صدر پاکستان مرکزی مسلم لیگ، پنجاب
سانحہ مشرقی پاکستان ایک ایسا زخم ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھر نہیں سکا اور اس کا مداوا نہیں ہو سکا۔ تاہم کچھ عرصہ سے بنگلہ دیش کی طرف سے کچھ ایسی خوش کن خبریں آرہی ہیں کہ جنھیں دیکھ اور سن کر ہر محب وطن پاکستانی خوشی سے سرشار اور نہال ہے۔
سب سے بڑی تبدیلی تو یہ آئی کہ حسینہ واجد بنگلہ دیش سے راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہو چکی ہے، بنگلہ دیش میں پاکستان کے ساتھ محبت کرنے والی حکومت اقتدار میں آچکی ہے، ایسے تمام قیدی جو پاکستان کے ساتھ محبت کے جرم میں پابند سلاسل تھے ۔۔۔۔۔ رہا ہو چکے ہیں۔ حسینہ واجد کا راہ فرار اختیار کرنا اس بات کی علامت ہے کہ دو قومی نظریہ زندہ ہے ۔ بنگلہ دیش کی نئی حکومت نے جماعت اسلامی پر سے بھی پابندی اٹھا لی ہے۔
اسی طرح حسینہ واجد کی سرکاری سطح پر پہلے سے ریکارڈڈ شدہ تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ بنگلہ دیش میں پاکستانیوں کے لیے سکیورٹی کلئیرنس ختم کر دی گئی ہے۔ بنگلہ دیشی حکومت نے اپنے ہاں ہونے والی صنعتی نمائش میں پاکستانی تاجروں کو شرکت کی دعوت دی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی انٹر نیٹ ریگولیٹری اتھارٹی نے بھارت کے ساتھ انٹرنیٹ ٹرانزرٹ معاہدہ بھی منسوخ کر دیا ہے۔ معاہدہ کی منسوخی مودی سرکار کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہے۔
بھارت کے لیے اس سے بھی بڑا جھٹکا اور صدمہ یہ ہے کہ پاکستانی ہائی کمشنر نے ڈھاکہ میں بیگم خالدہ ضیاء سے ملاقات کی ہے۔ ہائی کمشنر نے بیگم خالدہ ضیاء کو صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم میاں شہباز شریف کی طرف سے نیک خواہشات کا پیغام پہنچایا، یہ ملاقات بہت ہی خوش آئند اور خوش کن ہے۔ بنگلہ دیش میں تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے حالات پر بھارتی میڈیا سیخ پا ہے اور کہہ رہا ہے کہ جس تیزی سے پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں یہ محبتیں کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہیں۔
بھارت کو چاہئے کہ وہ اب حقائق کو تسلیم کر لے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کے خلاف سازشیں کرنا ترک کر دے۔ اگرچہ برصغیر کی تقسیم کے بعد ہی بھارت کو چاہیے تھا کہ پاکستان کو تسلیم کر لیتا اور امن و ترقی کی راہ پر اچھے ہمسائے کی طرح اپنا کردار ادا کرتا۔ مگر برہمن کی سامراجی سوچ تھی کہ وسائل سے تہی پاکستان اپنی بقا کی جنگ نہیں لڑ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی ناپاک سوچ رہی کہ دھونس، دھمکی اور جارحیت سے پاکستان پر قبضہ کر کے دوبارہ ایک ہی ملک بنا دیاجائے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے اول روز سے ہی بھارت نے جارحانہ رویہ اختیار کیا اور وطن عزیز کے خلاف ہر سازش کو آزمایا۔ یہاں تک کہ ستمبر 1965ء میں جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے بین الاقوامی سرحد کو روند کر بھارتی ترنگا لہرانے لاہور پہنچ گیا۔ مگر اْلٹی ہوگئیں سب تدبیریں۔ پاکستان نے بھی بھرپور جواب دیا اور اپنی طاقت کا لوہا منوایا۔ جس کے باعث بھارت کی ساکھ کو بین الاقوامی سطح پر ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
اپنی اس ہزیمت کا بدلہ لینے کے لیے بھارت نے مشرقی پاکستان کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ وہاں نہ صرف نفرت کے بیج بوئے بلکہ ان کی آبیاری کے لیے ہر قسم کے حربے اختیار کیے۔ بھارتیوں نے یہ پراپیگنڈا کیاکہ وسائل کی تقسیم میں بنگالیوں کا معاشی استحصال کیا جا رہا ہے۔ حقیقت میں مشرقی پاکستان کی معیشت اور تعلیم پر ہندوؤں کا قبضہ تھا۔
یہی نہیں بلکہ قومی دولت کے 80 فیصد پر ہندو قابض تھے۔ سکولوں اور کالجوں میں بڑی تعداد میں ہندو اساتذہ تھے جنھوں نے بنگالی نوجوانوں کو مغربی پاکستان کے خلاف بھڑکانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی اساتذہ نصاب کے لیے جو کتب تجویز کرتے وہ نظریہ پاکستان کے خلاف مواد پر مشتمل ہوتیں۔ سینکڑوں ہندوؤں کو مشرقی پاکستان میں داخل کیا گیا جنہوں نے جلسے جلوسوں میں نہ صرف ملک کے خلاف نعرہ بازی کی بلکہ اکھنڈ بھارت کے نعرے بھی لگائے۔ تعلیمی اداروں میں ہندو اساتذہ کے ذریعے طلبہ کے اذہان میں مغربی پاکستان کے خلاف منفی نظریات پھلائے گئے۔ اس تعصب، نفرت اور تنگ نظری نے مشرقی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کے عوام کے دلوں میں شدید نفرتیں پیدا کر دیں۔ اسی دوران شیخ مجیب الرحمن نے بھی 6 نکا ت پیش کر دیے۔
عوام کی معاشی بدحالی کی وجہ سے ان چھ نکات کو بھرپور پھیلنے کا موقع مل گیا۔ بھارت نے مشرقی پاکستان کے دوست کا روپ دھارلیا اور انہیں مغربی پاکستان کے تسلط سے نام نہاد آزاد کرانے کا مژدہ بھی سنادیا جبکہ عوامی لیگ کوبھارت پہلے ہی شیشے میں اْتار چکا تھا ۔ نومبر 1971ء کو بھارت نے پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے تانے بانے بنے جاتے رہے تھے، مایوس کن اور نفرت انگیز پراپیگنڈے کے ساتھ بھارت کی دراندازیاںعیاں ہو رہی تھیں۔
بھارت جنگ کے لیے راستے ہموار کرتا جا رہا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت سے قبل یورپ کے کئی ممالک اور امریکہ کا دورہ کیا۔ انسانی حقوق کے نام پر مشرقی پاکستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی مدد کی منظوری حاصل کی اور اسی آڑ میں اس نے مشرقی پاکستان پر فوجی کاروائی کی۔ امریکہ کے صدر نکسن کو یقین دہانی کرائی کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں اسے وہاں فوجی اڈے فراہم کیے جائیں گے۔ اندرا گاندھی نے پاکستان کو ٹکڑے کرنے کے لیے روس سے بھاری فوجی امداد حاصل کی۔ بھارت نے مشرقی پاکستان پر قبضے کی صورت میں روس کو بحری اڈا فراہم کرنے کا وعدہ کیا اس طرح بھارت نے مشرقی بازو کاٹنے کے لیے ایک طرف بڑی طاقتوں سے جدید ترین اسلحہ لیا اور دوسری طرف عالمی سطح پر اس ’’جرم‘‘ کی حمایت بھی حاصل کر لی۔
حالات کو اپنے حق میں کافی حد تک ساز گار کرنے کے بعد بھارت بھرپورفوجی طاقت کے ساتھ مشرقی پاکستان پر حملہ آور ہوا اور دوسری طرف مغربی پاکستان کے سرحدی علاقوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے کے ساتھ ہی روس نے اپنی فوجیں چین کی سرحد کے ساتھ الرٹ کر دیں تاکہ چین پاکستان کی مدد کو نہ آسکے۔ بڑی طاقتیں بشمول امریکہ پرزور مشورے دیتے رہے کہ پاکستان سخت ملٹری ایکشن کی بجائے پرامن حل کی تلاش کے لیے اقدامات کرے۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت بڑے دھڑلے کے ساتھ مشرقی پاکستان کے بین الاقوامی بارڈر کو روند کر فوجی غاضبانہ قبضہ کر رہا تھا ۔
اس کا مروڑ شدت سے بڑھ رہا تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 15 جون 1971ء کو یہ اعلان کیا کہ بھارت مشرقی پاکستان کے مسئلے کا ایسا کوئی سیاسی حل قبول نہیں کرے گا جس کے نتیجے میں بنگلہ دیش کی موت واقع ہو۔ اسی لیے بھارت مسلسل حالات کو بے قابو کر رہا تھا اور ہر طرف ہنگامے کھڑے کرنے میں اس کے ادارے مصر وف عمل تھے۔ بظاہر سارے حالات اتفاقی معلوم ہو رہے تھے جبکہ اصل میں یہ سب کچھ باقاعدہ پلاننگ اور منصوبہ بندی کے مطابق ہو رہا تھا۔ مارچ1971ء کے ہنگاموں کے بعد فوجی آپریشن شروع ہوا تو کچھ بنگالی فوراََ مشرقی پاکستان سے بھاگ کر بھارت چلے گئے۔ جہاں بھارت سرکار نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا۔
بھارتی حکومت نے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مارچ کے ہنگاموں سے پہلے ہی ہزاروں جھونپڑیاں مغربی بنگال کی سرحد کے ساتھ ساتھ تیار کروا رکھی تھیں جہاں آنے والے بنگالی نوجوانوں کو پناہ کے بہانے رہائش مہیا کی گئی۔ ان پناہ گزین کیمپوں میں مشرقی پاکستان کے بنگالی بہت کم تھے۔ تعداد بڑھانے کیلئے بھارت سرکار نے اپنے بندے ان کیمپوں میں داخل کیے جبکہ پروپیگنڈا یہ کیا گیا کہ مشرقی پاکستان سے لاکھوں بنگالی ہمارے پاس پناہ گزین ہیں۔اس پروپیگنڈے کا مقصد پناہ گزینوں کے نام پر ایک طرف عالمی اداروں سے مدد حاصل کرنا اور دوسری طرف پاک فوج کو ظالم ثابت کرنا مطلوب تھا۔
اسی دوران بھارتی فوج کے اور ’’را‘‘ کے افسر ملٹری اداروں اور تربیتی کیمپوں میں مکتی باہنی گوریلا تنظیم کی تشکیل کرتے رہے۔ انہوں نے ہی مکتی باہنی کے کارکنان کو گوریلا جنگ کی ٹریننگ دی۔ اس گوریلا تنظیم نے اپنے ہم وطنوں اور بہاریوں کا قتل عام کرتے ہوئے دہشت گردی اور وحشت ناکی کی تاریخ رقم کی۔ ’’مکتی باہنی‘‘ جس نے پاکستان کا مشرقی بازو کاٹ کر بنگلہ دیش بنانے میں نہ صرف بھارتی مقاصد کو پورا کیا بلکہ اپنے اور اپنے بھائیوں کے لہو سے انڈین دہشت گردی کو بھی سینچا۔ حالات تیزی سے بگاڑے جا رہے تھے۔
پاکستانی فوج کئی محاذوں پر لڑ رہی تھی جبکہ سرحدوں پر شدید دباؤ تھا۔ بھارتی فوج نہ صرف مکتی باہنی کے باغیوں کو اسلحہ مہیا کر رہی تھی بلکہ ان کی نگرانی کے ساتھ ساتھ بھارتی فوجی اہلکار سادہ لباس میں ان سے زیادہ تخریبی کاروائیوں میں خود شامل تھے۔ عمارتیںاور ذرائع مواصلات خاص طور پر ان کے نشانے پر تھے جبکہ غیر بنگالی مسلمان تو بالکل غیر محفوظ تھے۔ ہندوستانی فوج اور مکتی با ہنی کے دہشت گرد خود کار ہتھیار سنبھالے بازاروں میںآزاد انہ پھرتے اورجو چاہتے کرتے۔ اتحاد پر زور دینے والوں کو راستے کا کانٹا سمجھا جاتا۔ جہاں کہیں امن پسندوں سے آمنا سامنا ہو جاتا ان کا صفایا کر دیا جاتا۔ اس دوران بین الاقوامی سازشیں اصلاح کی کوششوں کو ناکام کر رہی تھیں۔ امریکی ساتواں بحری بیڑہ، چین کی مدد سب محض طفل تسلیاں تھیں۔ پاکستانی فوج مسلسل 9 ماہ سے برسر بیکار تھی۔
پھر 16دسمبر کی وہ سیاہ صبح جو دلوںپرلرزہ طاری کرنے والی اور جسم کو چیر کر دو حصوں میں تقسیم کرنے والے اْس لمحہ کے ساتھ آہی گئی جس کے بارے میں افواہیں گردش کر رہی تھیں۔۔۔۔۔یعنی ’’ سرنڈرسرنڈر‘‘۔ جو پاکستان کی محبت میں فدا ہو رہے تھے ان پر بجلی گر رہی تھی، آسمان ٹوٹ رہا تھا۔ محمد پور اور میرپور کی گلیاں لہو لہو کر دی گئیں۔ سرنڈرکی خبروں کی تصدیق ہو چکی تو بھارتی افواج نے بنگالی فوج اور عوام میں اپنے پالتوؤں کے ذریعے ڈھاکہ پر قبضہ کر لیا۔
90 ہزار پاکستانیوں کو جنگی قیدی بنایا گیا پاکستان کا مشرقی بازوں کٹتے ہی پاکستان اسلامی دنیا کی سب سے بڑی مملکت کے اعزاز سے بھی محروم ہوگیا۔ مغربی اور مشرقی پاکستان جو ایک دل و جان تھے کٹتے رہے، جلتے رہے جبکہ ہندو خوش ہوتا رہا اور اپنا کام کرگیا۔ بنگلہ دیش کی کامیابی پر بدحواس بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنی پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’یہ کامیابی جو ہمیں حاصل ہوئی ہے یہ ہماری افواج کی نہیں بلکہ ہمارے نظریے کی کامیابی ہے۔ ہم نے کہا تھا کہ مسلمانوں کا نظریہ غلط ہے اورہمارا نظریہ درست ہے۔ لیکن وہ نہ مانے اور ہم نے ثابت کر دیا کہ ان کا نظریہ غلط تھا۔ آج ہم نے مسلمانوں سے اپنی ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے کر پاکستان کا دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔‘‘
پاکستان میں قائداعظم کے وارث نظریہ پاکستان کو قائم نہ رکھ سکے اور نہ اس کے تقاضوں کو سمجھ سکے،بانی پاکستان محمد علی جناح نے ہمیںایک قوم بنایا تھا لیکن پھر سازش کے تحت بلوچی،سندھی کی دراڑیں ڈالی گئیں۔ تحریک پاکستان کے دوران پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ جتنا زور سے ڈھاکہ ،چٹاگانگ میں لگتا تھا شائد لاہور میں اس کی شدت وہ نہ تھی۔
جب کلمہ کی بنیاد پر پاکستان کی بات کی تو ہندوستان کے طول وعرض میں بکھرے سب مسلمان ایک ہو گئے۔ لیکن جب اس نظریہ سے غفلت اور دوری اختیار کی تو بنگالی الگ ہو گئے۔ یہ حقیقت بھی دنیا پر عیاں ہے کہ بھارت کی مداخلت کے بغیر پاکستان دو لخت نہیں ہو سکتا تھا۔
اس بات کا اعتراف سال 2015ء میں موجودہ بھارتی وزیر اعظم نریند مودی نے ڈھاکہ میں کھڑے ہوکر کیا۔ جہاں وہ اپنے بچپن اور ہندوستانی قوم کے مشرقی پاکستان میں کئے گئے اپنے جرائم کا اقرار کرتا رہا۔ اتنی سفاکیت کہ جب انسانیت کٹ رہی تھی، مسلمان ذبح ہورہے تھے، مشرقی پاکستان جل رہاتھا ، مکتی باہنی کے قتل عام کا سلسلہ جاری تھا تو نریندرمودی کہا کہ یہ میری زندگی کے یاد گار لمحات تھے۔ مودی نے خود اقبالِ جرم کرتے ہوئے کہا تب مکتی باہنی اور بھارتی فوج میں کوئی فرق محسوس نہیں ہوتا تھا۔
ہمیشہ کی طرح ہندوبنیا اس وقت بھی پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری میں آن ریکارڈ ملوث ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ ہمیں بھارت فنڈنگ کرتا ہے۔ بلوچستان میں سابق انڈین نیوی آفیسر کلبھوشن یادیو اور اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانے کے سفارت کار دہشت گردی اور جاسوسی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔ ٹی ٹی پی ، داعش، خوارجی اور تکفیری گروہ ، سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور اور دہشت گردی کی دیگر تمام وارداتوں میں بیگناہوں کا خون بہانے والوں کے تانے بانے بالواسطہ یا بلاواسطہ بھارت سے ہی ملتے ہیں۔
بھارت کی پاکستان دشمنی چھپائے نہیں چھپتی بلکہ اب تو کھیل کے میدان میں بھی بھارت نے پاکستان کے خلاف دہشت گردی اور انتہا پسندی شروع کر دی ہے۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ کھیل میں سرحدیں حائل نہیں ہوتیں لیکن بھارت اپنی ٹیمیں کسی صورت بھی پاکستان بھیجنے کیلئے تیار نہیں۔ بدقسمتی سے دہشت گردی کا یہ سلسلہ پہلے کی نسبت اس وقت زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہے۔ افواج پاکستان کو خصوصی طور نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گذشتہ ماہ ہماری بہادر افواج کے68 جوان مادر وطن پر اپنی جانیں نچھاور کر چکے ہیں۔ ایک طرف افواج پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں اور دوسری طرف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دشمن نے ہمارے خلاف چومکھی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ ہم نے باہمی اتحاد سے دشمن کی تمام سازشوں کو ناکام بنانا ہے، ان شاء اللہ ۔ بنگلہ دیش کے موجودہ حالات میں بھارت کے لیے سبق ہے کہ کس طرح سے مودی کی بنگلہ دیش میں کی جانے والی ساری کی ساری انویسٹمنٹ ضائع ہو چکی ہے۔ بنگلہ دیش میں آنے والی تبدیلی پر تمام پاکستانی یقینا خوش ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ روشن بہار کے امکاں ہوئے تو ہیں ۔