سُریلے بول (پہلا حصہ)

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے


رئیس فاطمہ December 16, 2024
[email protected]

اچھی کتابیں، اچھی موسیقی اور اچھی فلمیں مجھے بہت متاثر کرتی ہیں۔ خاص طور سے موسیقی وہ بھی نیم کلاسیکی یہ شوق مجھے ورثے میں ملا ہے بلکہ تینوں ہی شوق مجھے اپنے والد سے ورثے میں ملے ہیں۔ چلیں، آج موسیقی کی بات کرتے ہیں۔ میرے والد نے موسیقی کی تعلیم استاد بندوخاں اور دیگر استادوں سے حاصل کی۔

مشہور ستار نواز سے ستار بجانا سیکھا، وائلن بجانا سیکھا اور پیانو بھی لیکن سب کچھ شوق کی خاطر کیا، پیشہ نہ بنایا، البتہ شوق کی خاطر اپنے دوست زیڈ۔اے بخاری کے ساتھ مل کر شملہ کے تھیٹر میں میوزک بھی دیتے تھے۔ نہ بخاری صاحب نے موسیقی کو ذریعہ معاش بنایا نہ والد صاحب نے۔ وہ سول سروس میں تھے اور سول ایوی ایشن میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ بخاری صاحب ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔

والد صاحب صبح فجر کے وقت اٹھتے تھے، اتنی دیر میں والدہ کیتلی میں چائے دم کر کے ٹی کوزی چڑھا دیتی تھیں، اس وقت مشرقی پاکستان سے چائے کی پتی آیا کرتی تھی، جس کی مہک اور ذائقے کا جواب نہیں تھا۔ والدہ اور دادی ہم تینوں بہن بھائیوں کو بھی اٹھا دیتی تھیں، نماز سے فراغت کے بعد بیڈ ٹی پیتے اور پھر سب اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں ہو جاتے ہیں، اسکول کے لیے اور دونوں بڑے بھائی کالجوں کے لیے، ریڈیو بھی صبح ہی کھل جاتا۔ لیکن ہمیں سننا نصیب نہ ہوتا۔ البتہ شام کو جب والد صاحب اپنے کمرے میں وائلن سے جی بہلاتے یا کبھی ستار بجاتے تو ہم سب ان کے ساتھ ہوتے۔ اسی طرح ذوق پروان چڑھتا رہا۔

گیت اور غزلوں کی یوں تو ایک بڑی تعداد ہے جو مجھے پسند ہے جن میں سیمی کلاسیکل کی تعداد زیادہ ہے لیکن صرف ان گیتوں اور غزلوں کا ذکر کروں گی جو میرے حافظے میں زندہ ہیں، سب سے پہلے میں ذکر کروں گی فلم ’’ برسات کی رات‘‘ کی ایک قوالی کا جس کے بول ہیں:

نہ توکارواں کی تلاش ہے نہ تو ہم سفر کی تلاش ہے

میرے شوق خانہ خراب کو کسی رہ گزر کی تلاش ہے

میرے نامراد جنون کا اب ہے علاج کوئی تو موت ہے

جو دوا کے نام پہ زہر دے اسی چارہ گر کی تلاش ہے

یہ قوالی، محمد رفیع، مناڈے، ایس ڈی باتش، آشا اور سدھاملہوترا نے گائی ہے اورکمال کر دیا ہے۔ وہ وہ تان پلٹے لگائے ہیں کہ بس سنتے ہی چلے جائیے۔ خاص کر رفیع صاحب کی آواز میں یہ بند لاجواب ہے،موسیقی روشن کی ہے۔ یہ فلم بنی تھی 1960 میں۔ شاعر تھے ساحر لدھیانوی، ڈائریکٹر تھے پی ایل سنتوشی، اداکار تھے مدھوبالا، بھارت بھوش، شیاما۔ خاص کر قوالی کا یہ بند بہت گہرا اور معنی آفریں ہے:

یہ عشق عشق ہے عشق عشق

اللہ اور رسول کا فرمان عشق ہے

عشق موسیٰ عشق کوہِ طور ہے

عشق سرور عشق ہی منصور ہے

یہ عجیب قوالی ہے جو سننے والوں کو ہمیشہ اچھی لگتی ہے۔ خاص کر رفیع صاحب نے اور مناڈے نے کمال کر دیا ہے۔ خاموشی میں قوالی سننے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ دوسرا گیت امراؤ جان فلم کا ہے، فلم ساز ہیں مظفر علی، موسیقار ہیں خیام، اداکارہ ہیں ریکھا۔

جستجو جس کی تھی اس کو تو نہ پایا ہم نے

اس بہانے سے مگر دیکھ لی دنیا ہم نے

ریکھا نے بے مثل اداکاری کی ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ گیت پکچرائز کرواتے وقت ریکھا نے امراؤ جان ادا کو اپنے اندر اتار لیا تھا۔ گلوکارہ تھیں آشا بھونسلے۔ اس فلم کو دیکھتے ہوئے صاحب دل لوگوں کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔ آشا نے بھی جس درد اور یاسیت سے گیت گایا ہے وہ لاجواب ہے۔

اور اب بات کرتے ہیں لازوال فلم ’’پاکیزہ‘‘ 1972 میں ریلیز ہوئی، مینا کماری کی موت کے بعد۔ کوئی ایک گیت ہو تو کہیں۔ سارے کے سارے گیت اور رقص لاجواب ہیں یہ فلم اپنی بہترین کہانی اور جان دار موسیقی کی بنا پر ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ گیت لتا نے گائے ہیں اور ہیروئن ہیں مینا کماری۔ حالانکہ مینا کماری اور کمال امروہوی کے تعلقات بہت خراب ہو چکے تھے، لیکن مینا کماری نے باوجود اس کے فلم مکمل کروائی، ذاتی طور پر مجھے اس کے سبھی گیت پسند ہیں، لیکن اس گیت کا جواب نہیں۔ یہ ایک کلاسیکی گیت اور کلاسیکی رقص ہے۔ بول ہیں:

ٹھارے رہسیواہ بانکے یار

اس گیت پر مینا کماری نے بہت اچھا رقص کیا ہے۔ افسوس کہ وہ اس فلم کی کامیابی کو نہ دیکھ سکیں، آمدنی اور مقبولیت کے اعتبار سے اس فلم نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے اور اب ذکر کروں گی اقبال بانو کی گائی ہوئی ایک غزل اور ایک نظم کا۔ یوں تو اقبال بانو نے فلمی گیت بھی گائے ہیں دوسری بہت سی غزلیں بھی گائیں ہیں لیکن مجھے ان کی یہ دو چیزیں بہت پسند ہیں، پہلی ہے فیض احمد فیض کی نظم ’’ہم دیکھیں گے‘‘

لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

جب تخت گرائے جائیں گے

جب تاج اچھالے جائیں گے

وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے

جو لوحِ ازل میں لکھا ہے

جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں

روئی کی طرح اڑ جائیں گے

ہم محکوموں کے پاؤں تلے

یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی

فیض صاحب نے بڑے دل سے یہ نظم لکھی ہے لیکن آج وہ زندہ ہوتے تو انھیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا کہ سب خوش فہمی ہے نہ یہاں تاج اچھالے جائیں گے، نہ تخت گرائے جائیں گے، بلکہ لفظوں کے بازی گروں کے لیے قید و بند کی صعوبتیں انعام کے طور پر دی جائیں گی، ہونٹوں کو سی دیا جائے گا، قلم پر پابندی لگ جائے گی، تخت و تاج مزید ترقی پائیں گے۔ بس یہ شاعر کی خوش فہمی ہے یا اقبال بانو کی گائیکی کا کمال کہ انھیں ہر شعر پر ڈھیروں ستائشی تالیاں سننے کو ملیں گی۔

دوسری غزل باقی صدیقی کی ہے جس کے بول ہیں:

داغ دل ہم کو یاد آنے لگے

لوگ اپنے دیے جلانے لگے

آخری شعر کمال کا ہے، اس میں ہجرت کا دکھ ہے جو محسوس کیا جاسکتا ہے۔

ایک پل میں وہاں سے ہم یوں اٹھے

بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

اقبال بانو نے اس غزل کو محسوس کر کے گایا ہے اور یہ غزل ہے خواجہ میر درد کی جسے فلم ’’بازار‘‘ میں سیریا پاٹھک پہ فلمایا گیا ہے۔ آواز ہے لتا کی، موسیقار ہیں خیام، ڈائریکٹر ہیں ساگر سرحدی۔ فلم میں کام کیا ہے سمیتا پاٹل، سیریا پاٹھک، فاروق شیخ اور نصیرالدین شاہ نے۔ یہ ایک آرٹ مووی ہے، سننے کی چیز ہے لتا نے گایا بھی بہت اچھے طریقے سے اور دیگر اداکاروں کی ایکٹنگ بھی لاجواب ہے۔ فلم کی بنیادی کہانی میں حیدرآباد دکن کا کلچر اور غربت ہے۔

ایک اور گیت کی بات کریں گے یہ بھی آرٹ مووی ہے،گرودت کی فلم ہے ’’صاحب بی بی اور غلام‘‘ اس میں مینا کماری اور گرودت ہیں لیکن یہ گیت ہے جس پر مینو ممتاز نے رقص کیا:

ساقیا آج مجھے نیند نہیں آئے گی

سنا ہے تیری محفل میں رت جگا ہے

اس گیت پر ناقابل فراموش رقص کیا ہے، مینو ممتاز نے اور آشا نے اسے اپنی آواز دی۔ یہ فلم 1962 میں بنی تھی اور موسیقار ہیں ہیمنت کمار۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں