شام میں دراندازی اور عالمی سازشیں

 اسرائیل اس وقت شام میں داخل ہو چکا ہے اور بڑی تیزی سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر رہا ہے۔


ایڈیٹوریل December 16, 2024

عرب لیگ نے ہنگامی اجلاس میں شام میں اسرائیل کی حالیہ دراندازی کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے عرب سلامتی، علاقائی اور بین الاقوامی امن کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ اس کارروائی کو 1974 کے معاہدے اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔

 اسرائیل اس وقت شام میں داخل ہو چکا ہے اور بڑی تیزی سے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر رہا ہے۔ بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے کے بعد اسرائیل شام کے اندر ایک غیر فوجی زون میں چلا گیا ہے جسے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بنایا گیا تھا، بشمول اسٹرٹیجک پہاڑ ہرمون کا شامی حصہ، جہاں اس نے ایک شامی فوجی چوکی پر قبضہ کر لیا۔

اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ وہاں رکنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور شام کی سرزمین میں دراندازی کو سرحدی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک محدود اور عارضی اقدام قرار دیتا ہے۔ اس نے شام کے اسٹرٹیجک ہتھیاروں کے ذخیرے پر بھی سیکڑوں حملے کیے ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن سمیت کئی عرب ممالک نے اسرائیل کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ بفر زون پر قبضے کی مذمت کی ہے جب کہ ابو محمد الجولانی نے شام ٹی وی کی ویب سائٹ پر شایع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’اسرائیلی دلائل کمزور ہو چکے ہیں اور اب ان کی حالیہ خلاف ورزیوں کا جواز نہیں بنتا۔ اسرائیلیوں نے واضح طور پر شام میں حدود کو عبورکیا ہے، جس سے خطے میں غیر ضروری طور پرکشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے۔‘‘

 شام، لبنان کا پڑوسی ہے اور شام سے بھاگنے والے بہت سے فوجی لبنان میں گھس گئے ہیں اور وہاں پناہ لیے ہوئے ہیں، جب کہ لبنان میں حزب اللہ کی پہلے ہی اسرائیل نے کمر توڑ دی ہے۔ حماس تو بالکل ہی کمزور ہو چکے ہیں۔ اب اسرائیل کے پاس امریکا اور یورپ کی بھرپور امداد ہے اپنے توسیع پسندی کے عزائم کو پورا کرنے کا بھرپور موقع آچکا ہے اور شام کا وہی حال کرنے جا رہا ہے جو اس سے پہلے امریکا اور یورپ، عراق اور لیبیا کا کر چکے ہیں اور ان کی اپنی خود مختار حیثیت تو ختم ہو چکی ہے اور وہاں کوئی باقاعدہ حکومت نام کی چیز باقی نہیں بچی۔ جو وسائل ہیں وہ لوٹے جا رہے ہیں عراق اور لیبیا کے تیل کی بڑی آئل کمپنیوں کے ذریعے لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔

امن عامہ کنٹرول سے باہر ہے، شام پر اسرائیل نے جواز بنایا ہے کہ وہاں کچھ باغی گروپ ہیں جو کہ ایران کے حمایتی ہیں اور کچھ ISIS کا حصہ ہیں اس لیے ان گروپس کا خاتمہ کرنا ضروری ہے۔ دراصل اسرائیل شام کے ان علاقوں پر قبضہ کر رہا ہے جو کئی برسوں تک مقبوضہ علاقے کہلائے ہیں۔ پھر یہ بھی سننے کو آرہا ہے کہ اسرائیل ان علاقوں میں لبنان کے لوگوں کو اور فلسطینیوں کو دھکیلنا چاہتا ہے تاکہ گولان کی پہاڑیاں اور ادھر سے غزہ مکمل طور پر اسرائیل میں شامل کر لیا جائے۔ ابھی تک کے حالات تو یہی بتا رہے ہیں کہ اسرائیل کی ان عزائم کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ شام اور یمن دونوں جگہ پر صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ سعودی عرب، ترکی، قطر بھی نیٹو ممالک کے موقف کے حمایتی اور حزب اللہ کے مخالف ہیں کیونکہ حزب اللہ ایران کا اتحادی ہے۔

اس طرح اگر اس وقت خطے کی صورتحال دیکھیں تو آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ دراصل یہ تمام دائرہ جو تنگ کیا جا رہا ہے یہ بڑی تیزی سے ایران کی طرف بڑھ رہا ہے اور 2025 ایران کے لیے بڑی اور نئی مشکلات لے کے آنے والا ہے۔ اس پورے خطے میں وہ واقعات رونما ہونے جا رہے ہیں جنھیں کئی برسوں سے کی جانی والی پیش گوئیوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شام اس وقت جن قوتوں کے ہاتھوں میں آچکا ہے اس سے نہ صرف اب شام کے اندر ان گروپوں میں اقتدار کی لڑائی شروع ہو جائے گی بلکہ لیبیا اور عراق کی طرح سول وار کا ماحول بن جائے گا۔ آج کا یہی نیو ورلڈ آرڈر ہے کہ مذہب کے نام پر دنیا میں تقسیم پیدا کر کے انھیں آپس میں لڑایا جائے اور ترقی یافتہ ممالک جلتی پر تیل کا کام کرتے رہیں اور اس دنیا کی آبادی کے 70 فیصد حصے کے وسائل پر اپنا ہاتھ بھی صاف کرتے ہیں۔ اصل میں تو یہ سب دنیا کے وسائل کو چند ہاتھوں میں لینے کی سرمایہ داری نظام کی بھوک پر مشتمل ہے۔

 حزب اختلاف میں سے سب سے آگے رہنے والا اور مزاحمتی گروپ حیات التحریر الشام HTS ہے جو کہ ایک دہشت گرد جہادی گروپ ہے، جس کا تعلق القاعدہ کے ساتھ جا جڑتا ہے۔ یہ گروپ نصرہ فرنٹ میں سے نکلا جو کہ شام میں القاعدہ کی برانچ تھی۔ گویا ایک آمر سے جان چھڑوا کے اب شام کو عالمی دہشت گردوں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ اس HTS کو امریکا اور مغرب کی بھرپور حمایت حاصل رہی ہے۔ شام میں اکثریت سنی مسلم ہیں جب کہ 13 فیصد شیعہ (علوی گروپ) ہیں۔

اس کے علاوہ انھی 13 فیصد میں اسماعیلی اور ڈروز بھی شامل ہیں۔ شام کی مجموعی آبادی تقریباً سوا دو کروڑ کے لگ بھگ ہے جس میں اس کی فوج کی تعداد ایک لاکھ ستر ہزار تھی جو کہ بشارالاسد کے بھاگ جانے کے بعد تتر بتر ہوگئی ہے اور اس وقت وہاں کسی قسم کی مدافعتی لڑائی نہیں ہے بلکہ یکطرفہ طور پر ان کے فوجی اڈوں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے گولان کی پہاڑیوں پر بفر زون کا کنٹرول بھی سنبھال لیا اور شام کے ساتھ 1974 کا معاہدہ بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ختم ہوگیا۔ گولان کی پہاڑیاں 60 کلومیٹر کی پتھریلی جگہ ہے جو دمشق کے جنوب مغرب میں 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اسرائیل نے یہ علاقہ شام سے 1967 کی چھ روزہ جنگ کے اواخر میں اپنے قبضے میں لیا تھا اور 1981 میں یکطرفہ طور پر اسے اپنا حصہ دکھایا۔ اسرائیل کے اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر تو تسلیم نہیں کیا گیا لیکن 2019 میں امریکا کی جانب سے اسے تسلیم کیا گیا تھا۔

 یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موجودہ دہشت گرد طاقتوں کو پیدا کرنے میں دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکا کا ہاتھ ہے۔ روس کو افغانستان میں شکست دینے کے لیے جو طاقتیں تیارکی گئیں انھوں نے پاکستان اور افغانستان کے معاشروں میں جمہوری اور روشن خیال عناصر کو تباہ و برباد کردیا۔ امریکا نے پاکستان میں ایسا ماحول پیدا کیا کہ ہر طرف مذہبی منافرت اور فرقہ ورانہ دہشت گردی پھیلتی گئی۔ یہ درست ہے کہ امریکا نے افغانستان میں روس کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرگیا، لیکن اس سے کیا حاصل ہوا؟ آج کا قوم پرست روس پھر سے دنیا کی بڑی طاقت بن کر ابھر رہا ہے اور امریکا کو للکار رہا ہے۔

پاکستان اور افغانستان کی مثالوں سے امریکا اور مغرب کو یہ سبق حاصل کرنا چاہیے تھا کہ عالمی سطح پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ایسے ہتھیار استعمال نہ کیے جائیں جو آخر میں اپنے ہی لیے تباہ کن ثابت ہوں۔ یہی عراق میں ہوا امریکی فوجیں عراق کو تباہ کرنے میں تو کامیاب ہو گئیں لیکن صدام کے عراق کی جگہ کوئی روشن خیال جمہوریت پسند ملک معرض وجود میں نہیں لا سکیں۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ آج کا عراق فرقہ ورانہ اور نسلی بنیادوں پر تقسیم ہو چکا ہے۔

بغداد میں ایران کی حامی شیعہ طاقتیں حکمران ہیں جب کہ ملک کے دوسرے حصوں میں داعش اور کرد جنگجو ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہیں، اگر امریکا کی پالیسی کا مطلب ایران کو گزند پہنچانا تھا تو وہ تو ہوا نہیں بلکہ اس کے حامی بغداد میں بر سر اقتدار آگئے ہیں۔ عراق کی جنگ میں لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ اسی طرح امریکا کی لیبیا اور شام میں دخل اندازی کے بھی منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ شام میں در اندازی کا مقصد اس ملک میں جمہوریت قائم کرنا ہرگز نہیں ہے۔ صدر اسد کو اس لیے نکالا گیا کہ وہ ایران کے اتحادی ہیں لیکن سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ اس فرقہ ورانہ جنگ سے امریکا کیسے مستفیض ہو سکتا ہے؟ اس امریکی حمایت نے داعش کو جنم دیا ہے جو کہ القاعدہ سے بھی بڑی دہشت گرد تنظیم بن کر ابھری ہے۔

 داعش کی دہشت گردی کی خالق وہ طاقتیں ہیں جنھوں نے مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ ورانہ تضادات کو عالمی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے استعمال کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ امریکا ایک ہی غلطی بار بار دہرا رہا ہے یعنی اپنے محدود فوری مفادات حاصل کرنے کے لیے ایسے طویل المیعاد مسائل پیدا کر رہا ہے جن کا اس کے اپنے پاس بھی حل نہیں۔ امریکا کے اندر بھی ریپبلکن پارٹی کے حوالے سے مذہبی انتہا پسند صلیبی جنگوں کا طبل بجانے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ جہاں جہاں بھی ریاستی اداروں کو مذہبی انتہا پسندی کے لیے استعمال کیا جائے گا وہاں داعش جیسی بھیانک طاقتیں جنم لیں گی۔

مجموعی طور پر شام کی جنگ عالمی اور علاقائی طاقتوں کے مفادات، قدرتی وسائل کی تقسیم اور سیاسی توازن برقرار رکھنے کی کوشش کا نتیجہ ہے۔ شام نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سیاست میں بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ روس، ایران، ترکی، امریکا اور عرب ممالک کے مفادات اور ان کی حکمت عملیوں نے اس جنگ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جنگوں کا ایک اہم سبب فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کا قبضہ اور عرب ممالک کے تیل پرکنٹرول حاصل کرنے کے سامراجی مفادات رہے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں