اسلام آ باد:
تجزیہ کار شہباز رانا کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی اپنی کارکردگی تنزلی کا شکار ہے، ایف بی آر عوام سے ٹیکس جمع کرنے میں تیز مگر ٹیکس نیٹ بڑھانے پر کوئی خاص توجہ نہیں، صرف تنخواہ دار طبقہ ہی ایف بی آر کے نشانے پر ہے۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت نے بھی خرچے کم اور ٹیکس بیس بڑھانے کے بجائے بوجھ تنخواہ دار طبقے ڈال کر آنکھیں بند کر لیں۔
تنخواہ دار طبقے نے جولائی تا نومبر میں 198ارب روپے ٹیکس دیا جو پچھلے سال کے پانچ ماہ سے 72 ارب روپے یا 57 فیصد زیادہ ہے، تاجروں نے صرف13 ارب روپیہ ٹیکس دیا ہے۔
دوسری جانب جولائی تا نومبر میں آڈٹ سے حاصل ہونے والی آمدنی 16فیصد کم ہو کر 26 ارب روپے رہ گئی، آڈٹ سے وصولیاں بڑھانے کے بجائے ایف بی آر تنخواہ دار طبقے سے خود بخود ٹیکس جمع ہونے پر ہی خوش ہے۔
تجزیہ کار کامران یوسف نے کہا کہ چین کے بارے میں ایک بات مشہور ہے کہ اگر آج آپ چین کا دورہ کریں اور کسی شہر جائیں تو چھ ماہ بعد جب دوبارہ جائیں گے تو اس جگہ کو پہنچان نہیں سکیں گے، کیونکہ چین اس تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
چین کے دارالحکومت بیجنگ کو آج سے چند سال پہلے دنیا کا آلودہ ترین شہر کہا جاتا تھا، لیکن اب اگر آپ بیجنگ جائیں تو اس کا مقابلہ واشنگٹن، برسلز، یا مغربی ممالک کے کسی بھی دارالحکومت سے کر سکتے ہیں۔
بیجنگ مین اسموگ اور فوگ کا نام و نشان بھی نہیں ہے، چین اس وقت دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے، وہ وقت دور نہیں جب وہ پہلی بڑی معیشت بن جائے گا۔