عالمی سیاست میں یورپ اور امریکا سے لے کر مشرق وسطیٰ اور ایشیا کی سیاست میں اتھل پتھل بے ربطگی اور باہمی تنازعات کی رسہ کشی اور خونی لکیر نے انسانی معاشروں کے عام فرد کی سیاسی، معاشی اور سماجی ضرورت کو مشکل سے مشکل ترکردیا ہے۔
اس عالمی تضادات میں مختلف خطوں کے عوام خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزارنے اور دربدری پر مجبور کیے جا رہے ہیں۔ اس پریشان کن صورتحال میں سیاسی دانش ایک ایسے ابہام میں گرفتار نظر آتی ہے جس کی الجھن سے عالمی امن کے راستے محدود سے محدود تر ہونے کی جانب رواں دواں ہیں جب کہ لوٹ کھسوٹ کے سرمایہ دار سامراجی ممالک عوام سے لوٹی گئی دولت پر دنیا کو جنگ میں جھونک کر انتہائی سفاکی سے اپنے سرمایہ دارانہ مفادات کو انسانی حقوق اور جمہوریت کی آڑ میں پورا کر کے ملک اور خطوں پر اپنا تسلط تھوپنے کی کوشش میں سرگرم عمل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا دنیا کا امن جنگی شعلوں، بم کی تباہ کاریوں اور ہزاروں بے گناہ عوام اور معصوم بچوں کی بے قصور لاشوں پر لایا جائے گا اورکیا ملک یا خطے میں مسلط کسی بھی قسم کی جنگ کا نتیجہ عوام کی معاشی و سیاسی تباہ کاریوں کا منصفانہ حل دے سکے گا؟ وہ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا نا کہ !
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امن عالم کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گریں کہ سرحد پر
روح تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ اوروں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ٹینک آگے بڑھیں کہ پچھے ہٹیں
کوکھ دھرتی کی بانجھ ہوتی ہے
فتح کا جشن ہو کہ ہار کا سوگ
زندگی میتوں پہ روتی ہے
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ
جنگ کیا مسئلوں کا حل دے گی؟
مشرق وسطیٰ میں حالیہ خونین واقعات اور جدید ہتھیاروں سے فلسطین،غزہ،لبنان اور شام میں امریکی پراکسی اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں اور ہزاروں بے گناہ افراد کے قتل و غارت پر صرف عالمی طور سے مذمت اور قراردادوں کے علاوہ کوئی دوسری کارروائی دیکھی نہیں گئی جب کہ ان مذمتی قراردادوں اور بیانات کا کوئی اثر ہزاروں بے گناہ انسانوں کے قاتل اسرائیل پر ہے اور نہ ہی اسرائیل نے عالمی قراردادوں کی کبھی پرواہ کی ہے۔
جب کہ اسرائیل آج بھی اپنے جدید فضائی ہتھیاروں سے مشرق وسطیٰ کے ان ممالک کو دیدہ دلیری سے نشانہ بنارہا ہے جو خطے میں امریکا/ اسرائیل کی راہ میں کسی نہ کسی سطح پر ممکنہ مزاحمت کر سکتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کی اس خونیں تباہی پر اسرائیل کو یورپ سمیت امریکا کی وہ تھپکیاں واضح نظر آرہی ہیں جن کی بنا پر اسرائیل پورے مشرق وسطیٰ میں قابو نہ آنے والے گھوڑے کی مانند دندنا رہا ہے اور مشرق وسطیٰ کا کوئی ملک اس قابل نظر نہیں آتا کہ وہ اسرائیل کو لگام ڈال سکے۔
اس تناظر میں مزاحمت کرنے والے ممالک کو زیرکرنے کے لیے اسرائیل نے ان افراد کو ایک منصوبہ بندی کے تحت ٹھکانے لگایا ہے، جو خطے میں کسی بھی طرح امریکا / اسرائیل گٹھ جوڑ کے لیے مزاحمت کا حوالہ بن سکتے تھے،جن میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ،حزب اللہ کے سربراہ نصراللہ اور اہم کمانڈر ابراہیم عقیل کے علاوہ دیگر اہم رہنماؤں کا ٹارگٹ قتل ہے جس کے بعد مشرق وسطیٰ میں اسرائیلی بالادستی مزید مضبوط شکل میں نظر آرہی ہے۔
اور اب اسرائیل شام کی ان فورسزکو بھی نشانہ بنانے پرگامزن ہے جو مستقبل میں امریکا،اسرائیل گٹھ جوڑ کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ اس حوالے سے یہ نتیجہ نکالنا کوئی مشکل نہیں کہ امریکا نے اسرائیل کی مکمل مدد کرنے کی منصوبہ بندی بہت پہلے کر رکھی تھی جس میں حماس کی مزاحمت کو بہانہ بنا کر امریکا نے اسرائیل کے ذریعے اپنے لیے ممکنہ خطرات کو جنگی تنازعے میں راہ سے ہٹا دیا، جس کی تازہ شکل شام میں بشار الاسد کے اقتدارکا خاتمہ ہے جو بغیرکسی فوجی مزاحمت کے پورا کیا گیا۔
شام میں بشارالاسد کے خلاف بغاوت کرنے والی تنظیم التحریر کے ذریعے شام کی اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی جانب اسرائیل کی پیش قدمی اور گولان کی پہاڑیوں کے ’’ بفرزون‘‘ پر اسرائیلی قبضے کے خلاف چند عرب ممالک نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ضرور ہے کہ اسرائیل شام کی صورت حال کا فائدہ اٹھا کر گولان کا پورا علاقہ ہتھیانے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو قابل مذمت ہے۔
اسی دوران القاعدہ سے داعش اور پھر انصر فرنٹ کے ذریعے داعش سے اختلاف کرنے والے احمد حسن الشرا المعروف ابو محمد الجولانی جو سعودی عرب میں پیدا ہوئے اور پھر بعد کو شام میں دمشق کے قریب سکونت اختیار کی جب کہ ببو محمد الجولانی فخریہ طور سے خود کو بنو امیہ کے اموی دورکا نمایندہ کہنے میں بھی فخرکرتے ہیں، ابو محمد نے شام کے صوبے ادلب میں اپنے جنگجو گروہ میں دیگر مزاحمت کاروں کو جوڑا اور حیات تحریر الشام کے نام سے شامی حکومت کے خلاف کارروائیاں جاری رکھیں۔
جن کا مقابلہ شام کی فوج روس اور حزب اللہ کی فوجی طاقت کی مدد سے پیچھے دھکیلتی رہی مگر اس تنظیم کے مضبوط ٹھکانوں پر تسلط نہ پاسکی اور شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف الجولانی کی تنظیم حیات تحریر الشام متحرک رہی۔
اوائل میں محمد الجولانی شام میں سنی اکثریت کے مقابل قوتوں کے سخت مخالف سمجھے جاتے تھے مگر آہستہ آہستہ ترکیہ کے کرد باغیوں کی مدد سے امریکی اثر کے تحت معتدل نکتہ نظر اپنایا اور اپنی جنگجویانہ صلاحیتوں کا محور صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے تک رکھا، جس میں محمد الجواری کا ساتھ امریکی اتحادی ممالک نے جدید اسلحہ دینے سے لے کر مالی مدد تک بڑھا دیا جب کہ دوسری جانب روس کی یوکرین جنگ میں مصروفیت نے شام کی مدد میں وہ سرگرمی نہ دکھائی جو اس سے قبل روس دکھا رہا تھا۔
مزاحمت کاروں کو کسی رکاوٹ کے بغیر راستہ دینے کے سوال پر متعدد نکتوں پر غورکرنا ازحد ضروری ہے، جیسا کہ کیا اب عالمی سامراج اپنے حواریوں کی مدد کے لیے ’’ سوشل میڈیا اور عالمی میڈیا‘‘ کی پروپیگنڈا وار یعنی فیک بیانیے سے ہتھیاروں یا پیرا ملٹری فوج کے مقابل سوشل میڈیا کی مدد سے جنگیں جیتنے کی طرف گامزن ہے؟
صلیبی جنگوں اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی طاقت سے زیادہ کیا ’’ سوشل میڈیا اور میڈیا‘‘ پر فیک پروپیگنڈے سے جنگ جیتنا اتنا آسان ہے کہ دنیا کی امریکا اسی پیرا ملٹری فوج بھی افغان طالبان کے مقابل ہتھیار ڈال دیتی ہے جب کہ یہی ’’ سوشل میڈیا وار‘‘ کے ہتھیار کو شام کی فوج کی پسپائی یا کمزوری میں دنیا کو دکھانے کی کوشش جاری ہے، اس حوالے سے آج کی دنیا میں طاقتور سمجھی جانے والی ’’ پیرا ملٹری فوج‘‘ کی کیا حیثیت رہ گئی ہے؟ یا کہ فوج کی کمزور پوزیشن میڈیا کے مقابل اپنی مدد سے فیک عوامی مظاہروں کے ذریعے ظاہر کر کے بنگلہ دیش کو کنٹرول کرنے کی سامراجی کوشش کیا ایشیا کے خطے کے لیے الارم نہیں؟