موجودہ حکومت کو ورثے میں سیاسی اور معاشی بحران ملے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پاکستان میں معاشی اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ اس دوران توانائی کی قلت بھی ایک مسئلہ بن کر سامنے آئی خصوصاً بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے عام آدمی بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔
موجودہ حکومت کی معاشی ٹیم نے بہتر نظم اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جس کے نتائج بتدریج سامنے آ رہے ہیں۔ پاکستان کا عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بہتر ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پاکستان کے ساتھ مسلسل تعاون کر رہے ہیں۔
اس کے نتیجے میں ملک معاشی استحکام کے دور میں داخل ہوا ہے جس کا ثبوت زرمبادلہ کے ذخائر کا بہتر ہونا اور شرح سود میں کمی ہونا ہے۔ گو جنرل مہنگائی خصوصاً بجلی کی مہنگائی ابھی تک موجود ہے لیکن حکومت اس معاملے میں جو کوششیں کر رہی ہے، وہ بھی نظر آ رہی ہیں۔
گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف نے جائزہ اجلاس سے خطاب کیا ہے، اس خطاب میں انھوں نے بجلی مزید سستی کرنے اور پیداواری منصوبوں کے حوالے سے لائحہ عمل پرعملدرآمد تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مستقبل میں کم لاگت بجلی منصوبوں کو ترجیح دی جائے۔
انھوں نے جائزہ اجلاس سے خطاب میں کہا کہ منصوبوں کے لیے مقامی وسائل کو ترجیح دی جائے۔ پن بجلی کے منصوبے ایسے ذرائع ہیں، جن سے صارف کو ماحول دوست اور سستی بجلی فراہم ہوگی۔ بجلی کی موجودہ استعداد کو بھی شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے، دنیا بھر میں ماحول دوست کم لاگت شمسی توانائی سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔
پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے جہاں شمسی توانائی کی وسیع استعداد موجود ہے۔ وزیر اعظم کو زیادہ ایندھن سے کم بجلی بنانے والے غیر موثر بجلی گھر ختم کرنے کے متعلق پیش رفت سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔
جس پرانھوں نے ہدایت کی زیادہ ایندھن سے کم بجلی پیدا کرنے والے فرسودہ بجلی گھرفوراً بندکریں، جس سے نہ صرف ایندھن کی درآمد پر خرچ ہونے والے قیمتی زر مبادلہ کی بچت ہوگی بلکہ صارف کے لیے بجلی کی لاگت بھی کم ہوگی۔
وزیراعظم نے واضح کیا ہے کہ ایسے تمام افسران جو بجلی اصلاحات میںرکاوٹ پیداکررہے ہیں، ان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے، ترسیل کے نظام میں اصلاحات پر عمل درآمد تیز اورعالمی معیار کے مطابق جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔
وزیر اعظم نے ہدایت کی کم لاگت بجلی کے انتخاب و ترسیل کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے نظام پر جلد عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔وزیر اعظم نے بجلی اصلاحات کے لیے اقدامات معینہ مدت میں مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔
ادھر ایک خبر کے مطابق وفاقی حکومت نے مزید 6 آئی پی پیز کے ساتھ بجلی خریداری معاہدے ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، جس سے 300 ارب روپے کی بچت ہو گی۔
میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ حکومت نے مہنگی بجلی پیدا کرنے والے مزید 6 آئی پی پیز کے ساتھ 2396 میگاواٹ بجلی خریداری کے معاہدے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے 300ارب روپے کی بچت متوقع ہے۔
یہ معاہدے ختم کرنے سے بجلی ٹیرف میں کمی ہوگی۔ قبل ازیں حکومت13آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کر چکی ہے۔
پاکستان میں کاروباری اور صنعتی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لیے توانائی کے تمام ذرایع سستے کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان اس وقت خاصی مہنگی بجلی پیدا کر رہا ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کے حوالے سے معاملات خوش اسلوبی سے آگے بڑھ رہے ہیں اور عنقریب اس کے اچھے اثرات سامنے آئیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ شمسی توانائی کا استعمال بھی بڑھ رہا ہے۔
خصوصاً پنجاب میں سولر انرجی کے استعمال کی شرح پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ پنجاب حکومت بھی اس سلسلے میں خاصا کام کر رہی ہے۔ شمسی توانائی سستی بھی ہے اور اس کے نقصانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ صوبائی سطح پر انرجی کے دیگر ذرایع پر بھی کام کیا جانا وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت کوئلے سے بجلی بنا رہا ہے۔ یہ بجلی ماحول دوست نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان گرین انرجی کی طرف زیادہ تیزرفتاری سے کام کا آغاز کرے۔
دیہات میں بائیو گیس انرجی کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس طریقے سے دیہی علاقے میں روشنی اور کھانے پکانے کے لیے سستی توانائی میسر آئے گی اور کسان کے اخراجات بھی کم ہوں گے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کمیٹی برائے آئی ٹی برآمدات و ترسیلات زر کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی ترقی میں شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت کلیدی اور آئی ٹی برآمدات زرمبادلہ کے حصول کا بڑا ذریعہ بن سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ آئی ٹی برآمدات کی مکمل استعداد کے حصول کے لیے دیرپا پالیسیوں اور اہداف پر مبنی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
دوران اجلاس بتایا گیا کہ 23 لاکھ سے زائد فری لانسرز کاآئی ٹی برآمدات میں حصہ 15فیصد ہے، ان میں صرف 38 ہزار کے بینک اکاؤنٹ ہیں، ان کی آمدنی کا بڑا حصہ ملک میں نہیں آتا، اس کے لیے ٹیکس چھوٹ دینے، ریموٹ ورکنگ کی درجہ بندی اور چھوٹی آئی ٹی کمپنیوں کے مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق ہر ہفتے صرف 500 نئے اکاؤنٹس کھل رہے، تمام فری لانسرز کواس عمل میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔
اجلاس میں روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے استعمال اور عالمی گیٹ وے پے پال تک رسائی پر زور اور فیصلہ کیا گیا کہ ایف بی آر، اسٹیٹ بینک، وزارت آئی ٹی، پاشا اور فری لانسرز کے نمایندوں پر مشتمل ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا جوکہ مسائل کی نشاندہی، شفافیت بڑھانے،تمام اسٹیک ہولڈرز کے اقدامات میں پیش رفت یقینی بنانے پر کام کرے گا۔
وزیر خزانہ نے شعبہ آئی ٹی کی ترقی کے حکومتی عزم کا اعادہ کرتے ہوئے تمام پارٹنرز پر زور دیا کہ وہ آئی ٹی برآمدات کے فروغ اور عالمی آئی ٹی صنعت میں فعال مسابقتی کردار کے لیے کام کریں۔
آئی ٹی میں جو نئی ایجادات اور جدتیں سامنے آ رہی ہیں، اس کی وجہ سے معاشی اور کاروباری ترقی کی رفتار خاصی تیز ہو گئی ہے۔ پاکستان کو اس شعبے میں مزید آگے جانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ درمیانہ اور نچلے طبقے کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے۔
یہ اضافہ اسمال بزنسز اور آئی ٹی کے ملاپ اور تعاون سے ممکن ہے۔ بھارت اور چین میں اس وجہ سے ہی درمیانے طبقے کے سائز میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کو اپنے ہنرمندوں کو بھی جدید ٹریننگ اور معلومات فراہم کرنے کا منصوبہ بنانا چاہیے۔
پنجاب میں راج مستریوں سے لے کر گھریلو الیکٹرک وائرنگ کرنے والے الیکٹریشنز اور پلمبرز کو ٹریننگ دینے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اگر پاکستان میں کنسٹرکشن انڈسٹری میں کام کرنے والے ٹھیکیدار، راج مستری، پلمبرز، الیکٹریشنز، ٹائل فکسرز اور اسٹیل فکسرز اپنے کام میں جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہوں تو کنسٹرکشن انڈسٹری میں انقلابی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔
ایک عمارت جو مکمل ہونے میں ایک برس لیتی ہے، اگر تربیت یافتہ ہنرمند کام کریں تو اس عمارت کو چھ ماہ میں بڑی آسانی سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔ اس سے کام کی رفتار بڑھے گی اور افرادی قوت کی آمدنی اور کام کی کوالٹی میں بھی اضافہ ہو گا۔
اس وقت پاکستان کی کنسٹرکشن انڈسٹری پرانے طریقے سے چل رہی ہے۔ شٹرنگ سے لے کر سیمنٹ کے پلستر تک میں ٹیکنالوجی کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے۔
ترقی یافتہ ممالک خصوصاً چین نے کنسٹرکشن انڈسٹری میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کنسٹرکشن مٹیریل کے حوالے سے بھی ایک میکنزم بنانا چاہیے۔
کنسٹرکشن میٹریل کے ریٹ مقرر ہونے چاہئیں اور یہ کام حکومتی سطح پر ہونا چاہیے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کنسٹرکشن مٹیریل کی قیمتیں تعین کرنے میں وفاقی یا صوبائی حکومت کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ مختلف کارٹلز اپنی مرضی سے ریٹ طے کرتے ہیں۔
اس وجہ سے کنسٹرکشن کاسٹ مسلسل مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ خاص طور سے امپورٹڈ مٹیریل کی قیمتیں مقرر کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ ہر برینڈ کی اپنی قیمت ہے۔ اس میں اصلی اور نقلی کی بھی کوئی پہچان یا گارنٹی نہیں ہوتی۔
حکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کرنی چاہیے۔ ایک دکاندار اگر چین سے درآمد کردہ کوئی آئٹم فروخت کر رہا ہے تو اس کی کوالٹی اور قیمت درج کرنے کی پابندی عائد کی جائے۔
اسی طرح اگر یورپ سے کوئی چیز منگوائی جا رہی ہے تو اس کی قیمت بھی مقرر ہونی چاہیے۔ اگر کوئی کمپنی مقامی طور پر کوئی آئٹم تیار کر کے اسے یورپ سے درآمد کردہ قرار دیتی ہے تو اس کے حوالے سے بھی قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ اس قسم کے کام کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔