متحدہ پاکستان کے قائدین کی غلطیوں کو عوام درست کررہے ہیں

 کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار  خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

فوٹو : فائل

بنگلہ دیش کے قیام کو 2021 ء میں پچاس برس ہو رہے تھے۔ پاکستان کو تشویش تھی کہ بنگلہ دیش اپنی آزادی کی گولڈن جوبلی منائے گا اور بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ایک بار پھر دنیا بھر میں شدت کے ساتھ زہر اُ گلے گا۔

پاکستان کی وزارت ِ اطلاعات و نشریات اُس متوقع زہریلے پر وپیگنڈے کے مقابلے کے لیے پیش بندی کر رہی تھی ۔ اگرچہ ہماری اسٹرٹیجی اور منصوبہ بندی کے لیے بھی کچھ نہ کچھ مواد موجود تھا مگر یہ حقیقت ہے کہ اِن دونوں ملکوں نے مل کر بنگلہ دیش کی گولڈن جوبلی پر عالمی سطح پر بہت زہر ُاگلا، مگر کس کو معلوم تھا کہ 2024 ء میں خود کو آہنی شخصیت کہلانے والی بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد شدید عوامی احتجاجی تحریک کے نتیجے میں صرف چار گھنٹے کے الٹی میٹم پر ملک سے فرار ہو جائیں گی اور بھارت میں اُسی اگرتلہ کے مقام پر پہنچیں گی جہاں اُن کے ولد شیخ مجیب الرحمن نے بنگلہ دیش کی آزادی کی مہم کا آغاز کیا تھا۔

 16 دسمبر 1971 ء ہماری تاریخ کا بلاشبہ ایک تاریک دن ہے ، لیکن یہ اغلاط کی ایک مثلث ہے جس میں شیخ مجیب الرحمن ، بھٹو اور جنرل یحییٰ خان تینوں ہی قصوار ہیں۔ جنرل یحییٰ خان کو فوجی ایکشن نہیں لینا چاہیے تھا اور اپنے ایل ایف او کے موقف میں تبدیلی لاکر وقت دینا چاہیے تھا۔

قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس کے تین مہینے کی مقررہ مدت میں آئین بنانے کی شق کو ختم کر کے زیادہ مدت مقرر کر تے۔ تاریخ بھٹو سے یہ سوال کرتی رہے گی کہ اُن کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے مشرقی پا کستان سے کسی ایک نشست پر بھی اپنا امید وار کیوں کھڑا نہیں کیا۔ پھر شیخ مجیب الرحمن اپنے چھ نکات میں سے ایک دو نکات سے دستبردار ہو جا تے یا ایک دو نکات کو موخر کردیتے تو بھی صورتحال ایسی نہ ہوتی۔ بہرحال بنگلہ دیش بن گیا یہ آبادی کے اعتبار سے اُس وقت انڈو نیشیا کے بعد دنیا کا دوسرابڑا اسلامی ملک تھا۔ پاکستان کی آبادی اُس وقت بنگلہ دیش سے کم تھی۔

پاکستان اُس وقت تاریخ کے خطر ناک موڑ سے گذر رہا تھا۔ جنگ کے آغاز پر جب بھارت نے مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں پر حملہ کر دیا تو ہنگامی طور پر ذولفقار علی بھٹو کو وزیر خارجہ بنا کر اقوام متحد ہ میں بھیجا گیا جہاں وہ فوری طور پر جنگ بندی کروانا چاہتے تھے، مگر یہ اُس وقت ممکن نہیں تھا۔ وہ قرارداد کا مسودہ پھاڑ کر واپس پاکستان لوٹ آئے، جہاں 20 دسمبر 1971 ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو صدر پاکستان اور چیف مارشل لا ایڈ منسٹر بنا کر اقتدار اُن کے حوالے کر دیا گیا۔

انہوں نے فوری طور پر قوم کو حوصلہ دیا اور معاملات کو طے کر نے کے لیے سعودی عرب ، لیبیا اور عرب ملکوں کا چھ ر وزہ طوفانی دورہ کیا۔ چین سے مدد مانگی۔ چین کو تھوڑا عرصے پہلے ہی اقوام متحد ہ کی رکنیت اور سیکیورٹی کونسل میں ویٹو پاور پاکستان کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے ملا تھا۔ چین نے اُس وقت تک بنگلہ دیش کو اقوام متحدہ کی رکنیت دینے کی راہ میں رکاوٹ ڈالے رکھی جب تک بھٹو نے خارجہ سطح پر معاملات اور مسائل کو بنگلہ دیش اور بھارت سے حل کرانے کا راستہ ہموار نہیں کر لیا۔ 1973 ء میںپاکستان دوبار اپنے پاؤں پر کھڑا ہو چکا تھا۔

1973ء میں عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے عرب ملکوں کی مدد کی اور یہاں اپنی پوزیشن خارجی اقتصادی بنیادوں پر مضبوط کر لی۔ پاکستان میں 22 فروری 1974 ء کو لاہور میںہونے او آئی سی کی تنظیم کا سربراہی اجلاس ہوا اور اس میں بنگلہ دیش کو تسلیم کر لیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمن پا کستان کی دعوت پر اس کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور آئے تھے اور اس کے بعد شیخ مجیب الرحمن کی دعوت پر ذوالفقار علی بھٹو نے ایک بڑے وفد کے ہمراہ بنگلہ دیش کا دورہ کیا جس میں اِن کے ہمراہ انقلابی رومانی شاعر فیض احمد فیض بھی تھے، جن کی شاعری سے شیخ مجیب الرحمن بھی ہمیشہ سے متاثر رہے تھے۔

شیخ مجیب الرحمن نے اس موقع پر فیض احمد فیض سے طنزاً کہا آپ تو مظلوموں کی آواز ہیں ہم پر بھی تو کچھ لکھئے تو واپسی پر فیض احمد فیض نے ’ڈھاکہ سے واپسی پر‘ کے عنوان سے ایک نظم کہی تھی جو اُس قوت کی صورت حال پر بہترین تبصرہ بھی ہے اور آج کے روشن امکانات کی پیشگوئی بھی:

 ہم کہ ٹھہرے اجنبی کتنی مدارتوں کے بعد

 پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد

 کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

 خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

 تھے بہت بے درد لمحے ختم ِدردِ عشق کے

 تھیں بہت بے نور صبحیں مہرباں راتوں کے بعد

 دل تو چا ہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی

 کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد

 اُن سے جو کہنے گئے تھے فیض، جاں صدقہ کیے

 اِن کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

9 اپریل 1974 ء کو بھارت ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں ایک سہہ فریقی معاہدہ طے پا گیا اور بعد میں معاملات بہتر ہو نے لگے ۔ بنگال کا تاریخی پس منظر یوں ہے کہ جب 1707 ء میں اورنگ زیب عالمگیر کا انتقال ہو گیا تو مغلیہ سلطنت پہلے اورنگ زیب کے تین شہزادوں میں تقسیم ہوئی۔

اسی زمانے میں بنگال ایک ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ اُس زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی نہ صرف ہندوستان میں آچکی تھی بلکہ بنگال پر قبضے کی کوششیں کرنے لگی تھی۔ پلاسی کی پہلی جنگ میں نواب سراج الدولہ نے انگریزوں کو شکست دی مگر اس کے بعد بنگال میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے لارڈ کلائیو نے نواب سراج الدولہ کے غدار وزیر میرجعفر سے ساز باز کی اور یوں 1757 ء میں نواب سراج الدولہ کو شہید کر کے بنگال پر قبضہ کر لیا۔

پھر انگریز نے یہاں کلکتہ جیسا بڑا شہر تعمیر اور آباد کیا اور اسی شہر میں 1801 ء میں فورٹ ولیم کالج قائم کیا جس میں اردو کی کتابوں کے انگریزی میں اور انگریزی کتابوں کو اردو میں تراجم کر انے کے اہتمام کیا۔ انگریز ہندوستان پر اپنی حکومت کے استحکام اور عوام میں رابطے کو مضبوط کر نے کے لیے اردو کو سرکاری زبان بنا نا چاہتے تھے۔ 1857 ء کی جنگ آزادی کے ساتھ ہی ایسٹ انڈیا کمپنی کے بجائے ہندوستان برائے راست تاج برطانیہ کے ماتحت آگیا۔ یہاں وائسرائے یعنی نائب بادشاہ کو بھیجا جا نے لگا 1857ء کے بعد ہی ہندوستان میں انگریزنے تمام شعبوںمیں اصلاحات کیں اور یہاں عدلیہ ، انتظامیہ اور مرحلہ وار مقننہ کو بھی متعارف کر وایا تو وائسراے کا عہد ہ ہی انگریزی بندوبست والے علاقوں میں گورنر جنرل کہلانے لگا۔ 1885ء میں مسٹر ہیوم نے آل انڈیا کانگریس جیسی سیاسی جماعت بنائی تو سرسید احمد خان نے ہندوستان کے مسلمانوں سے گذارش کی کہ وہ اس جماعت میں شامل نہ ہوں۔

1905ء میں انگریز نے بنگال جیسے بڑی آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بڑے صوبے کو مشرقی اور مغربی بنگال میں تقسیم کر دیا۔ مشرقی حصہ ہی 1947ء سے1971ء تک مشرقی پاکستان رہا اور اس کے بعد سے آج تک کا بنگلہ دیش ہے۔ کلکتہ شہر کے ساتھ بھارتی بنگال ہے۔ 1905ء میں برصغیر ہند وستان کی آبادی 24 کروڑ تھی جس میں غیر تقسیم شدہ بنگال کاآبادی کا تناسب تقریباً 34 فیصد تھا۔ جب بنگال کو تقسیم کیا گیا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ مسلم اکثریت کو ہو رہا تھا کیونکہ مشرقی بنگال میں مسلم آبادی کا تناسب 80 فیصد تھا اور مغربی بنگال میں مسلم آبادی کا تناسب 45% تھا۔ تقسیمِ بنگال پر کانگریس نے شدید احتجاج کیا۔ بنگالی قوم پرست کانگریسی لیڈروں نے کہا کہ بنگال کو تقسیم کر نا یوں ہے جیسے گائے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ انگریز وں پر زور دیا کہ بنگال کی تقسیم کا فیصلہ واپس لیا جائے۔

مسلمانوں کو احساس ہو اکہ کانگریس صرف اور صرف ہندوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والی سیاسی جماعت ہے۔ اس کے در عمل میں 1906 میں ڈھاکہ میں ہندوستان کے مسلمانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے آل انڈیا مسلم لیگ وجود میں آئی۔ پہلی جنگ عظیم سے تین سال قبل یعنی 1911 میں انگریزوں نے کانگریس کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے اور تنسیخ تقسیم بنگال کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ واضح رہے کہ ہندو بنیوں ہی کے مالی مفادات کی وجہ سے انگریز بنگال پر قابض ہو نے میں کامیاب ہو ئے تھے۔ اِن کے لالچ اور ذخیرہ اندوزی اورانگریزوں کے لیے زیادہ ٹیکس جمع کر نے کی وجہ سے بنگال میں دنیا کے خوفناک ترین قحط آتے رہے، جن میں لاکھوں انسان ہلاک ہو ئے۔

پہلی جنگ عظیم کے بعد 1918ء سے انگریز کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ اب برطانیہ دنیا کی سپر پاور نہیں رہا اور اس کی جگہ امریکہ لے رہا ہے اس لیے انگریز ’جو ہندوستان میں ایک لاکھ سے کم تعداد میں تھے‘ ایسی اصلاحا ت چاہتے تھے کہ جن کی وجہ سے وہ ہندوستان میں اپنا اقتدار قائم رہ سکیںیوں وہ ہند وستان برطانوی پارلیمنٹ سے تیار کر واکر ایک آئین بھی دینا چاہتے تھے اور ہند وستان کی سیاسی جماعتوں کو مرحلہ وار انتخابات کی بنیادوں پر اقتدار میں شریک کرنا چاہتے تھے۔ ہند وستان میں ہند و اور مسلمان دو بڑی قومیں تھیں۔ مسلمانوں کے آئین سازی اور حکومت کی تشکیل کے اعتبار سے تحفظات تھے اس کے لئے انگریزوں نے یہاں خصوصاً کانگریس اور مسلم لیگ کے لیڈوں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کیا۔ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن کی نگرانی میں ہندوستان میں دو مرتبہ سائمن کمیشن آیا۔ اُن کا پہلا دورہ 1928 میں اور دوسرا دورہ سات رکنی کمیشن نے 1929 ء میں کیا اور 1930ء میں سائمن کمیشن کی رپورٹ سامنے آئی۔ پھر اے بی سی فارمولا بھی سامنے آیا جس ہندوستان کو صوبوں کے تین گروپوں میں تقسیم کر کے تین وفاقی اکائیاں بنا نے تجویز تھی۔

اے گروپ میں بنگال اور بہار تھے ، بی یعنی دوسرے گروپ میں پنجاب کے ساتھ سندھ ، آج کا خیبر پختوانخوا اور بلوچستان شامل تھے جو آج کا پاکستان ہے۔ ہندوستان کے دیگر صوبے سی گروپ میں شامل تھے۔ جس کو پہلے قائداعظم نے منظور کیا مگر جب آل انڈیا کانگریس نے اس فارمولے کو رد کر دیا تو قائد اعظم نے بھی اس کو چھوڑ دیا۔ اس فارمولے کے تحت بنگال تقسیم نہیں ہو تا تھا مگر کانگریس نے اسے منظور کر نے سے انکار کردیا یعنی کانگریس جو 1905ء بنگال کی تقسیم کے خلاف تھی بعد میں بنگالی قوم پرستی کو بھول گئی۔ پھر 1935ء کے قانونِ ہند کے نفاذ کے بعد 1937ء میں ہندوستان میں پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد پر انتخابات ہو نے لگے۔ 1941ء میں غیر تقسیم شدہ ہندوستان میں آخری مردم شماری ہو ئی جس کے مطابق غیر تقسیم شدہ بنگال کی کل آبادی 60306525 تھی جس میں کل مسلم بنگالی آبادی 33005434 یعنی کل آبادی کا 54.73% تھی اور 1937ء سے 1945ء تک ہونے والے عام انتخابات کے بعدغیر تقسیم شدہ بنگال میں جتنی بھی صوبائی حکومتیں قائم ہو ئیں اُن کے سربراہ کو انگریزی دورِ حکومت میں وزیراعظم کہا جا تا رہا اور وہ تما م مسلمان بنگالی تھے۔

1937ء 1943ء تک شیر بنگال فضل حق بنگال کے وزیر اعظم رہے۔ اِن کے بعد 1943ء سے 1945ء خواجہ ناظم الدین بنگال کے وزیراعظم رہے۔ پھر 1945 سے 14 اگست1947ء تک حسین شہید سہروردی غیر تقسیم شدہ بنگال کے وزیر اعظم رہے۔ 1951ء میں پاک بھارت میں ہجرت کا سلسلہ بند کر دیا گیا۔ پاکستان سٹیزن شپ ایکٹ نافذالعمل ہوا۔ ملک کی پہلی مردم شماری ہو ئی تو مشرقی پاکستان کی آبادی 4 کروڑ 20 لاکھ تھی اور مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی۔ مغربی پاکستان سے 45 لاکھ سکھوں اور ہندوں نے بھارت ہجرت کی تھی جب کہ اس کے مقابلے میں بھارت سے 65 لاکھ مسلمان مغربی پا کستان آئے تھے۔ آزادی کے بعد مغربی پاکستان میں اقلیتی آبادی یعنی عیسائی ، سکھ، اور ہندو آبادی کا تناسب تقریباً تین فیصد تھا، جبکہ اس کے مقابلے میں مشرقی پاکستان میں ہند وبنگالیوں کا تناسب 22 فیصد تھا۔

یعنی مشرقی پاکستان میں ہر چوتھا فرد ہندو تھا۔ مشرقی پاکستان میں پہلی سیاسی غلطی 1954 ء میں اُس وقت ہوئی جب حسین شہید سہروردی، مولوی فضل حق، مولانا بھاشانی اور مولانا اطہر کی جماعتوں کا اتحاد جگتو فرنٹ 8 مارچ 1954 ء میں ہو نے والے صوبہ مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی 309 نشستوں میں سے 223 نشستیں حاصل کر کے مسلم لیگ کو شکست دینے میں کامیاب ہو گیا۔ اُس وقت کے قانون کے مطابق کسی سیاسی جماعت کوپارلیمانی پارٹی کہلانے کے لیے کم ازکم 10 نشستیں جیتنا ضروری تھا مگر مسلم لیگ صرف9 نشستیں حاصل کر سکی تھی۔

بالآخرمسلم لیگ نے ایک آزاد رکن فضل قادر چوہدری کی حمایت سے پارلیمانی پارٹی کا درجہ حاصل کیا اس صوبائی انتخابات او ر حکومت کی تشکیل کے چند دن بعد ہی مشرقی پاکستان میں گورنر راج نافذ کردیا گیا ، یہ ہماری بدقسمتی تھی کہ ہم نے جمہوری تسلسل کو روک دیا اور اس کا انجام 16 دسمبر1971ء کو متحدہ پاکستان کے خاتمے پر ہوا۔ 7 اگست 2024ء کو بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت ختم ہو گئی اور پاکستان کے حق میں نعرے لگے تو فیض احمد فیض کا یہ شعر ’جو ایک دعا بھی ہے‘ پوری شدت کے ساتھ ذہن میں گونجتا ہے۔

 کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

 خون کے دھبے دُھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

 بنگال کا المیہ یہ ہے کہ اسے سیاسی طور پر دھوکے ہی دیے گئے۔ 1905ء میں جب بنگال کو تقسیم کیا گیا تو بنگالی قوم پرستی کے مقابلے میں مسلمان بنگالیوں کو 1911ء میں شکست ہو ئی۔ ایک سازش بنگال اور پنجاب کی تقسیم پر ریڈ کلف ایورڈ کے تحت کی گئی۔ 1941ء کی مردم شماری میں غیر منقسم پنجاب کی کل آبادی 28418819 تھی، جس میں مسلم آبادی 16217242 تھی یعنی کل آبادی میں مسلمانوں کا تناسب57.07 فیصد تھا۔

یہاں کانگریس کے وزیر داخلہ سردار ولب بھائی پٹیل گورنرجنرل لارڈماونٹ بیٹن اور ریڈ کلفٹ نے سازش کے تحت مسلم اکثریت کے اضلاع گورداسپور، فیروز پور اور زیرہ کے علاقے بھارتی مشرقی پنجاب میں شامل کر دیئے اور پھر ایک سوچے سمجھے منصو بے کے تحت یہاں بدترین فسادات کرائے گئے جس میںلاکھوں انسان ہلاک ہو ئے۔ خصوصاً سکھوں اور مسلمانوں کا صدیو ں کا تعلق دشمنی میں تبدیل کر دیا گیا۔

جبکہ بنگال میں تقسیم کے موقع پر نواکھلی گاؤں میں ایک پُر تشدد واقعہ ہوا تو وہاں گاندی جی فوراً پہنچے اور فسادات کو رکوانے کے لیے تادمرگ بھوک ہڑتال کر دی اور پھر حسین شہید سہروردی کی کوششوں سے وہاں امن قائم رہا۔ ذرا تصور کریں کہ اگر مشرقی اور مغربی بنگال میں بھی ہند مسلم فسادات ہو تے تو 22 فیصد ہندو آبادی مشر قی پاکستان سے بھارتی مغربی بنگال منتقل ہو جاتی۔ اسی طرح یہاں تقسیم کے وقت کلکتہ جیسے شہرکے دفاع کے لیے 100 کلو میٹر کا علاقہ لیا گیا مگر لاہور کو واہگا کی سرحد کے اعتبار سے یہ تحفظ نہیں ملا۔ اب جہاں تک تعلق اردو اور بنگالی زبانوں کا ہے تو1954 ء میں جگتو فرنٹ نے اپنے 21 نکاتی پر وگرام میں یہ بھی رکھا تھا کہ اردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی سرکاری اور قومی زبان کا درجہ حاصل ہو گا۔

جہاں تک تعلق مغربی بنگال اور بنگلہ دیش کا ہے اور اسی طرح مشرقی بھارتی پنجاب اور پا کستانی پنجاب کا ہے۔ تو اب بھارتی بنگالی اور بنگلہ دیش کی بنگلہ زبانوں میں بھی فرق آچکا ہے اور بھارتی پنجاب اور پاکستانی پنجاب کی پنجابی زبانوں کے لہجوں میں بھی نما یاں فرق ہے۔ 1971ء میںاندرا گاندھی نے کہا تھا ’’آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کر دیا ہے‘‘، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نہ تو 1971ء میں مشرقی اور مغربی بنگال بنگالی قوم پرستی کی بنیاد پر ایک ہوا، اور نہ بنگلہ دیش نے اسلام سے منحرف ہو کر ہمیشہ کے لیے بھارت کے زیرِ سایہ رہنے کو قبول کیا ۔

اس لیے کہ ہمارا مذہب ایک برتر حقیقت ہے جو مغربی بنگال کو ہندو اکثریت کے باعث مشرقی بنگال سے الگ رکھتی ہے اور بنگلہ دیش(مشرقی بنگال) کو مسلمان ہو نے کے رشتے کی وجہ سے پچاس سال بعد دوبار پاکستان کے قریب لاتی ہے اور بھارتی ہندو نظریے کے تعصب کو پہچان جاتی ہے۔ یوں ثابت ہو تا ہے کہ اب خون کے دھبے دھل رہے ہیں اور بے داغ سبزے نے اپنی بہار دکھانی شروع کر دی ہے۔

Load Next Story