ایسے عناصر جو فوائد سے قطع نظر ہمارے جذبات اور احساسات کو اپنی طرف راغب کرتے ہیں انھیں علمی اصطلاح میں فنون لطیفہ کا نام دیا جاتا ہے، فنون لطیفہ کے اہم شعبے ہیں شاعری، مصوری، رقص اور موسیقی شامل ہیں، رنگوں کی خوبصورتی مصوری، آواز کی خوبصورتی موسیقی، جسمانی حرکات کی خوبصورتی رقص اور لفظوں کی خوبصورتی ادب کو جنم دیتی ہے۔
جب نثری ادب ترنم اور موسیقیت کا روپ دھار لے تو شاعری جنم لیتی ہے۔ اس بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعری اور موسیقی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ فرق یہ ہے کہ شاعری میں لفظوں کے ذریعے اظہار ہوتا ہے اور موسیقی میں آواز کے ذریعے اظہار کیا جاتا ہے۔
دنیا میں بے شمار آوازیں ہیں لیکن موسیقی میں سات آوازوں کو منتخب کیا گیا ہے جن کے مختصر نام سا، رے، ما، پا، دھا، نی ہیں۔ ان کو ’’سُر‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ان کے مجموعے کو ’’سات سُر‘‘ یا سرگم کہتے ہیں۔ شاعری میں جن آوازوں کو منتخب کیا گیا ہے ان کو رکن کا نام دیا جاتا ہے اور اس کے مجموعہ کو ارکان کہتے ہیں، ارکان مختلف ہجوں کے مجموعے ہوتے ہیں انھی کی بنیاد پر مختلف بحریں بنتی ہیں چند مصروف رکن میں فاعلن، مفولن، فاعلاتن، مفاعلین، مستفعلن شامل ہیں۔
موسیقی میں جب سروں کو خاص انداز سے ترتیب دیا جاتا ہے تو راگ بنتے ہیں، اس طرح شاعری میں ارکان کو خاص انداز میں ترتیب دیا جائے تو بحر بنتی ہے۔
بحر ایسا سانچہ ہے جس میں مربوط انداز سے الفاظ پروئے جائیں تو بحر وجود میں آتی ہے۔ مثلاً بحر رجزکی ترتیب فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن ہے۔ بحر کے ذریعے الفاظ میں خاص ردھم اور موسیقیت پیدا ہوتی ہے جو شاعری کو سحر انگیز بنا دیتی ہے اسے شاعری کے قوانین کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
جب ہم کوئی لفظ بولتے یا لکھتے ہیں تو وہ مخصوص آواز رکھتا ہے جب ہم یہ جاننے کی کوشش کریں کہ لفظ کتنی اور کون سی آوازوں کا مجموعہ ہے تو شاعری کی اصطلاح میں اسے ’’ وزن‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ وزن الفاظ کی مخصوص اور منظم ترتیب سے ظہور پذیر ہوتا ہے، اسے کلام موزوں کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ شاعری میں اس کی وہی حیثیت ہے جو موسیقی میں ’’تال‘‘ کی ہوتی ہے۔ موسیقی میں سُروں کے مابین ہم آہنگی کو تال کا نام دیا جاتا ہے جسے عرف عام میں ردھم کہتے ہیں۔
موسیقی میں سُر، تال اور لے کے ذریعے دھن تیارکی جاتی ہے جو موسیقی کو جمالیاتی صفت عطا کرتی ہے اسی طرح مصوری بھی ایک تصویری زبان ہے۔ رنگ، روشنی، توازن، تناسب، ترتیب، توجہ، سمت اور بناوٹ وہ عناصر ہیں جو تصویر کو خوبصورتی عطا کرتے ہیں بالکل اسی طرح شاعری میں وزن، بحر اور خیال یا تخیل وہ عناصر ہیں جو شاعری کو خوبصورت اور سحر انگیز بناتے ہیں، شاعری میں خیال کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔
خیال، تصور اور سوچ الفاظ کے سانچے میں ڈھل کر ہی اپنا وجود پاتے ہیں اس لیے شاعری میں اسے بنیادی حیثیت حاصل ہے خیال میں نیاپن ہونا ضروری ہے۔ زیر، زبر اور پیش وغیرہ کی علامتوں کو اعراف کہتے ہیں وہ حروف جن پر اعراف ہوں یعنی زیر،زبر، پیش وغیرہ یہ حروف ’’متحرک‘‘ کہلاتے ہیں اور جن پر اعراف نہ ہوں وہ ’’ساکن‘‘ کہلاتے ہیں۔ مثلاً لفظ ’’کار‘‘ دو حروفی لفظ ہے اس میں ’’کا‘‘ متحرک اور ’’ر‘‘ ساکن ہے لفظ چراغ تین حروفی لفظ ہے، اس میں ’’چر‘‘ اور ’’ا‘‘ حروف متحرک اور ’’غ‘‘ ساکن ہے شاعری میں اس کا جاننا بھی ضروری ہے۔
شاعری اس کا مطالعہ علم عروض میں کیا جاتا ہے، اس علم کو شاعری کی گرامر بھی کہتے ہیں جس طرح نثر میں طرز تحریر کو ’’ اسلوب‘‘ کا نام دیا جاتا ہے اسی طرح شاعری میں طرز تحریرکو لہجہ کا نام دیا جاتا ہے۔ کلام کے لفظی معنی گفتگو کے ہیں، ادبی اصطلاح میں یہ لفظ شاعری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جس طرح نثر میں لفظ کی معنوی خوبصورت کو بلاغت اور ظاہری خوبصورتی کو وضاحت کا نام دیا جاتا ہے، اسی طرح شاعری میں اسے داخلی اور خارجی تاثیر کا نام دیا جاتا ہے۔
شاعری میں ایک اصطلاح قافیہ کی استعمال کی جاتی ہے، قافیہ شعر کے آخر میں آنے والے ملتے جلتے یکساں حروف یا الفاظ کو کہتے ہیں جو ردیف سے پہلے آتے ہیں۔ ردیف الفاظ کا وہ مجموعہ ہے جو قافیہ کے بعد مکرر آئیں اور بالکل یکساں ہوں ردیف کا ہر مصرع میں ہونا لازم نہیں قافیہ اور ردیف کی فنی مہارت سے شاعری میں ہم آہنگی کا تاثر پیدا ہوتا ہے۔اصناف کا لفظ ادب میں جماعت بندی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
مثلاً افسانہ، ناول، ڈرامہ،کالم نگاری، مضمون نویسی اور انشا پردازی وغیرہ اسی طرح شاعری میں بھی درجہ بندی ہے۔ حمد، نعت، مناجات، مرثیہ، مسدس، نظم اور غزل وغیرہ شامل ہیں۔ شاعری میں اس درجہ بندی کے لیے لفظ اصناف سخن استعمال کیا جاتا ہے، جس طرح ادب میں ہر درجہ بندی کی الگ الگ فنی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح شعر کے بھی دو حصے ہوتے ہیں پہلا مصرع ’’مصرع اول‘‘ اور دوسرا مصرع ’’ مصرع ثانی‘‘ کہلاتا ہے۔
شعر کی ایک سطر کو مصرع کہتے ہیں ۔ قطعہ ایک مختصر نظم ہے جو کم ازکم دو یا زیادہ سے زیادہ چار مصرعوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ دیوان کسی شاعرکا ایک مجموعہ کلام ہوتا ہے جب کہ کلیات شاعر کے ایک سے زائد مجموعہ کو کہا جاتا ہے۔ شاعر کے قلمی نام کو تخلص کہا جاتا ہے۔ آمد شعر ایسے شعرکوکہتے ہیں جو شاعر کے ذہن میں بے ساختہ آئے، آمد سے مراد وہ شعر ہے جو غور و فکر سے مرتب ہوں ، دونوں اشعارکا اپنا حسن ہوتا ہے۔
فنون لطیفہ میں شاعری کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ شاعری نہ صرف ہمارے اندر احساسات کی قوت کو جگاتی ہے بلکہ ہمارے خیالات کو خوبصورتی عطا کرتی ہے اور یہ خوبصورت خیالات ہماری خوبصورت زندگی کا ضامن ہوتے ہیں۔
فنون لطیفہ کا کوئی بھی فن ہو شاعری ہو یا موسیقی، مصوری ہو یا رقص ان فنون کو بغیر استاد کے سیکھنا ایک دشوار عمل ہے اگر آپ شاعری کے میدان میں قدم رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں سب سے پہلے اپنے اندر شاعری کے جذبے کو بیدارکریں۔ مختلف شعراء کے کلام کا مطالعہ کریں، کسی مستند شاعر کی شاگردی اختیارکریں اور کامیابی کی جانب سفرکا آغازکریں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر یہ کام آپ نے دلی جذبے کے ساتھ انجام دیا تو شاعری میں ایک دن آپ اپنا نام بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔