(تحریر: عمار زہری)
اس بار کراچی میں منعقد ہونے والا انیسواں کتاب میلہ گویا ادب کے چاہنے والوں کےلیے ایک روشن چراغ تھا، جو ایک مہینے سے بجھتے شعلوں میں پھر سے جان ڈالنے کا باعث بنا۔ دل کی گہرائیوں میں اطمینان اور مسرت کی ایک انوکھی کیفیت پیدا ہوئی، جیسے صحرا کے تھکے ماندے مسافر کو یکایک کسی نخلستان کا سراغ مل جائے۔
یہ محض کتابوں کا میلہ نہ تھا بلکہ یہ ایک ایسا ادبی معجزہ تھا جہاں لفظوں کے متلاشی، دانش کے پروانے، اور علم کے متوالے اپنے خوابوں کے جہانوں کو حقیقت میں بدلتے دیکھ سکتے تھے۔ ہال کے اندر داخل ہونے کا لمحہ یوں تھا جیسے کسی عبادت گاہ میں قدم رکھا ہو، جہاں ہر کتاب اپنے اندر ایک جہاں سموئے ہوئے تھی۔ ہر کتاب کی خوشبو گویا ایک یادگار لمحے کی خوشبو تھی۔
لیکن، افسوس کا مقام یہ ہے کہ کتاب میلہ جس روحانی اور علمی بالیدگی کا ذریعہ ہونا چاہیے تھا، وہ سرمایہ داری کی بھینٹ چڑھ گیا۔ کاغذ کی قیمتوں میں بے جا اضافہ اور پبلشرز کی منافع خوری نے کتابوں کو عوام کی دسترس سے باہر کردیا۔ یہ المیہ صرف معاشی نہیں بلکہ سماجی اور ثقافتی بھی ہے، کہ کتاب جو انسان کی بہترین دوست ہے، اسے اس کی حیثیت سے محروم کیا جارہا ہے۔
ہمارا معاشرہ، جسے روشنی کی اشد ضرورت ہے، کتابوں سے دور ہورہا ہے۔ یہ ذمے داری صرف پبلشرز یا حکومت پر ہی نہیں بلکہ ہم سب پر عائد ہوتی ہے کہ کتاب کو اس کی اصل اہمیت واپس دلائیں۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو کتابیں انسان کی شخصیت کو نکھارتی ہیں، سوچ کو وسعت دیتی ہیں، اور اسے ایک بہتر انسان بناتی ہیں۔
افسوس! کتاب جو ہمیشہ سے علم و عرفان کی میراث تھی، آج صرف ایک تجارتی شے بن کر رہ گئی ہے۔ ہمیں اس روشنی کو اندھیروں میں گم ہونے سے بچانا ہوگا۔ یقیناً، کتابوں کی اہمیت صرف قیمتوں یا کاغذ کی بات نہیں، بلکہ یہ وہ سرمایہ ہے جو ہر نسل کو ایک نئی روشنی دیتا ہے۔
اگر واقعی عمدہ کاغذ اور اعلیٰ طباعت کے ساتھ کتاب شائع کرنی ہے تو ضرور کریں۔ کس نے منع کیا ہے؟ کتابیں چھاپ کر ان کی قیمت آسمان تک پہنچا دی جائے؟ یہ رویہ عام قارئین کو کتابوں سے دور کر دیتا ہے۔
ادب، علم اور حکمت کی روشنی عام کرنے کےلیے ضروری ہے کہ آپ اعلیٰ طباعت کی کتابیں شائع کریں اور ان کی قیمت اپنی مرضی سے رکھیں، مگر یہ بھی خیال رکھیں کہ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ بھی علم کے ان خزانوں سے محروم نہ رہ جائیں۔ ایسے لوگوں کےلیے سادہ کاغذ پر مناسب قیمت کی کتابیں شائع کی جائیں تاکہ ہر کوئی علم کے موتیوں سے مستفید ہوسکے۔ اور ایک اسپیشل ایڈیشن بھی ساتھ شائع کردیں جس میں عمدہ کاغذ ہو، خوبصورت ہارڈ کاپی سرورق ہو، یہ عمل نہ صرف قارئین کو فائدہ پہنچائے گا بلکہ لکھاری کی محنت کا حق بھی ادا ہوگا۔
لوگوں کو کتابوں سے دور مت کیجیے۔ بخدا، ہمیں کتابوں سے عشق ہے۔ چاہے وہ کتاب ’’خود سے خدا تک‘‘ کی مسافت طے کراتی ہو یا ’’میرا پاکستان‘‘ کی کہانی سناتی ہو، بخاری شریف کا علم دیتی ہو یا کسی افسانے کی صورت ہو۔
ہم، جو محدود آمدنی والے لوگ ہیں، اپنی خواہشات اور ضروریات پر سمجھوتہ کر کے کمیٹیاں ڈالتے ہیں، پیسے جوڑتے ہیں تاکہ سال کے آخر میں کتاب میلے سے کتابیں خرید سکیں۔ وہی کتابیں جو ہمارے ذہنوں کو روشن اور دلوں کو منور کرتی ہیں، ہمیں زندگی کے حقیقی مفہوم سے روشناس کراتی ہیں۔
خدارا، یہ ضرور سوچیے کہ ہم کہیں اپنے معاشرے کو اندھیروں کی طرف تو نہیں دھکیل رہے؟ کتابیں روشنی ہیں، زندگی ہیں، اور ہمیں ان کی اہمیت کا احساس ہونا چاہیے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔