تاریخِ اسلام ہمیں بتاتی ہے کہ شام خوبصورت اور خوشحال ہونے کے باوجود کبھی پُر امن اورپُر سکون نہیں رہا ۔ نہ اُمویوں کے دَور میں ، نہ عباسیوں کے زمانے میں اور نہ ہی عثمانیوں کی وسیع ترین سلطنت کے ایام میں ۔ یہ اُمویوں کا شام ہی تھا جس کے پایہ تخت، دمشق، میں بیٹھ کر یزید اوّل نے سیدنا حضرت امام حسینؓ کو کربلا کے میدان میں شہید کروایا تھا ۔شام اور دمشق آج بھی شکستہ اور لخت لخت ہے ۔ بشارالاسد کی شکست اور فرار کے بعد شام آٹھ متحارب گروہوں میں بَٹ چکا ہے ۔
آخری شامی صدر کے ڈھے جانے کے باوجود اسرائیل مسلسل شام کے مختلف حصوں پر تباہ کن حملے کررہا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اسرائیل سقوطِ دمشق کے بعد اب تک شام پر 400سے زائد حملے کر چکا ہے ۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ شام اب جَلد کبھی نہ اُٹھ سکے ۔ اِسی نیت سے صہیونی ائر فورس نے شامی نیوی ، کئی شامی اسلحہ کے ڈپو اور شامی ائر فورس کو بالکل ناکارہ بنا دیا ہے ۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ شام میں ایرانی قیادت میں بروئے کار ’’مزاحمتی محور ‘‘ یا Axis of Resistance کے تمام عناصر بھی بکھر گئے ہیں ۔ اِن عناصر میں ایران، حماس، حزب اللہ ، لبنان ، یمن کے ’’حوثی‘‘ اور رُوس شامل تھے ۔ آج شام اِن سے خالی ہو چکا ہے ۔
اِس شکستگی اور ہزیمت سے ایران کو بڑادھچکا پہنچا ہے ۔ اِسی لیے ایران کے سپریم کمانڈر، جناب آئیت اللہ خامنہ ای، ارشاد فرما رہے ہیں:’’ امریکا اور اسرائیل نے مل کر شامی حکومت کاخاتمہ کیا ہے۔‘‘ ایران کا موقف ہے کہ دمشق پر قابض ہونے والے باغی گروہHTSاور اِس کا سربراہ، ابو جولانی، دراصل اسرائیل اور امریکا کے ساتھی اور ساجھی ہیں ۔
ثبوت کے طور پر ایرانی میڈیا کا بالاصرار کہنا ہے کہ احمد حسن الشرع المعروف ابوجولانی نے سی این این ، سی بی ایس اور بی بی سی کو جتنے بھی انٹرویو دیے ہیں ، کسی میں بھی اسرائیل کی مذمت کی گئی ہے نہ فلسطین و غزہ کے مجاہدین کی حمائت کا شائبہ سامنے آیا ہے ۔ ایران کے تمام بڑے بڑے اخبارات (مثال کے طور پر ’’کیہان‘‘ اور ’’وطنِ امروز‘‘ وغیرہ)کے اداریوں میں بھی سقوطِ دمشق پر سخت غم و غصے کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ امریکا و اسرائیل اور HTS کی ملی بھگت کی مذمت کی جارہی ہے ۔
بشار الاسد کے ملک سے فرار ، شامی سرکاری فوجوں کے بکھر جانے اور شامی دارالحکومت پر باغی گروہوں کے بڑے سرغنہ ( ابو محمد جولانی) کے قبضے کے بعد عالمی خفیہ اداروں کے سربراہوں کی دمشق بارے دلچسپیاں زیادہ بڑھ گئی ہیں ۔ہر کوئی اپنی برہنہ آنکھ سے جاننا چاہتا ہے کہ شکست خوردہ اور شکستہ شام کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جارہا ہے ۔نَو منتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ ’’ہمارا شام کی لڑائی اور حالات سے ، فی الحال ،کوئی لینا دینا نہیں۔‘‘ لیکن سی آئی اے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ’’ہم سقوطِ دمشق کے بعد وقوع پذیر ہونے والے حالات سے ہرگز لاتعلق نہیں رہ سکتے ۔‘‘جب کہ برطانوی انٹیلی جنس کی سربراہ(Ann Keast Butler) کہتی ہیں کہ ’’ابھی شام بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتاکہ باغی گروہ کیا شکل اختیار کریں گے ۔ ابھی ہم شام اور HTS کا، مگر، بغور جائزہ لے رہے ہیں ۔‘‘
تاریخ میں بعض اوقات ایسے واقعات رُونما ہوتے ہیں جو اپنے وجود کے اعتبار سے بے پناہ مماثلت اور معنویت رکھتے ہیں ۔ مثال کے طور پر: 15اگست 2021کو سقوطِ کابل ہُوا تو چند دنوں بعد ہی ممتاز پاکستانی خفیہ ادارے کے سربراہ، فیض حمید،کابل میں دیکھے گئے تھے ۔ میڈیا نے اِسی پس منظر میں ایک فوٹو نشر اور شایع کی تھی ۔ اس تصویر میں سب دیکھ سکتے تھے کہ فیض حمید صاحب کابل کے ایک پنج ستارہ ہوٹل کی لابی میں کھڑے ہیں ۔
اُن کے ساتھ کابل میں پاکستانی سفیر، منصور احمد خان، بھی کھڑے نظر آ رہے ہیں ۔ فیض حمید کے ایک ہاتھ میں چائے کا کپ تھما ہُوا ہے اور وہ مسکراتے ہُوئے صحافیوں کے سوالات کا مختصر طور پر جواب دیتے ہُوئے، مبینہ طور پر، کہہ رہے ہیں:Don,t worry, everything will be okay. (پریشان نہ ہوں۔ ہر شئے ٹھیک ہو جائے گی)۔تین سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے ، مگر فیض حمید صاحب کی توقع ابھی تک پوری نہیں ہو سکی ۔ کابل میں ہر شئے پاکستان کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ اب سقوطِ دمشق ہُواہے تو شام کے ہمسایہ ملک، ترکیے ، کے خفیہ ادارے کے سربراہ دمشق پہنچ گئے ہیں ۔
ممتاز امریکی صحافتی ادارے ’’بلوم برگ‘‘ نے 12دسمبر 2024 کو خصوصی خبر شایع کرتے ہُوئے دُنیا کو بتایا ہے کہ سقوطِ دمشق کے پانچ روز بعد ،11دسمبر، کو ترکیے کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ، ابراہیم کلین (Ibrahim Kalin)دمشق پہنچے اور انھوں نے وہاں مبینہ طور پر اُن متحارب گروہوں سے خاص طور پر ملاقات کی جنھیں ترکیے کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ابراہیم کلین کے اِس دَورے بارے کہا جارہا ہے کہ وہ نئے شامی باغیوں اور قابض فورسز(HTS) سے مل کر دراصل شام کے سرحدی علاقوں میں ترکیے کے خلاف بروئے کار کُردوں کے مسلّح گروہوں(SDF) کا ٹیٹوا دبانے کا پروگرام بنا رہے ہیں ۔
اب مسئلہ یہ آپڑا ہے کہ امریکا ایک طرف تو ترکیے کا(نیٹو میں) اتحادی ہے اور دوسری طرف امریکاSDFکا بھی اتحادی ہے ۔ امریکا نے SDFسے مل کر شام میں ’’داعش‘‘ اور ’’القاعدہ‘‘ کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے ۔ SDFنے ’’داعش‘‘ کے ہزاروں دہشت گرد جنگی قیدی بھی بنا رکھے ہیں ۔ سقوطِ دمشق کے بعد SDFکو سپورٹ کرنا امریکا کے لیے مشکل ہورہا ہے ۔ شاید اِسی لیے SDFکے سربراہ ( مظلوم کوبانی) نے امریکیوں سے یوں گلہ کیا ہے : سقوطِ دمشق کے بعد آپ لوگوں نے ہمیں تنہا چھوڑ دیا ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ شامی حکومت کے خاتمے اور HTSکے ابو جولانی کے اُبھرنے پر امریکا اور مغربی یورپ کو مشکلات پیش آ رہی ہیں کہ وہ کیونکر اور کس منہ سے ابو جولانی اور اس کے گروہ( حیات التحریر الشام یعنیHTS) کی حمائت کریں؟ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب امریکا نے ابوجولانی کے گروہ کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دے رکھا تھا ۔
امریکا ہی نے ابو جولانی کے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کررکھی تھی۔ اب مجبوراً اور منافقت کا سہارا لیتے ہُوئے امریکی اور مغربی میڈیا ، اپنے اپنے حکمرانوں کے اشارے پر، ابو جولانی کے گروہ کو’’دہشت گرد‘‘ لکھنے اور کہنے کے بجائے ’’فائٹر‘‘ کہہ اور لکھ رہا ہے ۔ نئے شامی باغیوں سے مفادات جُڑے ہیں تو امریکی اور مغربی میڈیا میں HTSاور ابوجولانی کو ’’ماڈریٹ شدت پسند‘‘ کہا جانے لگا ہے ۔ یہ بھی کہا جانے لگا ہے کہ HTSاور ابوجولانی ’’انتہا پسند اور تنگ نظر‘‘ افغان طالبان سے قطعی مختلف ہیں ۔ اور یہ کہ HTSمیں ’’نئے عالمی رجحانات‘‘ کو اپنانے کا عنصر پایا جاتا ہے ۔
اِسی لیے تو ابو جولانی کسی خوف اور ڈر سے ماورا ہو کر مغربی و امریکی الیکٹرانک میڈیا کو انٹرویوز دے رہے ہیں ، اِس حالت میں کہ ابوجولانی کے دائیں بائیں ایسے لوگ بٹھائے جاتے ہیں جو ٹائی اور سوٹ بوٹ میں ملبوس ہوتے ہیں ۔کیا اِن حربوں سے امریکی اور مغربی میڈیا ، اپنے مفادات کے لیے،دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہ رہے ہیں؟ اہلِ نظر نے مگر ساتھ ہی یہ سوال بھی بروقت اُٹھائے ہیں کہ اگر ابوجولانی اور HTS افغان طالبان سے مختلف اور’’ ماڈریٹ شدت پسند‘‘ ہیں تو ابوجولانی کے حکم پر بشار الاسد کے والد ، حافظ الاسد، کے مقبرے کو HTS نے نذرِ آتش کیوں کیا ؟ HTS نے شام کے صوبے ’’التاکیہ‘‘ کے قصبے ’’ قرداہا‘‘ میں حافظ الاسد، اُن کی بیوی انیسہ اور اُن کے بیٹے باسل کی قبروں کو بیک وقت آگ لگا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ عالمی میڈیا نے تینوں کی قبروں سے اُٹھتے شعلے دکھائے ہیں۔ کیا یہ عمل انتہا پسندی اور شدت پسندی سے کسی طرح بھی کم ہے ؟