اسے کیا عنوان دیں؟

 بشارالاسد کا تختہ الٹ چکا ہے اور کئی برسوں سے شام میں ہونے والے خون خرابے کچھ تھمے ہیں


شہلا اعجاز December 15, 2024

مسلمانوں کو اگر کسی نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے تو خود مسلمانوں نے۔ یہ ایک عجیب بات ہے لیکن ایسا ہی ہے، تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں نے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے اپنے ہی مسلمانوں کا خون بہایا ہے۔

اب اسے اقتدار کی جنگ کہہ لیں یا سیاسی حربے لیکن ایسا ہی ہے۔ صحابہ کرام کے دور میں بھی فتنے اٹھے اور ان کے درمیان غلط فہمیوں کو ہوا دی گئی لیکن کامیابی نہ ملی اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ مسائل پھیلتے گئے یہاں تک کہ آج تک کے منظر نامے میں دیکھ لیں۔

 بشارالاسد کا تختہ الٹ چکا ہے اور کئی برسوں سے شام میں ہونے والے خون خرابے کچھ تھمے ہیں اور انکشافات کا سلسلہ برقرار ہے۔ انسانی جیلیں جو کسی بھی حد تک بربریت اور سفاکی کی مثالیں کہی جاسکتی ہیں سامنے آئیں ۔ ایک کے بعد ایک سلسلہ ابھی رکا نہیں، لوگوں کا خیال ہے کہ شام کے حالات بہتر ہوئے ہیں کیونکہ بشارالاسد جا چکے ہیں ایک سیاسی بساط الٹی ہے اورکئی تیار پڑی ہیں کہ اب کون اپنی چال چلتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ انسانی قوت اقتدار کے حصول کے لیے اس حد تک کیسے گر جاتی ہے کہ حیوانیت شرما جائے، پر ایسا تو ہوتا آیا ہے اور قیامت تک یہ سلسلہ رہے گا۔نیتن یاہو کو عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، اس سے پہلے وہ یہودیوں کے لیے ماورائی کردار کا روپ دھارے ہوئے تھے جو مظلوم یہودیوں کے لیے فلسطینیوں سے بھڑ جانا چاہتا ہے لیکن وقت کے ساتھ انسان خون سے نہاتے رہے، شور اٹھتا رہا اور مخالفت چیخ اٹھی۔

نیتن یاہو کو جواب دینا ہی ہوگا۔ آج سولہ سال اسرائیل پر حکومت کرنے کے باوجود کرپشن کے کیسز ان کو عدالت ہی گھسیٹ لائیں، درحقیقت یہ کرپشن روپے پیسے کی نہیں بلکہ جنگ اور مغویوں کی واپسی کی آڑ میں ان ہزاروں مظلوم انسانوں کی ہلاکت کی ہے جس کے خون کا حساب انھیں دینا ہی ہوگا۔

اسرائیل کی تاریخ کا پہلا وزیر اعظم جو فوج داری مقدمات میں پیش ہوئے، یہ وہ شخص تھا کہ جس نے امریکا، انگلینڈ، فرانس اور سارے یورپ کو اپنی باتوں میں ایسے الجھایا تھا کہ وہ بڑے ہاتھی اس کی باتوں میں آ کر فلسطین کو کچل دینے کے عزم پر جت گئے تھے، ایک بڑی عظیم طاقت کا مینار نیتن یاہو جس کے نام پر تاریخ ہزاروں بے گناہ مرد، بوڑھے، خواتین اور بچوں کے خون کا حساب لکھے گی۔

اپنوں کے احتجاج اور بے قراری کے گرداب میں بالآخر آ ہی گیا۔ یہ بہت عجیب سی صورت حال ہے کہ انھیں پچاس کروڑ ڈالر، جعل سازی، دو لاکھ ڈالرز، مہنگی شراب، سگار، تحائف اور ایسی ہی دھوکا دہی اور کرپشن کے الزامات میں گھیرا جا رہا ہے جو لاکھوں انسانوں کی جان تو کیا ایک انسانی جان کے برابر بھی نہیں گنا جاسکتا۔

کیا نیتن یاہو کو عدالت میں گھسیٹنے کی وجہ صرف جعل سازی اور کرپشن ہی ہے، کیا نیتن یاہو فلسطینیوں کے قتل اور خون خرابے میں اکیلے ہی ذمے دار ہیں؟ یا خاموش رہنے والے اور جان بوجھ کر آنکھیں موند لینے والے جو کسی نہ کسی طرح ان کی ہمنوائی کے دعویدار ہیں۔

عراق کے صدر صدام حسین کی شخصیت پراثر تھی، چھوٹی سی عمر سے ہی وہ اپنے ملک کے لیے خاصے سرگرم رہے اور قدرت نے انھیں صدارت کے عہدے سے نوازا لیکن انھوں نے اپنے عہدے کے دائرے سے نکل کر عرب دنیا میں پھیلنے کی کوشش کی۔

گو وہ دور نہ تھا کہ برطانیہ اور فرانس کی مانند کمزور ممالک کو اپنے نرغے میں لے لیا جاتا، دوسری جنگ عظیم کے بعد بہت سی بڑی طاقتوں کے کس بل نکل چکے تھے اور برطانیہ کے تو اب بھی حالات ماضی کے مقابلے میں صحت افزا نہ رہے، بہرحال جو گزر گیا وہ اپنے ساتھ انسانی خون خرابہ لے کر گزر گیا۔ 

آٹھ برس ایران عراق کی جنگ نے دنیا کو کیا دیا، دس لاکھ افراد کی ہلاکت ! جنگ ختم ہوئی اور عراق بدحالی کے دروازے پر آ گیا، اس کے بعد کویت پر حملہ، ایک کے بعد ایک مہمات نے عراقی قوم کی اقتصادی حالت پر برا اثر ڈالا اور پھر 9/11 کے واقعے نے حالات کو ایک نیا رخ دیا۔

ابھی چند مہینے پہلے ہی برطانیہ میں ایک معمولی سے جھوٹ کی بنیاد پر وہاں نسل پرستی کا غلغلہ اٹھا۔ ’’ وہ دونوں ایشیائی نظر آتے تھے گندمی رنگت والے، تب ہی اس اسکول وین کے ارد گرد گورے چٹے، سنہری بال والے پندرہ، سترہ اور بارہ تیرہ سال کے بچوں نے اس پچیس سال کے جوان اور پچاس سال کے مرد کو پیٹنا شروع کر دیا۔

وہ بچے نفرت سے چیخ رہے تھے، مار رہے تھے اس نفرت کے پیچھے سوائے جھوٹی خبر کے اور کچھ نہ تھا، پر وہ مشتعل تھے۔‘‘9/11 کے واقعے کے بعد سے مسلمانوں کے لیے تعصب کی جو ہوا ابھری تھی، اسے بس ذرا سی تیلی دکھانے کی دیر ہوتی ہے اور آگ بھڑک اٹھتی ہے، چاہے تیلی کسی پکے جھوٹے کے ہاتھ میں ہی کیوں نہ ہو، یقین کر لیا جاتا ہے۔

صدر معمر قذافی کا نام لیبیا کی طاقتور ترین شخصیات میں سب سے اہم ہے جنھوں نے اپنے ملک کو معاشی لحاظ سے آگے لانے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ان کے دور حکومت میں عوام بہت خوش حال تھے، تیل کے ذخائر لیبیا کی ترقی میں اہم ستون تھے۔ خانہ جنگی کسی بھی ملک کے لیے دیمک کی حیثیت رکھتی ہے جو دھیرے دھیرے پورے وجود کو چٹ کر جاتی ہے۔

ایسی ہی دیمک لیبیا کو بھی لگا دی گئی تھی اور لگنے والی دیمک کون تھی؟ ظاہر ہے جب فی کس آمدنی گیارہ ہزار امریکی ڈالر سے اوپر چلی جائے تو بڑی طاقتوں میں اضطراب تو ابھرنا ہی تھا اور ان کے مددگار قذافی کے مخالفین ہی ٹھہرے جنھوں نے خانہ جنگی کے ذریعے ملک بھر میں تشدد اور جنگ کا بازار گرم رکھا، یوں بالآخر بات قذافی کے قتل پر ٹھہری جس میں حکومت کے خلاف دس ممالک نے ’’آپریشن یونیفائیڈپروٹیکٹر‘‘ میں حصہ لیا جو نیٹو کے پروگرام کے تحت تھا۔ گویا ایک دنیا تھی لیبیا پر چڑھائی کے لیے تیار۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں