حکومتی ذرایع کے مطابق نومبر میں مہنگائی 6 سال کی کم ترین سطح 4.9 فی صد پر پہنچ گئی ہے جس کے بعد مرکزی بینک کے لیے شرح سود میں نمایاں کمی کرنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ مہنگائی کی شرح میں یہ کمی اسٹیٹ بینک کی توقعات کے مطابق رہی۔ 2018 میں دسمبر کے بعد موجودہ مہنگائی کے تناسب سے اس وقت سود کا پالیسی ریٹ15 فی صد ہے جو موجودہ مہنگائی کے تناسب سے زیادہ ہے ،اس لیے توقع ہے کہ شرح سود میں مزید کمی ہو سکے گی۔ مرکزی بینک دسمبر میں مزید مہنگائی کا امکان ظاہر کر رہا ہے۔
تازہ پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے جلد خراب ہونے والی اشیائے خوراک کی قیمتوں میں مہنگائی کی شرح 7.5 فی صد رہی۔ شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں مہنگائی میں معمولی فرق رہا۔
مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوؤں کے برعکس پہلی بار سبزیوں اور پھلوں کے نرخ سب سے زیادہ رہے اور ملک بھر میں سبزیوں کی قیمتیں ماضی میں اتنی کبھی نہیں رہیں جو نئے مالی سال کے بعد بڑھی ہیں جس سے غریبوں کے لیے تو کیا متوسط طبقے کے لیے بھی سبزیوں کی خریداری مشکل ہو کر رہ گئی ہے۔ کراچی میں اب یہ تاثر ہے کہ پہلے لاہور اورکراچی میں پھلوں سبزیوں کے نرخوں میں نمایاں فرق ہوتا تھا جو اب معمولی رہ گیا ہے۔
لاہور میں کراچی کے مقابلے میں دودھ سستا ہے اور دہی دودھ سے بیس روپے کلو زیادہ ہے، جب کہ کراچی میں دودھ کی قیمتیں تو انتظامیہ مقرر کر لیتی ہے مگر کراچی انتظامیہ نے دہی کی قیمت کبھی مقرر ہی نہیں کی اور دودھ فروشوں نے دہی کو اپنی اندھی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ کراچی میں انتظامیہ نے دودھ کا نرخ دو سو بیس روپے تو مقرر کیا مگر دہی پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے دودھ فروشوں نے دہی کی قیمت تین سو بیس روپے کلو سے بڑھا کر تین سو ساٹھ روپے کلو وصول کرنا شروع کردی جو لاہور کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے حالانکہ لاہور کے مقابلے میں کراچی میں دہی کا استعمال کم ہے مگر دودھ فروش ملک میں سب سے زیادہ مہنگی دہی کراچی میں فروخت کر رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی کا دودھ ملک میں سب سے طاقتور ہے مگر کس نرخ پر فروخت ہونے والا دودھ طاقتور ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ کراچی میں سرکاری نرخ دو سو بیس روپے کے برعکس دو سو روپے بھی دودھ فروخت ہو رہا ہے اور دہی کے نرخ بھی مختلف ہیں۔ ملک میں پہلا موقعہ ہے کہ سبزیوں کے نرخ آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں جب کہ گزشتہ سال یہ نرخ اتنے زیادہ نہیں تھے جتنے اس سال وصول کیے جا رہے ہیں۔
نہاری جو کراچی میں سب سے سستا سالن ہوا کرتی تھی اب متوسط علاقوں میں بھی پانچ سو روپے سنگل پلیٹ کے طور پر فروخت ہو رہی ہے۔ ہوٹلوں پر روٹی و نان کا وزن اور سالنوں کا معیار چیک کرنے کا کوئی سلسلہ ہے ہی نہیں۔ ہوٹلوں میں پوری پراٹھوں میں کون سا گھی استعمال ہو رہا ہے کوئی چیک کرنے والا ہے ہی نہیں۔ یہی لوٹ مار بار بی کیو کھانوں کی ہے وہاں بھی معیار کے نام پر منہ مانگے نرخ وصول کیے جا رہے ہیں جب کہ سرعام کھائی جانے والی خوراک کا معیارکوئی ادارہ چیک ہی نہیں کرتا۔سردی کے آغاز پر ہی کراچی میں فارمی انڈا تیس روپے اور دیسی انڈا پچاس روپے کا مل رہا ہے جس میں سردی بڑھنے سے قیمت مزید بڑھ جاتی ہے مگر گرمیوں میں انڈوں کے نرخوں میں نمایاں کمی نہیں ہوتی۔ مسالہ جات کے نام پر کیا فروخت ہو رہا ہے۔ گھی و آئل کا معیارکیا ہے وہ چیک کرنے کے لیے انتظامیہ کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے حالیہ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ملک میں کھانے پینے کی اشیا کی کوئی بھی سرکاری چیکنگ نہیں، زہر بیچا جا رہا ہے۔ اس اجلاس میں وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی پھر بھی شریک نہیں ہوئے اور ارکان نے ان کی غیر حاضری پر برہمی کا بھی اظہارکیا۔ اجلاس میں وزارت سائنس کے ماتحت اداروں کے سربراہوں کی عدم شرکت پر بھی اظہار افسوس کرتے ہوئے بی ایس کیو سی کے جرمانوں کی ادائیگی کے نظام کو ڈیجیٹائزیشن نہ کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ کرپشن اسی وجہ سے ہو رہی ہے۔
کھانے پینے کی اشیا چیک کرنے کا کوئی نظام نہیں، اچارکے نام پر زہر اور دودھ کے نام پر ٹی وائٹنر فروخت ہو رہے ہیں۔ ملک میں اشیائے خوردنی چیک کرنے کا ایک ادارہ بی ایس کیو سی تو موجود ہے مگر اس کا عملہ کوالٹی چیک ہی نہیں کرتا صرف کرپشن کرتا ہے۔پنجاب میں کئی سال قبل پنجاب فوڈ کنٹرول اتھارٹی بنائی گئی تھی، جس کی سربراہ ایک خاتون تھیں اور اتھارٹی کی کارکردگی سو فی صد بہتر تھی جو عوام کو زہر کھلانے والوں کو پسند نہیں تھی، اس لیے ان کا تبادلہ کرکے اتھارٹی کی کارکردگی تباہ کی گئی اور پھر بھی وہاں کچھ کام ہو رہا ہے اور سندھ کی اتھارٹی صرف نام کی ہے جس کے افسران ملاوٹ ختم کرانے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے جس کی وجہ سے سندھ فوڈ اتھارٹی برائے نام ہے جس کا عملہ مال بنانے میں مصروف ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد مہنگائی روکنے اور قیمتوں کے تعین کی ذمے داری صوبائی حکومتوں کی ہے اور سندھ میں بیورو آف سپلائی اور مارکیٹ کمیٹیوں نے قیمتوں کا تعین اور مہنگائی روکنا ہے جس میں یہ بھی ناکام ہے جو سبزیوں اور پھلوں کی مہنگائی نہیں روک سکی جس کی وجہ سے منڈی میں ماشہ خوروں اور شہر میں لٹیرے پھل و سبزی فروشوں نے کراچی میں مہنگائی کے ریکارڈ قائم کیے ہیں اور کراچی انتظامیہ سمجھ رہی ہے کہ مہنگائی واقعی کم ہو گئی ہے اس لیے وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے اور اس کی غیر ذمے داری کی سزا عوام بھگت رہے ہیں۔