فرشتہ

یہ ہمارے لڑکپن کا وہ زمانہ تھا، جب ہر بات کی بے فکری اور لاابالی پن کی وجہ سے کسی بات کی جستجو نہ تھی



ایسے بھی ہیں آباد دل و دیدہ میں کچھ لوگ

 موجود تو ہوتے ہیں دکھائی نہیں دیتے

 راقم الحروف جب میٹرک میں تھا تب ہمارے ماموں کے ہاں ولادت متوقع تھی جس کی مجھے بھنک لگ گئی تھی، میں نے اپنی والدہ سے اس بابت استفسارکیا کہ ’’ بچے کیسے دنیا میں آتے ہیں؟‘‘ تو ہماری والدہ نے ہمیں بتایا کہ ’’جب رات کو آنے والے بچے کی والدہ سو رہی ہوتی ہیں تو انھیں خواب میں ایک آواز آتی ہے کہ ہم تمھیں ایک چھوٹا سا پیارا سا بچہ دے رہے ہیں۔

اور اگلے دن ایک فرشتہ وہ بچہ لا کر والدہ کو دیتا ہے اور یوں ایک بچہ (بیٹا یا بیٹی) اس دنیا میں آتا ہے‘‘ اور پھر عزیز رشتے دار ملنے والے آس پڑوس والے بچے کی ولادت پر والدین کو مبارکبادیں دیتے ہیں، بچے کو پیارکرتے ہیں اور والدین بڑے دلار سے بچے کو پال پوس کر، پڑھا لکھا کراسے بڑا کرتے ہیں اور اس سے سب کے لیے ایک اچھا مہذب نیک انسان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تو جناب یہ تھا ہمارا بچپن اور بچپنے کا معصومانہ سوال اور اس کا انتہائی باتہذیب جواب۔

آج تو دنیا نے خصوصاً سوشل میڈیا نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب میٹرک تو دورکی بات ہے، شاید اس سے پہلے ہی بچے ہر طرح کی اس سچائی سے آشنا ہوجاتے ہیں ، جو اس عمر میں انھیں نہیں ہونی چاہیے جس نے ان کی معصومیت کو بری طرح کچل کر رکھ دیا ہے اور والدین کی اکثریت اس طرح کی جانکاری کو بچے کے لیے برا نہیں سمجھتے۔ بہرحال جب ہمارے کزن کی ولادت ہوئی توہم بھی اپنے والدین کے ہمراہ انھیں دیکھنے گئے مگر بچوں کو باہر روک لیا جاتا ہے۔

 کیونکہ کم عمر بچوں کو اسپتال بالخصوص زچہ بچہ سینٹر میں اندرجانے کی اجازت نہیں ہوتی، استقبالیہ پر بٹھا دیا جاتا ہے ، چونکہ جن ڈاکٹر صاحبہ کا وہ شفا خانہ تھا ان سے مراسم تھے تو اجازت مل گئی صرف وارڈ تک رسائی دی گئی وہ بھی پرائیویٹ روم ہونے کی وجہ سے، ایسے میں راقم کی نظر ساڑھی اور سفیدکوٹ میں ملبوس مادرانہ شفقت رکھنے والی ایک خاتون پر پڑی جن کے ہاتھوں میں ہمارا ننھا منا کزن تھا۔

یہ ہمارے لڑکپن کا وہ زمانہ تھا، جب ہر بات کی بے فکری اور لاابالی پن کی وجہ سے کسی بات کی جستجو نہ تھی صرف کھیل کود سر پر سوار رہتا لیکن وہ شفیق ہستی میرے ذہن میں نقش ہوگئیں اور میرے دل نے کہا کہ شاید یہی وہ فرشتہ ہے جن کا امی نے مجھے بتایا تھا، بے شک وہ فرشتہ ہی تھیں اور وہ ہستی کوئی اور نہیں مشہور و معروف ماہر امراض نسواں میڈم ڈاکٹر نسیم بانو رحمان پاشا تھیں، جس کا ادراک مجھے بہت بعد میں ہوا کہ وہ کتنی عظیم معالج تھیں۔

خواتین کی اکثریت سوسائٹی میں ان کے گھرکے نیچے قائم ’’ الفاطمہ‘‘ کلینک یا نرسری پر خیام سینیما کے پاس قائم ’’ پاشا کلینک‘‘ میں جانے کو فوقیت دیتیں، چونکہ وہ ایسی مسیحا تھیں جو اپنے پروفیشن سے بے حد مخلص تھیں، بے انتہا محبت اور شفقت سے سب سے ملتیں اور سب کا علاج بھی اس درد کے ساتھ کرتیں کہ جیسے وہ ان کے اپنے ہوں جو ایک دفعہ ان کے پاس چلا جاتا وہ اپنے دوسرے بچوں کی ولادت کے لیے یا شعبہ طب سے متعلق کسی بھی رہنمائی کے لیے بھی ان کے پاس ہی جانا چاہتا۔

ہمارے اپنے خاندان میں ملنے جلنے والوں میں بھی بہت سی خواتین ان کے زیر علاج رہیں، خود راقم بھی ان کے مبارک ہاتھوں سے دنیا میں آیا۔ اتفاق سے ان کی چھوٹی بہن نسرین (سرو) آنٹی ہماری محترم مما کی سیفیاء گرلز اسکول میں ساتھی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں اپنی مما کے ہمراہ نسرین آنٹی سے ملنے گیا تھا اور پھرکچھ عرصے بعد والدہ محترمہ کی وفات ہوگئی، ان کی رحلت سے قبل نسرین آنٹی بھی اس فانی دنیا سے جاچکی تھیں جس کی اطلاع ایک ملاقات میں والدہ کو ڈاکٹر نسیم پاشا نے دی۔

اور پھر ایک طویل عرصے بعد ڈاکٹر طلعت اور ڈاکٹر ندا سے باتوں باتوں میں ’’ پاشا کلینک‘‘ نرسری کا ذکر آیا کہ وہ دوبارہ فعال ہوگیا ہے، تو میں نے استفسارکیا ’’ میڈم نسیم والا ؟‘‘ تو انھوں نے بتایا ’جی‘ سن کر بڑی مسرت ہوئی اور یوں میڈم نسیم کے حسن سلوک کی یادیں تازہ کیں۔

ہرکوئی ان کا پرستار تھا ہماری پڑوس میں ایک آنٹی رہا کرتی تھیں، انھوں نے والدہ کو بتایا۔ باجی! میں عمرے پرگئی تھی تو وہاں میری ڈاکٹر صاحبہ سے ملاقات ہوئی وہ بھی اللہ کے گھر آئی ہوئی تھیں، پھر انھوں نے اپنے بیٹے کی پیدائش سے متعلق پیچیدگی کا والدہ کو بتایا اورکس طرح میڈم نے ان کا حوصلہ بڑھایا اور بڑی شفقت سے اللہ کریم کی رحمت سے اولاد نرینہ کی نعمت سے ان کے گھرکو آباد کیا۔

اس پیچیدگی کے باعث ان کی مزید اولاد نہ ہوسکی جس کی وجہ سے وہ بہت دکھی رہتیں پر میڈم نے انھیں سمجھایا کہ خدا کی اس عظیم نعمت پر شاداں رہو اور اس کی اچھی تربیت کر کے اسے قابل بناؤ، اچھا انسان بناؤ، اب اس کی نگہداشت پر بھرپور توجہ دو اور اللہ کی حکمت سے راضی ہوجاؤ اور پھر وہ اپنے اکلوتے بیٹے پر ہی بہت خوش اور مطمئن رہتیں، آج وہ بچہ ایک بینک میں قابل آڈیٹرکی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔

اسی طرح ہمارے عزیزوں میں ایک واقعہ کچھ یوں پیش آیا کہ2001میں ان کی پرانی 1970کی مریضہ جن کے چار بچے لیڈی ڈاکٹر کے ہاتھوں آپریشن سے ہوئے، آخری چوتھے بچے میں ان کی جان کا رسک تھا لیکن میڈم نے بھرپور مہارت کا مظاہرہ کیا اور اﷲ نے بچا لیا، یہی وجہ تھی کہ وہ فیملی ان پر اندھا اعتقاد رکھتی وہ اپنی چھوٹی بیٹی کے ہاں ہونے والی ولادت کے غرض سے ان کے پاس آئیں تو میڈم بھی ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں اور بڑی توجہ سے ان کی لڑکی کا علاج کیا اور جب انھیں پتہ چلا کہ علاج کے اخراجات ان کے والد برداشت کر رہے ہیں، جو ریٹائر ہیں تو انھوں نے بلنگ میں بھی قرار واقعی کمی کردی۔ اس طرح کہ نہ جانے کتنے انسانیت سے بھر پور واقعات سے مزین تھی ان کی یہ فانی زندگی۔

 انسان کا آنا اور جانا ایک قدرتی عمل ہے جس سے روکا نہیں جاسکتا، لیکن انسان اس درمیان میں جو جو اچھائیاں اور نیکیاں کرتا ہے، وہی اس کا ذمے دار ہوتا ہے،آخرت کا ابدی زندگی کا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی جب کبھی میں آنکھیں بند کرتا ہوں تو یہ فرشتہ میری آنکھوں میں آجاتا ہے اور ان سے انھی نیکیوں کی وجہ سے میں دلی عقیدت رکھتا ہوں۔

مجھے2011میں ڈاکٹر صاحبہ کی وفات کا پتہ چلا کہ اتنی عظیم مسیحا اب نہیں رہیں۔ آج کے اس نفسا نفسی کے دور میں بھی لوگ بڑے دکھ تکلیف کا اظہارکرتے ہیں کہ میڈم نسیم جیسی درد مند معالج اب نہیں ہیں، ورنہ ان کے پاس چلے جاتے، ان کے مریض ان کے پاس جاکر اپنی تمام تر فکر ان کو دے دیتے اور ان سے اپنے گھرکی رونق خوشیاں لے آتے۔ آج بہت ہی کم مسیحا اس طرح کی سوچ رکھتے ہیں، خلق خدا کی بھلائی اور بہتری کی نیت جیسی میڈم نسیم رکھتیں۔ اپنی عقیدت قارئین کے روبروکرنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ کائنات کبھی بھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوتی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اچھے اور برے کی تفریق کے لیے ہی اچھائی کو روشن کیا اور برائی کو اندھیروں تاریکیوں میں رکھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں