’’گولان کی پہاڑیاں‘‘

گولان کی پہاڑیاں شام، اسرائیل، اردن اور فلسطین کے لیے خصوصی طور پراہم ہیں، یہاں پانی کی بہتات ہے


سرور منیر راؤ December 15, 2024

شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اسرائیل نے فوج نے گولان میں مزید پیش قدمی کر کے مزید علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ گولان ہائٹس شام اور زیریں اسرائیلی علاقے کو میٹھا پانی سپلائی کرنے کا سورس ہے اور یہاں زراعت اسی پانی کی وجہ سے قائم ہے۔ گولان کی یہ پہاڑیاں دمشق سے67کلو میٹر کے فاصلے پر ہیں۔

یہ پہاڑیاں چار عرب ملکوں کو ملاتی ہیں۔ گولان سے لبنان25کلومیٹر، فلسطین 30 کلومیٹر، اردن 60کلومیٹر اور شام کا دارالحکومت دمشق 67 کلو میٹر ہے۔ 2003 کی امریکا عراق جنگ کے دوران مجھے اس علاقے سے رپورٹنگ کا موقع ملا۔

گولان جانے کے لیے حکومت شام سے خصوصی اجازت لینا پڑتی ہے۔ پی ٹی وی کی ٹیم کو یہ اجازت شام میں مقیم پاکستان کے سفیرسبط یحییٰ نقوی صاحب نے لے کر دی۔ دمشق سے گولان تک کا سفر سر سبز وادیوں پر مشتمل ہے۔

ان وادیوں کے دائیں جانب کوہ سفید کا سلسلہ ہے۔ اس پہاڑ پر سارا سال برف جمی رہتی ہے۔ ’’خان اربنہ‘‘ شہر سے آگے اقوام متحدہ کی عمل داری شروع ہو تی ہے۔اسرائیل کی سرحد تک 10میل کے اس علاقے کا نظام اقوام متحدہ کی فوج کے پاس ہے۔ گولان صوبہ ہے جسے گورنریٹ کہاجاتا ہے۔

القنطیرہ گورنریٹ کا صدر مقام ہے۔ مقامی طور پر گولان کا مطلب ایک ایسی گونج ہے جو پہاڑی وادی میں گھومتی ہوئی ہوا کی آواز سے پیدا ہوتی ہے یعنی CIRCULAR MOVEMENT OF THE WIND گولان کا یہ علاقہ دنیا بھر میں اس لحاظ سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اس علاقے میں سفر کرنے والوں کو ایک دن میں چار موسموں سے گزرنا پڑتا ہے۔ دو گھنٹوں کے سفر کے دوران چار موسموں کے تازہ پھل کھائے جا سکتے ہیں۔

گولان کی پہاڑیاں شام، اسرائیل، اردن اور فلسطین کے لیے خصوصی طور پراہم ہیں۔ یہاں پانی کی بہتات ہے۔ دریائے اردن JORDAN RIVER بھی یہاںہی سے نکلتا ہے۔Banias River اور Aldan River کا منبع بھی یہاں ہی ہے۔ یہ دونوں دریا اب سرائیل کے قبضے میں ہیں۔

انھی دونوں دریائوں کے ملاپ سے دریائے اردن بنتا ہے۔ ا س علاقے میں بارشیں بہت زیادہ ہوتی ہیں۔ یہاں100 سے ز ائد میٹھے چشمے ہیں۔ زمین زرخیز اور سر سبز و شاداب ہے۔ گولان میں ہمیں القنطیرہ کا تاریخی شہر بھی دیکھنے کا موقعہ ملا۔

شامی زبان میں القنطیرہ کا مطلب ایک ایسا پل ہے جو مختلف علاقوں کو ملاتا ہو۔ القنطیرہ صوبے کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز ثمر قط نے ہمیں ایک بریفنگ بھی دی۔ اسرائیل نے 1967کی جنگ میں شام کے 1260 مربع کلو میٹر رقبے پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1973میں شام نے اسرائیل سے 600 مربع کلومیٹر رقبہ واپس لے لیا۔1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے جب گولان پہاڑیوں پر قبضہ کیا تو القنطیرہ شہر بھی اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا۔

اسرائیلیوں نے اڑھائی لاکھ سے زیادہ شامی باشندوں کو علاقہ بدر کر کے القنطیرہ شہر کو اسرائیل کی چھاونی قرار دے دیا اور شہر کو منہدم کردیا۔ اقوام متحدہ نے گولان کے علاقے اور القنطیرہ کی تباہی کو جنگی جرائم میں شمار کیا۔ اقوام متحدہ نے اس شہر کی تباہی کو کھلی بربریت قرار دیا اور اسے حالت میں محفوظ کرنے کا اعلان کیا۔

یہ شہراب ایک میوزیم کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ اڑھائی لاکھ آبادی کے اجڑے ہوئے اس شہر میں ایک گھر اب بھی آباد ہے اور یہ گھر زید جان کری ستائی کا ہے۔ ہم نے اس گھر میں ایک گھنٹے تک قیام کیا۔ زید جان ایک ایسا شخص ہے جو 1936میں القنطیرہ میں پیدا ہوا۔ اسرائیلی تباہ و بربادی اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔

عزیز واقارب اور دوست احباب قتل ہوتے ہوئے دیکھے لیکن شہر چھوڑنے کو راضی نہ ہوا۔ اقوام متحدہ کے نمایندوں نے بھی اسے ترغیب دی کہ وہ یہاں سے چلا جائے لیکن اس نے کہا کہ میںاس مٹی پر جان دوں گا۔ ستر سال سے زائد عمر کے اس بوڑھے کی بیوی بھی اس کے ہمراہ یہاں رہتی ہے۔

اس کی باتیں اورجذبہ دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ وطن کی مٹی کتنی عزیز تر ہوتی ہے۔ اس کی آنکھوں کی چمک اور جذبہ زندگی کی علامت ہے۔ وہ اب بھی پر امید ہے کہ یہ علاقہ شام کو واپس مل جائے گا اور ایک دن آئے گا کہ گولا ن کی یہ پہاڑیاں جہاں اب اسرائیل کا قبضہ ہے، آزاد ہوں گی اور اسے اس کے کھیت واپس مل جائیں گے۔ وہ کہہ رہا تھا کہ میں جب پہاڑی دامن میں واقع اپنے آزادکھیتوں میں جائوں گا تو فصل کاشت کروں گا اور چشموں کے پاس بیٹھ کر اپنے شہید بچوں کو یاد کروںگا۔
 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں