پاکستانی اسٹاک مارکیٹ اِن دنوں روزانہ نئی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کے اشاریے نئی زندگیاں پا رہے ہیں اور اس ہفتے میں بھی اس نے اپنی نئی تاریخ رقم کی ہے۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مارکیٹ مصنوعی طور پر چلائی جا رہی ہے جب کہ کچھ ماہرینِ معیشت اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ اگر موجودہ ڈالرکی قیمت کا تقابل اُس وقت سے کیا جائے جب ایک ڈالر سو روپے کے برابر تھا اور آج کے 278 روپے کے برابر ہے، تو مارکیٹ کے 165,000 پوائنٹس تک جانے کی گنجائش موجود ہے۔
یہ دلیل اُن اعداد و شمار پر مبنی ہے جو گلوبل مارکیٹ کی تبدیلیوں کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا اِن اعداد و شمار کے پیچھے عام آدمی کی فلاح و بہبود کی کوئی حقیقت موجود ہے؟
یہ تمام معاشی اشاریے، چاہے وہ اسٹاک مارکیٹ کے ہوں یا جی ڈی پی کے، اُس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں جب عوام کی اکثریت ان کا کوئی فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اعداد و شمار کی یہ چمک دمک صرف اُن لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنتی ہے جو اس کھیل کے ماہر ہیں یا سرمایہ کاری کے لیے بڑی رقم رکھتے ہیں۔ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کے یہ ریکارڈ توڑ اعداد و شمار اگرچہ میڈیا کی زینت بنتے ہیں اور معیشت کی کامیابی کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں، لیکن کیا یہ کامیابی واقعی معاشی ترقی کے مترادف ہے؟
جب ہم دنیا کے اُن ممالک کو دیکھتے ہیں جہاں جی ڈی پی کی شرح چھ، سات، آٹھ یا نو فیصد ہے، تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگر دولت کی تقسیم منصفانہ نہ ہو تو یہ ترقی صرف اعداد و شمارکی حد تک محدود رہتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں کی اصل خوبصورتی اس بات میں ہے کہ وہاں کی معاشی کامیابیوں کے ثمرات عام آدمی تک پہنچتے ہیں، لیکن پاکستان میں دولت کی غیر مساوی تقسیم نے عوام کے لیے ترقی کو محض ایک خواب بنا دیا ہے۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان کا نہیں دنیا کی بڑی معیشتیں بھی اِسی بحران کا شکار ہیں۔ امریکا جسے اکثر دنیا کی سب سے بڑی معیشت کہا جاتا ہے وہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہیں۔ نیویارک کی روشنیاں، لاس اینجلس کی رونقیں اور شکاگو کی بلند و بالا عمارتیں شاید اُس ملک کی ترقی کی علامت ہوں مگر اُن گلیوں میں جہاں خیمے لگے ہوئے ہیں اور لوگ فٹ پاتھ پر سونے پر مجبور ہیں، یہ ترقی بے معنی ہو جاتی ہے۔ امریکی معیشت کی چمک دمک اُس وقت دھندلا جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں افراد کو دو وقت کی روٹی کے لیے حکومتی امداد پر انحصارکرنا پڑتا ہے۔
چین کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ یہ وہ ملک ہے جس نے دنیا کو حیران کر دینے والی ترقی کی رفتار دکھائی لیکن یہ ترقی بھی ایک بھاری قیمت پر آئی ہے۔ چینی مزدوروں کی حالتِ زار ایک تلخ حقیقت ہے۔
کم تنخواہیں، بارہ گھنٹے کی طویل شفٹیں اور بنیادی حقوق کی عدم موجودگی نے اس’’ معاشی معجزے‘‘ کے پیچھے کی تاریکی کو واضح کردیا ہے۔ لاکھوں چینی مزدور آج بھی کم اجرت پر محنت کر رہے ہیں تاکہ دنیا بھر میں بنی ہوئی مصنوعات کی قیمتیں کم رکھی جا سکیں۔ چین کی یہ ترقی یقینی طور پر عالمی سرمایہ داری کا حصہ ہے جہاں محنت کش طبقے کو ہمیشہ دبا کر رکھا جاتا ہے تاکہ اشرافیہ کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی کا مطلب کیا ہے؟ کیا صرف بڑے بڑے اشاریے اور اعداد و شمار ہی ترقی کے پیمانے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر اُن کروڑوں لوگوں کا کیا جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ایک مشکل کام ہے؟
پاکستان کی معیشت کو اگر ایک آئینے میں دیکھا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ یہ آئینہ اُن چند طاقتور افراد کے چہروں کو منعکس کرتا ہے جنھوں نے دولت اور وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ اِن چند لوگوں کے لیے اسٹاک مارکیٹ کی کامیابیاں اُن کی دولت میں اضافے کا سبب بنتی ہیں جب کہ عام آدمی غربت اور محرومی کی زنجیروں میں جکڑا رہتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں۔ کیا ہم واقعی ایک ایسے ملک کی تعمیر چاہتے ہیں جہاں صرف چند لوگ خوشحال ہوں اور باقی عوام غربت اور محرومی کا شکار رہیں؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جو انصاف پر مبنی ہو۔
ایک منصفانہ معاشی نظام کے بغیر اسٹاک مارکیٹ کی یہ ترقی بے معنی ہے۔ یہ ترقی اُس وقت تک کھوکھلی رہے گی جب تک عام آدمی کو اس کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔ ترقی کے اشاریے اُس وقت تک صرف اعداد و شمار ہیں جب تک وہ زمین پر بسنے والے انسانوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی نہ لائیں۔
پاکستان کے عوام کو ضرورت ہے کہ وہ ان مسائل کو سمجھیں اور ان کے حل کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔ یہ وقت ہے کہ عوام اپنی محرومیوں کے خلاف کھڑے ہوں اور ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک مشترکہ جدوجہد کا آغاز کریں۔
ترقی کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو اُس کا جائز حق ملے اور وہ اپنے حصے کی خوشحالی حاصل کر سکے۔لہٰذا جب تک اسٹاک مارکیٹ کی کامیابیوں کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچتے یہ ترقی ایک دھوکا اور فریب ہی رہے گی۔ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو اس نہج پر ترتیب دے جہاں ترقی کا مطلب صرف اشاریے نہیں، بلکہ حقیقی معاشرتی انصاف اور خوشحالی ہو۔