٹس نصب کرنے کے لیے انتہائی سرگرم اور پرعزم ہے۔
انسانی جسم کا مجموعی طور پر 60 فیصد حصہ جب کہ ہمارے جسم میں دوڑنے والے خون کا 90 فیصد حصہ بھی پانی پر ہی مشتمل ہے۔ اگر پانی دستیاب نہ ہو تو انسان اس کے بغیر بمشکل سات دن تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ہمارے پھیپھڑوں کا 90 فیصد جلد کا 80 فیصد، پٹھوں کا 75 فیصد، ہڈیوں کا 22 فیصد اور دماغ کا 80 فیصد حصہ بھی پانی پر ہی مشتمل ہے۔ مختصراً یہ کہ انسانی جسم کا ہر عضو اپنی بقا و سلامتی کے لیے پانی کا محتاج ہے۔ اسی لیے تو کہا گیا ہے کہ Water is Life۔ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت عظمیٰ کی اہمیت کے حوالے سے کسی شاعر نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے:
آب رواں کے اندر مچھلی بنائی تو نے
مچھلی کے تیرنے کو آب رواں بنایا
جسم میں پانی کی کمی ہوجانے کے باعث انسان مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی طبیعت کی خرابی کا بنیادی سبب جسم میں پانی کی کمی ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے انسان کا خون گاڑھا ہونے لگتا ہے جس کے نتیجے میں جسم میں خون کی روانی میں رکاوٹ پیدا ہونے لگتی ہے اور وہ دل کی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے۔ مناسب مقدار میں پانی نہ پینے کے باعث جسم کا درجہ حرارت بڑھنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں چکر آنے لگتے ہیں اور انسان پر بے ہوشی بھی طاری ہو سکتی ہے۔ اسی کو De-Hydration کہا جاتا ہے۔ پانی کی کمی کہ وجہ سے ہی گردوں میں پتھری اور گردوں کے دیگر امراض بھی لاحق ہو سکتے ہیں۔
پانی جسمانی صحت کے علاوہ ذہنی صحت کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ طبی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ ذہنی اور جذباتی صحت کا انحصار بھی پانی ہی پر ہے۔ مناسب مقدار میں پانی پینے، حتیٰ کہ غسل سے بھی ڈپریشن میں بہت افاقہ ہوتا ہے۔ ایڈن برگ کے ایک اسکول میں جب بچوں کو پینے کے لیے پانی کی بوتلیں ہمہ وقت فراہم کی گئیں تو ان کے امتحانی نتائج نمایاں طور پر اچھے رہے۔ طبی ماہرین کا مشورہ ہے کہ بچوں کو مشروبات کے بجائے سادہ صاف پانی پینے کی عادت ڈالی جائے۔ مناسب مقدار میں پانی پینے سے وزن کم کرنے میں بھی مدد ملتی ہے اور پانی انسان کو تندرست اور توانا رکھنے میں بھی بہت معاون ہوتا ہے۔
پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی نہ صرف صحت بلکہ مالی اور معاشرتی مسائل کو بھی جنم دیتی ہے۔ اگر کوئی غریب آدمی آلودہ پانی پینے کے باعث کسی بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ''مفلسی اور آٹا گیلا'' والا معاملہ پیش آتا ہے کیونکہ علاج معالجے کے چکر میں اس کا دیوالہ ہی نکل جاتا ہے۔ وطن عزیز میں پانی سے پیدا ہونے والے امراض کے باعث جاں بحق ہونے والے بچوں کی شرح انتہائی تشویشناک ہے۔ تقریباً 1.2 ملین لوگ آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی نذر ہو جاتے ہیں جس میں ہیپاٹائٹس سے لے کر گیسٹرو سمیت متعدد بیماریاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دماغ کو کھا جانے والی خطرناک بیماری اموئبا بھی آلودہ پانی کے استعمال سے ہی لاحق ہوتی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ لوگوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کی ذمے داری ہم پر عائد ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پینے کے صاف پانی تک رسائی کو انسان کا بنیادی حق قرار دے چکی ہے۔ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں جان و مال کے تحفظ جیسے بنیادی حقوق کی صورت حال کسی بھی اعتبار سے اطمینان بخش نہیں ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا مسئلہ انتہائی سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ ایک سروے کے مطابق وطن عزیز میں ہر سال تقریباً چالیس ہزار بچے پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی کے نتیجے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ 80 فیصد بیماریاں ہمارے ملک میں صرف آلودہ پانی پینے کے سبب لاحق ہوتی ہیں۔ بچوں میں ٹائیفائیڈ پھیلنے کا سب سے بڑا سبب بھی آلودہ پانی ہی ہے۔
1992ء میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ماحولیات کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں پینے کے صاف و شفاف پانی کے حوالے سے ایک عالمی دن منانے کی تجویز پیش کی گئی تھی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ دنیا بھر میں دستیاب ذرایع سے پانی کو پینے کے قابل بنانے کے طریقہ کار تلاش کرنے کی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ اس کانفرنس کے ٹھیک ایک سال بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 22 مارچ 1993ء کو پہلا عالمی یوم آب منانے کی منظوری دی جس کے بعد یہ دن پاکستان سمیت پوری دنیا میں ہر سال نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔
2012ء میں اقوام متحدہ کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کے دفتر سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق آیندہ دس برس میں کئی ممالک کے درمیان پانی کے مسئلے پر سنگین تنازعات جنم لے سکتے ہیں اور پینے کے صاف پانی کی طلب اور رسد میں توازن برقرار رکھنا ممکن نہیں رہے گا۔
اس پس منظر میں یہ بات انتہائی خوش آیند اور امید افزا ہے کہ صوبہ سندھ کی حکومت فراہمی آب کی بنیادی انسانی ضرورت کی تکمیل کے لیے سنجیدگی کے ساتھ بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔
ریگستانی اور دور افتادہ ساحلی علاقوں تک پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے ضمن میں یہ بات قابل ذکر اور لائق توجہ ہے کہ اس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے جنھیں صرف 1.68 ڈالر فی ایک ہزار گیلن کے انتہائی سستے اور باکفایت نرخوں پر ڈی سیلینیٹڈ پانی دستیاب ہو رہا ہے۔
صوبہ سندھ کے عوام کے لیے یہ خبر کسی مژدہ جاں فزا سے کم نہیں ہے کہ اب سمندری پانی کو میٹھے اور پینے کے قابل بنانے کے کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن اور سابق صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سندھ کے ساحلی اور دیہی علاقوں میں آر او پلانٹس کی تنصیب کے ذریعے پینے کے میٹھے پانی کا حصول ممکن ہوگیا ہے۔ حکومت سندھ نے کراچی سمیت قلت آب کے سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنی کمر کس لی ہے۔
اس عظیم الشان منصوبے سے جن علاقوں میں سمندر کا صاف کیا ہوا پینے کا پانی عوام کو فراہم کیا جا رہا ہے ان میں مواچھ گوٹھ، مشرف کالونی، ماڑی پور، گریکس، لیاری اور قاسم محلے سمیت بہت سی آبادیاں شامل ہیں۔ ۔ اس اقدام نے حکومت مخالف لابی اور پانی چور مافیا کی صفوں میں کھلبلی مچا دی ہے ، تاہم یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ سندھ حکومت مزید آر او پلانٹس نصب کرنے کے لیے انتہائی سرگرم اور پرعزم ہے۔