شام کے فرعون ِ وقت کا زوال

حافظ الاسد کا تعلق اقلیتی فرقے، علوی سے تھا۔ وہ سیکولر سیاسی جماعت، بعث پارٹی کا راہنما تھا۔


سید عاصم محمود December 16, 2024

۸ دسمبر کی رات بنی نوع انسان کے تہذیبی وثقافتی مرکز سمجھے جانے والے ملک شام میں1971ء سے چلی آ رہی ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہو گیا جس کی بنیاد جنرل حافظ الاسد نے رکھی تھی۔

حافظ الاسد کا تعلق اقلیتی فرقے، علوی سے تھا۔ وہ سیکولر سیاسی جماعت، بعث پارٹی کا راہنما تھا۔ فضائیہ کا جنرل تھا مگر سیاست میں بھی حصہ لیتا رہا۔ اپنی ذہانت اور چالاکی کے سبب ترقی کرنے میں کامیاب رہا۔ یہاں تک کہ مارچ 1971ء میں شام کا صدر بن گیا۔

صدارتی بادشاہت

اب ہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ عوام کی فلاح وبہبود کرنے والی پالیسیاں بناتا ، مگر صدر حافظ کی بیشتر توانائی اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اور حکومت کو محفوظ رکھنے میں صرف ہونے لگی۔ حکومتی طاقت نے استحکام پایا تو اس کے بعد حافظ الاسد کی نافذ کردہ پالیسیوں نے بعث پارٹی اور ریاست کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا۔

اس نے 1973ء میں نیا آئین تشکیل دیا جس نے معاشرے میں بعث پارٹی کے "اہم کردار" کو دوبارہ تقویت بخشی اور نو بعثی انقلابی ریاست کو ایک شخصی "صدارتی بادشاہت" میں تبدیل کر دیا۔یوں حکومت کی تمام طاقتیں شامی صدر کے عہدے میں مرتکز ہو گئیں۔ فوج، پارٹی اور بیوروکریسی میں دائرہ اختیار بڑھانے کے بعد حافظ الاسد نے مختلف ریاستی اداروں کے اہم عہدوں پر علوی وفاداروں کو فائز کرکے اپنی گرفت مضبوط کر لی۔رفتہ رفتہ اس کے خاندان کے افراد معیشت، کاروبار اور بعثی فوج کے مختلف شعبوں میں بااثر بن گئے۔

حکمران طبقے کا راج

یوںریاست کے وسائل سے بنیادی طور پر حکمران طبقہ اور اس سے منسلک لوگ مستفید ہونے لگے۔ یہ تمام ترقی پذیر ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ تقریباً ہر ملک میں حکمران طبقے نے وسائل اپنی دسترس میں رکھے ہیں اور عوام کو کم ہی حصہ مل پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے، حکمران طبقہ تو جائز و ناجائز سرگرمیوں کے ذریعے امیر کبیر بن جاتا ہے، جبکہ عوام کی حالت زیادہ نہیں بدل پاتی۔امریکا، برطانیہ اور دیگر ترقی یافتہ ملکوں میں عوام کو وسائل تک رسائی حاصل ہے۔ اسی لیے وہاں زیادہ مساوات دیکھنے کو ملتی ہے اور عام آدمی بھی اتنی رقم ضرور کما لیتا ہے کہ بخوبی گذربسر کر سکے۔

قاتل حاکم

صدر حافظ الاسد نے ایک آمرانہ قدم یہ اٹھایا کہ اپنے مخالفین کو زور و زبردستی سے کچلنے لگا۔ اس نے حکومت پر تنقید کرنے پہ پابندی لگا دی۔ جو کوئی تنقید کرنے کی جرات کرتا، اسے مختلف طریقوں سے دق کیا جاتا۔ وہ تنقید جاری رکھتا تو موت اس کا مقدر بن جاتی۔ اس آمریت سے سنی اکثریت عاجز آ گئی تو کئی شہروں ، خصوصاً حما کے باسیوں نے حکومت کے خلاف مسلح تحریک چلائی۔ حافظ الاسد جنتا نے ٹینکوں اور طیاروں سے بم باری کر کے ہزاروں شامی ما رڈالے۔ یوں وہ اپنے ہی عوام کا قاتل حکمران بھی بن گیا۔

پالیسیاں جاری رہیں

 2000ء میں صدر حافظ چل بسا تو حکمران طبقے نے اس کے بیٹے، بشار الاسد کو نیا حاکم بنا دیا۔ اس نے بھی اپنے باپ کی آمرانہ اور عوام مخالف پالیسیاں جاری رکھیں جن کی مدد سے حکمران طبقے نے ریاست پر اپنی گرفت مضبوط رکھی تھی۔ حافظ الاسد نے اپنا حکومتی نظام ایک بیوروکریسی کے طور پر بنایا جس میں اپنی شخصیت کو سب سے طاقتور اور ممتاز رکھا۔

یہ چلن جدید شامی تاریخ میں غیر معمولی تھا۔ اسکولوں سے لے کر سرکاری بازاروں اور سرکاری دفاتر تک ہر جگہ حافظ الاسد کی تصاویر، پورٹریٹ، اقتباسات اور تعریفیں آویزاں تھیں۔ اور حافظ الاسد کو سرکاری طور پر "لافانی رہنما" اور "المقدس ‘‘ کہا جاتا ۔ حافظ الاسد نے عسکری خطوط پر شامی معاشرے کی تنظیم نو کی، اپنے تنخواہ دار میڈیا کے ذریعے مسلسل یہ پروپیگنڈا کراتا رہا کہ شام کو غیرملکی افواج سے خطرہ ہے۔ اس نے فوج کو عوامی زندگی میں مرکزی حیثیت دے ڈالی۔ صدر بشار نے انہی تمام پالیسیوں کو جاری رکھا۔

 بدترین مجرم

شام میں 2007 ء کے صدارتی انتخابات میں اعلان کردہ ووٹوں کے 99.82 فیصد جیتنے کے بعد بشار الاسد نے متعدد اقدامات کو نافذ کیا جس نے شام میں سیاسی اور ثقافتی جبر کو مزید تیز کر دیا۔ اسد حکومت نے شام میں رہنے والے متعدد مخالفین، دانشوروں، مصنفین اور فنکاروں کے خلاف سفری پابندیوں میں توسیع کی۔

انہیں اور ان کے اہل خانہ کو بیرون ملک سفر سے روک دیا۔ ستمبر 2010 ء میں دی اکانومسٹ اخبار نے شام کی حکومت کو "عرب ریاستوں میں بدترین مجرم" قرار دیا، جو سفری پابندیاں عائد کرنے اور لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کو محدود کرنے میں مصروف ہے۔ اس عرصے کے دوران حکومت نے انٹرنیٹ پر اپنی سنسرشپ کو سخت کرنے کے علاوہ متعدد صحافیوں کو گرفتار کیا اور آزاد پریس مراکز بند کر دئیے۔

خوف کی حکمرانی

دسمبر 2010ء سے تیونس میں آمریت اور کرپشن کے خلاف ’’عرب بہار‘‘ نامی آمریت مخالف انقلابوں کا آغاز ہوا جس نے کئی عرب ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عرب بہار کے آغاز پر بعثی شام کو عرب دنیا میں سب سے زیادہ پابندیوں والی پولیس ریاست سمجھا جاتا تھا۔ شہریوں، آزاد صحافیوں اور دیگر غیر مجاز افراد کی نقل و حرکت پر سخت ضابطوں کا نظام نافذ تھا ۔ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے اپنے 2010 ء کے پریس فریڈم انڈیکس میں شام کو چھٹا بدترین ملک قرار دیا تھا۔

بدامنی کی اس لہر کو دیکھتے ہوئے جو عرب دنیا میں پھیل رہی تھی، شام میں مارچ 2011 ء کے وسط سے بغاوت شروع ہونے سے پہلے مظاہرے نسبتاً معمولی تھے۔مارچ 2011 ء تک وہاں کئی دہائیوں تک سطحی طور پر سکون رہا جس کی بڑی وجہ خفیہ پولیس کا پھیلایا خوف تھا۔ یہ پولیس حکومت کے ہر نقاد کو پکڑ کر اسے شدید تشدد کا نشانہ بناتی تھی۔ یوں شامی عوام خوف کے ماحول میں جی رہے تھے۔کوئی حکومت پر تنقید کرنے کی جرات نہ کرتا۔

عوام کا غم وغصہ

شام میں سماجی ناانصافی میں کردار ادا کرنے والے عوامل میں عراقی تنازع کی وجہ سے پیدا ہونے والا سماجی و اقتصادی تناؤ شامل تھا۔ نیز اُس خطے میں اب تک کی ہونے والی سب سے شدید خشک سالی نے بھی صورت حال بگاڑ دی۔ کئی دہائیوں سے شام کی معیشت، فوج اور حکومت پر بعث پارٹی کی اشرافیہ اور الاسد خاندان کے وفادار علویوں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں