گہیوں کے ساتھ گھُن بھی پستا ہے

کہیں گہیوں کے ساتھ گْھن کی صورت میں پِس رہے ہیں اور کہیں دوسرے انسانوں کو بیدردی سے پیس رہے ہیں

سکینڈری اسکول میں دوران تعلیم، ایک دفعہ اپنی سوشل اسٹڈیز کی ٹیچر کی جانب سے کلاس کے زیادہ تر اسٹوڈنٹس کا ٹیسٹ کے لیے سبق یاد نہ کر کے آنے پر پوری کلاس کو سزا دینے پر میرے پوچھے گئے سوال، ’’میں تو سبق یاد کر کے آئی ہوں پھر مجھے سزا کیوں دی جا رہی ہے‘‘ پر دیا جانے والا جواب ’’ گہیوں کے ساتھ گْھن بھی پستا ہے‘‘ اس ضرب الامثال سے میری پہلی ملاقات تھی۔

اْس نادانی والی عمر میں مجھے یہ بات بالکل سمجھ نہیں آئی تھی لیکن وقت گزرنے اور شعور پانے کے بعد متعدد بار میں نے عملی طور پر گہیوں کے ساتھ گْھن کو پستے ہوئے دیکھا ہے۔’’ گہیوں کے ساتھ گْھن بھی پستا ہے‘‘ کے لغوی معنی ہیں قصور وار کے ساتھ بے قصورکو بھی سزا ملنا، اب اگرکسی کو اس محاورے کے ہونے کا علم ہے یا نہیں، اس کے مفہوم سے آگاہی ہے یا نہیں مگر اپنی اپنی زندگیوں میں ایسا سب کرتے ہیں اور جوکہتے ہیں کہ ہم نہیں کرتے وہ دراصل غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں۔

دیسی اور بدیسی دونوں معاشروں میں اس حوالے سے ایک ہی طرح کا معاملہ پایا جاتا ہے، ہر بحر و بر میں فرد واحد کے عمل سے مجموعی سوچ جنم لیتی ہے، جسے بدلنا اکثر جگہوں پر ناممکنات کی فہرست میں شامل ہوتا ہے۔ دنیا والے جن میں میرا اور آپ کا بھی شمار ہوتا ہے کہیں گہیوں کے ساتھ گْھن کی صورت میں پِس رہے ہیں اور کہیں دوسرے انسانوں کو بیدردی سے پیس رہے ہیں۔

جب زیادتی خود کے ساتھ ہو رہی ہوتی ہے تو جسم کا روم روم تذلیل کا احساس محسوس کر رہا ہوتا ہے لیکن اپنے تجربے سے سبق حاصل نہ کرتے ہوئے ہم بھی دوسروں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں میں اپنا حصہ ڈال رہے ہوتے ہیں۔ جذبہ انسانیت کی عینک سے دیکھا جائے توگْھن آپ ہوں یا کوئی دوسرا، جو بات ایک کے لیے غلط ہے وہ اوروں کے لیے کس اعتبار سے صحیح تصور کی جاسکتی ہے۔

اگر اپنے ملک پاکستان کی بات کریں اور اْس میں بھی خصوصی طور پر موجودہ حالات پر روشنی ڈالی جائے تو ہمارا ’’ سیکنڈ ہوم‘‘ کہلانیوالا ملک متحدہ عرب امارات جغرافیائی اعتبار سے ہمارے قریب ہونے کے باوجود اب ہم سے بہت دور ہوگیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک یو اے ای کا ویزہ حاصل کرنا پاکستانیوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں تھا اور وہاں جانے کے لیے ویزے کا نہ ملنا یا رد ہو جانا ایسا ہی تھا جیسے سورج کا رات کے پہر نکلنا۔

یو اے ای میں ملازمت کے لیے موجود ہمارے چند ہم وطنوں کی غیر اخلاقی، نازیبا اور منفی سرگرمیوں کے نتیجے میں نہ صرف ہمارے ملک کا نام خراب ہوا بلکہ وہاں پہلے سے رہائش پذیر پاکستانیوں کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی اور اب اْن لوگوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن ختم ہونے تک عام پاکستانی شہریوں کے لیے وہاں کے دروازے مکمل طور پر بند ہیں۔

متحدہ عرب امارات سے آگے بڑھیں تو اْس کی پڑوسی ریاست اور مذہبی لحاظ سے تمام مسلمانوں کے لیے متبرک سمجھے جانے والا ملک سعودی عرب بھی پچھلے دنوں پاکستانی حکومت کو سختی سے تنبیہہ کرچکا ہے کہ عمرہ ویزا پر گدا گری کے مقصد سے آنیوالے پاکستانیوں کو ملکی حدود پار کرنے سے روکا جائے۔

اس سنجیدہ مسئلے سے نپٹنے کے لیے حکومتِ پاکستان نے ہائی الرٹ جاری کردیا ہے جس کی بدولت امیگریشن حکام کی جانب سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر دو، چار افراد کو ملک کے مختلف ایئر پورٹس سے حراست میں لیا جا رہا ہے۔ ان پیشہ ور بھکاریوں سے پاکستانی قوم اندرونِ ملک محفوظ ہے نہ بیرونِ ملک، یہ گنتی کے مخصوص افراد ہر سطح پر ہمارے ملک کا نام بدنام کرنے کے درپے ہیں۔

پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آن لائن دہشتگردی، سوشل میڈیا بریگیڈ کی جانب سے ملکی اداروں کے خلاف کیا جانے والا پروپیگنڈہ، انتہا پسند تنظیموں کا انتشار پھیلانے کے لیے کالنگ، چیٹنگ انٹرنیٹ اپلیکیشن کے استعمال اور ڈیجیٹل مشینری کے ذریعے جھوٹی خبروں کے بڑھتے ناسور کی اسکروٹنی کے لیے سیکیورٹی اداروں نے ملک کے انٹرنیٹ پر فائر وال نصب کردی ہے۔

فائر وال کی تنصیب سے ملک میں انٹرنیٹ کی رفتار پہلے کی نسبت کافی سست ہوگئی ہے، جس کے بعد دنیا کے مختلف ملکوں کے مابین انٹرنیٹ اسپیڈ کے حوالے سے ہونے والے مقابلوں کے اعداد و شمار میں اب پاکستان موبائل انٹرنیٹ میں 100 اور براڈ بینڈ میں 141 ویں نمبر پر آگیا ہے۔

ملک بھر میں انٹرنیٹ کی رفتار سست ہونے کے باعث پاکستان کے فری لانسرز کو ملنے والے کام میں 70 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ باقی 30 فیصد میسر آنیوالے کام میں بھی انٹرنیٹ کی سست رفتاری کی وجہ سے مطلوبہ اسائنمنٹ بروقت مکمل نہ کرنے پر دنیا میں پاکستانی فری لانسرز کی قابلیت پر حرف آگیا ہے۔ 

فائر وال کو بائی پاس کرنے کا واحد ذریعہ وی پی این ہے، جس کے استعمال سے کم اسپیڈ انٹرنیٹ میں بھی تیزی آجاتی ہے لیکن اسی وی پی این کے ذریعے حکومت کی جانب سے بلاک کی گئی غیر اخلاقی ویب سائٹس تک باآسانی رسائی بھی ممکن ہے، لہٰذا حکومت نے پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی سے منظور شدہ وی پی اینز کے علاوہ تمام وی پی این پر پابندی عائد کر دی ہے۔

ملکی سطح سے نیچے آئیں اور اپنی زندگی کا ایمانداری کے ساتھ تجزیہ کریں تو ہم خود بھی ایک انسان کی سزا اْس سے منسوب ہر شخص کو بِلا جھجھک دیتے پائے جائیں گے۔ بالفرض کسی گھرکا ایک فرد بے راہ روی کا شکار ہو تو ہم اْس کے پورے خاندان کے بارے میں منفی سوچ بنا لیتے ہیں۔

اسی طرح کسی شعبے سے منسلک چند افراد کے ذاتی غلط فعل کے باعث ہم اْس شعبے کی معتبریت پر ہی شک کرنے لگ جاتے ہیں، اگر کسی قوم کے کچھ لوگوں کو لمبی چوڑی ہانکنے کی عادت ہو تو ہم پوری قوم کو شیخی خورہ تسلیم کرلیتے ہیں، صرف یہی نہیں ہم انسانوں کے حلیے سے اْنھیں بنا جانے اْن کے متعلق مخصوص رائے تشکیل دے دیتے ہیں۔ جب ہم ہی خطا کار کی سزا معصوموں کو دینے لگیں گے تو پھر اْن سے کیسے اْمید لگا سکتے ہیں کہ اپنی باری میں وہ ہمیں بخش دیں۔

Load Next Story