1971 قتل عام مکتی باہنی نے کیا، الزام پاکستان پر لگا دیا، میجر(ر) ممتاز حسین شاہ

میری تعیناتی سلہٹ تھی، میجر ضیا نے چٹاگانگ میں لوگوں کا خون نکلوا کر مرتا چھوڑ دیا


خالد محمود December 15, 2024

اسلام آباد:

1971 کی جنگ میں بھارتی تربیتی یافتہ دہشتگرد تنظیم مکتی باہنی نے مشرقی پاکستان میں بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام کیا، اور جنگ میں پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جھوٹے، من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگائے گئے۔

دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی نے بے گناہ اور نہتے پاکستانیوں پر مظالم اور قتلِ عام کیا جس کا الزام اس نے پاکستان آرمی پر لگایا۔

1971 کی جنگ میں حصہ لینے والے پاک فوج کے میجر ریٹائرڈ ممتاز حسین شاہ نے 1971 کی جنگ کی آپ بیتی سناتے ہوئے کہا کہ "میں اکتوبر 1970 سے لے کر اگست 1971 تک سلہٹ سیکٹر میں تعینات رہا، جو بھی متحدہ پاکستان کے حق میں تھا، وہ مکتی باہنی کا دشمن تھا۔

مکتی باہنی بھارت میں ٹریننگ لے کر واپس مشرقی پاکستان جا کر حملے کرتی تھی۔ مکتی باہنی نے چٹاگانگ میں بنگالی میڈیکل سٹوڈنٹس کے ذریعے لوگوں کا خون نکالنے کا عمل انجام دیا۔ بنگالیوں کا زیادہ تر خون نکال کر انہیں موت کے دہانے پر پہنچا دیا جاتا تھا۔

پاک فوج نے جب اس علاقے کو کلیٔر کیا تو وہاں ایک سرکٹ ہاؤس موجود تھا جہاں خون جمع کیا جاتا تھا، میجر ضیاء الرحمن نے یہ عمل کرایا تھا۔ اس نے اپنے کمانڈنگ آفیسر کرنل جنجوعہ کو بھی شہید کیا۔

اسی نے ریڈیو پاکستان پر حملہ کر کے وہاں سے بنگلہ دیش ریڈیو کا آغاز کیا۔1981 میں جنرل ضیاء الرحمان کو قتل کر دیا گیا اور دو دن تک اس کی لاش وہیں پڑی رہی حالانکہ وہ اس وقت بنگلہ دیش کے صدر تھے۔

چٹا گانگ میں مکتی باہنی اور بھارتی فوج نے بہت سے لوگوں کو مارا جو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ دریائے کرنافولی کے کنارے ایک ہال تھا جو لاشوں سے بھرا ہوا تھا۔ بعد میں ہم نے وہاں سے ان لاشوں کو ریکور کیا۔

سینکڑوں خواتین کا ریپ کیا گیا۔ سلہٹ میں مکتی باہنی کے کنٹرول میں ایک تھانہ کوکلیر کرنے کا ٹاسک مجھے دیا گیا۔ مکتی باہنی پاک آرمی کی حمایت کرنیوالوں کو مارنے لگے۔ پورے گائوں کو یہ جھوٹ دکھایا گیا کہ پاکستان آرمی آئی اور اس نے لوگوں کو مارا ہے۔

تمام جرنلسٹ انڈیا گئے کیونکہ انہیں ڈھاکہ سے نکال دیا گیا تھا۔ بھارت میڈیا کو جو بھی بریفنگ دے رہا تھا، اسے ہی سچ تسلیم کر لیا گیا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں