حضرت آدمؑ اور خوشی

سوائے دعاؤں اور نیک اعمال کے نتیجے میں تقدیرکا لکھا بدلا جا سکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوئی تب

nasim.anjum27@gmail.com

خوشی کی طلب اس وقت سے ہی حضرت انسان کے دل میں بیدار ہوئی جب وہ عالمِ لاہوت سے عالمِ موجود میں آیا۔ ہوش و حواس بحال ہوتے ہی اسے جنت میں پہنچا دیا گیا۔ حضرت آدمؑ اور اماں حوا کی پیدائش کے بعد سے آج تک نسل انسانی کا سلسلہ جاری و ساری ہے اور تاقیامت رہے گا۔

 ہر شخص اپنی قسمت لکھوا کر اس دنیا میں آتا ہے، باقی کامیابی و ناکامی اس کی اپنی کوششوں اورکاوشوں کی بدولت نصیب ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ ’’ انسان جتنی کوشش کرے گا اسے اتنا ہی ملے گا‘‘ بہرحال قسمت کے فیصلے بھی اٹل ہیں، سوائے دعاؤں اور نیک اعمال کے نتیجے میں تقدیرکا لکھا بدلا جا سکتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہوئی تب۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی سرشت میں خوشی کا پہلو ودیعت کر دیا گیا ہے۔ انسان کے اندر حصولِ خوشی کی تمنا انگڑائی لیتی ہے اور جب تمنا پوری نہ ہو تو ایک انسان دوسرے کے قتل کے درپے ہو جاتا ہے گویا خوشیوں کو زندگی کا محور بنانے کے لیے ہر طرح کے جتن کرنے پڑتے ہیں۔

اگر ہم اللہ پاک کے احکامات کی پابندی کریں تب ہر مشکل سے نجات حاصل کر سکتے ہیں کیوں کہ بہت سے مسائل ہمارے اپنی حماقتوں اور کوتاہ عقلی کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں اور ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے غلط راہ کا انتخاب کرتے ہیں۔

اسی وجہ سے منفی رویے پروان چڑھتے ہیں۔ ان ہی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فضاؔ اعظمی نے آدم و حوّا کی اولاد کے لیے مثبت طریقوں سے مسرتوں کو کشید کرنے کا ہنر دلکش انداز میں کیا ہے۔ پہلے ہم حضرت آدم کی تخلیق کے واقعے کو مختصراً تحریرکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں انسان کو ناشکرا اور جلد بازکیوں کہا ہے، یہ جاننے کے لیے ہم حضرت آدم کی پیدائش کے بارے میں چند باتیں ضابطہ تحریر میں لانے کی کوشش کریں گے کہ حضرت آدمؑ کی دنیا میں آمد کے بعد ہی سے نسلِ انسانی کا سلسلہ آگے بڑھا۔

حضرت آدمؑ کی پیدائش کچھ اس طرح ہوئی کہ پہلے ان کا پتلا بنایا گیا اور جب اس آیت کریمہ ’’انی جاعل فی الارض خلیفہ‘‘ کا حکم اللہ نے فرمایا تب حضرت عزرائیلؑ کو حکم ہوا کہ ایک مٹھی خاک ہر قسم کی، سرخ اور سفید اور سیاہ زمین سے لائیں۔ 

بحکم خداوندی حضرت عزرائیلؑ ایک مٹھی خاک رنگا رنگ کی تمام روئے زمین سے جمع کر کے لائے اور بموجب حکم الٰہی مکہ اور طائف کے درمیان رکھی اور اللہ تعالیٰ نے باران رحمت اس پر برسایا اور اپنی قدرت کاملہ سے حضرت آدمؑ کا پتلا اس مٹی کے خمیر سے بنایا اور چالیس برس تک وہ بے جان وہاں پڑا رہا پھر اللہ رب العزت خالق کائنات و جن و انس نے روح پاک کو حکم دیا کہ بدنِ آدمؑ میں داخل ہو لیکن روح لطیف نے خاک کثیف میں داخل ہونے سے انکار کردیا۔

تب اللہ نے فرمایا کہ ’’اے جان داخل ہو اس بدن میں‘‘ تب روح حضرت آدمؑ کے سر مبارک کی طرف سے داخل ہوئی تو جس جگہ پہنچتی تھی بدن خاکی جو ٹھیکرے کی مانند تھا، گوشت پوست میں بدل جاتا تھا جب روح سینے تک پہنچی تو حضرت آدمؑ نے اٹھنے کی کوشش کی، لیکن زمین پرگر پڑے۔

اسی حوالے سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’انسان جلد باز ہے‘‘ بہرحال اسی حالت میں دنیا کے پہلے انسان پہلے پیغمبر حضرت آدمؑ کو چھینک آئی اور الہامِ الٰہی سے انھوں نے الحمدللہ کہا اور اس کریم و رحیم نے اپنی رحمت سے یرحمک اللہ فرمایا اور سب سے اول جلوہ رحمت الٰہی کا شامل اس طرح ہوا کہ حضرت آدمؑ بہشت کے مکین ہوئے تو انھیں ایک ہمدم کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ دونوں خوشی و انبساط حاصل کرسکیں۔

نکاح، شادی بیاہ بھی خوشیوں کامیابیوں اور زندگی کی تکمیل کا نام ہے۔ زندگی اسی وقت مکمل معلوم ہوتی ہے جب کسی ایک فریق کو اس کی پسند کے مطابق دوسرا فریق مل جائے پھر جوں جوں زندگی آگے بڑھتی ہے خواہشات کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح مرزا غالبؔ فرما گئے ہیں۔

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

ممتاز شاعر فضاؔ اعظمی نے اس واقعے کو استعاراتی انداز میں شعر و سخن کے سانچے میں ڈھالا ہے:

ازل سے آدمؑ کو ہے خوشی کی تلاش

بہشت میں بھی تھی اس کو اس خوشی کی تلاش

زمین پر بھی اتر کر رہی خوشی کی تلاش

کوئی نہیں کہ نہیں ہے جسے خوشی کی تلاش

مگر قرار میسر نہ ہو سکا اب تک

بشر رہے گا یوں ہی خوار و بے رِدا کب تک

 اکثر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خوشی کے حصول کے لیے دوسروں کے ارمانوں کا خون کرنا پڑتا ہے، جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے پہلا قتل اپنے بھائی ہابیل کا کیا محض خوشی و کامیابی حاصل کرنے کے لیے قابیل علقمہ نامی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا، لیکن اس سے اس کی شادی ممکن نہ تھی کہ علقمہ اور قابیل جڑواں بچوں کی صورت میں ایک ساتھ پیدا ہوئے، جب کہ ہابیل کے ساتھ جس بچی کی ولادت ہوئی اس کا نام خازہ تھا۔ بی بی حوا کے ہاں ہر دفعہ دو بچے پیدا ہوتے۔

ایک روایت کے مطابق یہ سلسلہ ایک سو اسی بار تک جاری اور اللہ کے حکم کے مطابق ایک بہن بھائی کی شادی، دوسری دفعہ پیدا ہونے والے بہن بھائی کے ساتھ طے ہونا قرار پایا۔

اس صورت حال اور حکم اللہ کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں بھائیوں کو دونوں بہنوں کے ساتھ یعنی قابیل کی بہن کو ہابیل کے ساتھ اور ہابیل کی بہن کو قابیل کے ساتھ شادی کرنے کی اجازت تھی اور پھر جب حضرت آدمؑ نے اللہ کا حکم سنایا تو قابیل نے نافرمانی کی اور اپنا فیصلہ سنایا کہ علقمہ صاحبِ جمال ہے، میں اس سے ہی شادی کروں گا۔

دنیا کا پہلا شخص قابیل تھا جس نے اپنے والد کی حکم عدولی کی اور اپنی خوشی کے لیے ہابیل کو قتل کر ڈالا تاکہ علقمہ کو حاصل کرسکے جب کہ علقمہ ہابیل کی منکوحہ تھی، اس طرح پہلا قاتل قابیل ٹھہرا جسے اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں ہی زمین میں دھنسا کر سزا دی اور تاقیامت وہ اسی اذیت میں مبتلا رہے گا۔

اس واقعے کو درج کرنے کا صرف اتنا مقصد ہے کہ خوشی کی طلب، کامیابی کی چاہت تو روز ازل سے ہی انسان کے دل میں پرورش پا رہی ہے لیکن جوں جوں زمانہ گزر رہا ہے خوشیاں اور سکون ناپید ہو رہا ہے، لوگ خوشی اور سچی خوشی کے لیے ترس گئے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ان کے دل کا گلشن مہک جائے اور خوش رنگ اور خوش جمال پھول کھلیں اور وہ خوشیوں کے گیت گنگنائیں۔

لیکن یہ چاہت اسی وقت پوری ہونا ممکن ہے جب حقوق العباد کی ادائیگی کو ہر شخص اپنی اہم ذمے داری سمجھے۔ فضاؔ اعظمی آج کے حالات کے تناظر میں یہ کہنے پر اس لیے مجبور ہو گئے ہیں کہ آج دنیا میں ہر سمت نفسانفسی، مفاد پرستی، بے انصافی کا دور دورہ ہے ان حالات میں ایک شاعر جس کے پاس الفاظ کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے، موتیوں کی طرح دمکتے افکارِ تازہ ہیں، تلخ تجربات کی روشنی ہے، علم و آگہی کے چراغ ہیں، دانشوری کے نتیجے میں وجود میں آنیوالے غم ہیں، شکست ہے اور احساس محرومی اور جذبات و احساسات کا بہتا ہوا دریا ہے، لیکن نہیں ہے تو وہ اختیارات نہیں ہیں، جس کے استعمال سے کائنات میں بڑھنے والا اندھیرا دم توڑ سکے۔

ایسے ہی حالات نے فضاؔ اعظمی کو مایوس کر دیا ہے اسی لیے وہ اپنے رب کو پکار رہے ہیں اور حضرت انسان کو بھنور سے نکالنے اور ساحل عطا کرنے کی دعا کر رہے ہیں انھی حالات کے نتیجے میں یہ اشعار وجود میں آئے ہیں۔

ساقیا مجھ کو الم ناک اذیت سے نکال

میں ہوں ناواقف تفریقِ زوال اور کمال

فرد سفاکی حالات سے ہلکان ہے آج

نوعِ انسان ہدفِ تیشۂ بیداد ہے آج

ایسے ماحول میں انصاف کی دیوی کا وجود

کھو گیا دشتِ تعصب میں مفادات کے بیچ

Load Next Story