شام کی بدلتی صورتحال پر پاکستان ’انتظار کرو اور دیکھو‘ کی پالیسی پر گامزن
اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی بدلتی صورتحال پر پاکستان ایک انتہائی محتاط پالیسی پر عمل پیرا ہے، اس لیے ابھی تک دمشق پر قابض اپوزیشن فورسز کی باضابطہ حمایت نہیں کی۔
شام کی خانہ جنگی کے دوران بھی پاکستان محتاط پالیسی پر عمل پیرا رہا۔ بظاہر اس غیر جانبدارانہ پالیسی کا جائزہ بتایا ہے کہ پاکستان کا جھکاؤ بشارالاسد کی طرف تھا، یہی وجہ ہے کہ2011 کے عرب اسپرنگ میں پاکستان نے بشارالاسد کی برطرفی کا مطالبہ کرنیوالی قوتوں کی حمایت سے انکار کر دیا تھا۔
بشار الاسد کی اچانک بے دخلی صرف عالمی برادری نہیں، پاکستان کیلیے بھی ایک دھچکا تھی۔
نام ظاہر نہ کرنے پر وزارت خارجہ کے ایک افسر نے بتایا کہ بشار الاسد کی بے دخلی پر ردعمل میں دفتر خارجہ نے شام کی سالمیت اور خودمختاری کے احترام کی بات کی، حیات تحریر الشام کی زیر قیادت اپوزیشن کی حمایت سے گریز کیا۔
وزارت خارجہ کے ایک افسر نے کہا کہ ہم انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، دمشق پر قابض گروپ ابھی تک دہشت گرد تنظیم کی فہرست میں شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ محتاط پالیسی کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان ایک ایسے تنازعے میں الجھنا نہیں چاہتا جس میں براہ راست ملوث نہیں۔
انہوں نے کہا کہ شام کی صورتحال خطے میں مزید عدم استحکام اور اسرائیل کو ایران پر حملے کیلئے اکسا سکتی ہے، جوکہ خطے اور پاکستان کیلئے تباہ کن ہو گا۔ دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کو بھی تشویش ہے کہ حالیہ واقعات کے بعد شام کی وحدت قائم رہتی ہے کہ نہیں۔