بدلتی دنیا ہے، بگڑتے توازن ہیں

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے


محمد رائد خاں December 16, 2024

سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

یہ شعر علامہ اقبال نے اس وقت کہا تھا۔ جب انقلاب در انقلاب اور جنگوں پر جنگوں کی صدی محض 8 برس کی ہی ہوئی تھی۔ یعنی بیسویں صدی نے انگڑائی ہی لی تھی اور اس کے سامنے دو عظیم جنگیں اور دو عظیم انقلاب کھڑے تھے۔ دو عظیم جنگوں سے تو سب ہی واقف ہیں جب کہ دو انقلاب سے میری مراد1917ء میں روس کا عظیم ’’بالشویک‘‘ انقلاب اور 1949ء کا چینی انقلاب ہے۔ انقلابِ فرانس اور امریکا کی آزادی کے بعد یہ ہی دونوں انقلاب کرۂ ارض پر سب سے زیادہ اثرانداز ہوئے ہیں۔

علامہ اقبال کا مذکورہ بالاشعر آج کے حالات سے کچھ ویسی ہی مناسبت رکھتا ہے جیسے وہ تب رکھتا تھا جب وہ علامہ کی زبان سے نکلا اور ’’بانگ ِدرا‘‘ کی زینت بنا۔ واقعہ یہ ہے کہ سکوں واقعی قدرت کے کارخانے میں محال ہے اور صرف تغیر کو ہی ثبات ممکن ہے۔ یعنی صرف تبدل و تغیر ہی عین حقیقت ہے۔ یہاں مارکس کے نام لیواؤں کے لیے کہتا چلوں کہ علامہ نے مذکورہ شعر میں ’’جدلیاتی نقطۂ نظر‘‘ کو ہی اپنے مخصوص اسلوب میں بیان کیا ہے۔

 ہماری دنیا جس میںہم اپنی تگ و دو میں لگے ہیں اور اپنی اپنی منازل کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، بدل رہی ہے۔ کچھ تبدیلیاں ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہیں مثلاً سائنس کی ترقی اور ٹیکنالوجی کی بہتری لیکن کچھ تبدیلیاں ایسی بھی ہیں جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہیں یا ہم انہیں نظرانداز کردیتے ہیں۔ یہاں مارکسی اساتذہ ٹیڈ گرانٹ اور ایلن ووڈز کی کتاب ’’مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس‘‘ کا ایک اقتباس دینا مناسب ہوگا:

’’سائنس اور ٹیکنالوجی کی تمام تر پیش رفتوں کے باوجود معاشرہ خود کو ایسی قوتوں کے رحم وکرم پر پاتا ہے جو اس کے قابو سے باہر ہیں۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر لوگ روزافزوں پریشانی کے ساتھ مستقبل کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پرانے یقین کی جگہ بے یقینی نے لے لی ہے۔ عام بیماری سب سے پہلے حکم راں طبقے اور اس کی حکمت عملیاں تیار کرنے والوں کو متاثر کرتی ہے جو اس بات سے آگاہ ہیں کہ ان کا نظام شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ نظام کے بحران کی عکاسی نظریے کے بحران میں ہوتی ہے، سیاسی پارٹیوں، سرکاری کلیساؤں، اخلاقیات، سائنس اور یہاں تک کہ آج کل جسے فلسفہ سمجھا جاتا ہے اس میں بھی یہ بحران منعکس ہوتا ہے۔‘‘

بہرکیف، نظرانداز کردہ تبدیلیوں کی نوعیت ’’سیاسی‘‘ اور ’’اقتصادی‘‘ ہے۔ سیاسی و اقتصادی تبدیلیوں سے میری مراد انتخابات کے ذریعے حکومتوں کی تبدیلی یا ارب پتیوں کی دولت میں اتار چڑھاؤ نہیں ہے۔ صد حیف کہ المیہ یہ ہے کہ سیاست سے ہماری مراد محض ’’انتخابات‘‘ اور اقتصادیات یا معاشیات سے ہماری مراد محض ارب پتیوں اور کروڑ پتیوں کے ’’بینک بیلنس‘‘ ہوتے ہیں۔ ایک عام آدمی ’’سیاسی اقتصادیات‘‘ یا جسے ہم ’’ پولیٹیکل اکانومی‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں، سے مکمل طور پر لاعلم ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ تو اس کی خالصتاً وجہ عالمی آرڈر اور ان کی پروردہ ’’ہماری جمہوری نمائندہ‘‘ حکومتوں کی ترجیحات اور پالیسیاں ہیں۔ ایسی حکومتیں جو سیاسی آزادی، معاشی مساوات اور سماجی انصاف کے آفاقی تصورات کو ’’نراجیت یا ’’انارکی‘‘ کے ’’خوف ناک‘‘ الفاظ سے تعبیر کرتی ہیں اور عوام کو ان ’’فوضوی خطرات‘‘ سے خوف دلاتی ہیں۔

یہ خطرات دراصل عوامی مفادات کے لیے خطرہ نہیں ہیں بلکہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور جرنیلوں کی اقلیم کے لیے خطرہ ہیں جو ہمارے وطنِ عزیز پر قابض ہیں۔ پوری دنیا ’’ایک کارپوریٹ سام راج‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے جہاں کمپنیاں اور کارپوریشنز منافع کی ہوس میں سیاسی حکومتوں پر اثرانداز ہوتی ہیں بلکہ ان حکومتوں کو بناتی اور گراتی ہیں۔ اس حوالے سے ڈیوڈ کورٹن کی کتاب ’’دنیا پر کارپوریشنوں کی حکم رانی‘‘ اور جان پرکنز کی کتاب ’’اقتصادی غارت گر کے اعترافات‘‘ دیکھی جاسکتی ہیں جو ایک عام قاری کو دنیا کی سیاہ حقیقتوں سے متعارف کرتی ہیں۔ سنجیدہ و پختہ مطالعہ کے لیے روسی انقلاب کے راہ نما لینن کی کتاب ’’سام راجیت، سرمایہ داریت کی آخری منزل‘‘ بھی دیکھ سکتے ہیں۔ اسی حوالے سے عالمی شہرت یافتہ دانش ور نوم چومسکی بھی بڑا نام ہے۔

بہرحال، مضمون کو طول دینے کے بجائے سیدھے موضوع کی طرف آتے ہیں۔ دنیا بدل رہی ہے، یا پھر ’’بگڑ رہی‘‘ہے۔ اور جیسے جیسے یہ دنیا بگاڑ کی طرف بڑھ رہی ہے اس کا ’’توازن‘‘ بھی ہچکولے لینے لگا ہے۔ اس توازن کی سیاسی، اقتصادی، ماحولیاتی، ثقافتی، سماجی اور ادبی بھی ہے۔ یعنی ہر طرف بگاڑ ہی بگاڑ ہے۔ سیاست پر فسطائیوں کی حکم رانی ہے۔ سرمایہ درانہ معیشت ’’عوام دشمنی‘‘ پر اتری ہوئی ہے ایسے میں ماحول مکمل طور پر سرمایہ داریت کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ثقافتیں دم توڑ رہی ہیں، سماج انتہاپسندی کی لپیٹ میں ہیں اور ادب کا تو کہنا ہی کیا ہے؟ لفاظی و جگالی اور تُک بندی کا دور دورا ہے۔ ایسا ہے کہ زبان و ادب کے ’’لفنگے‘‘ شاعر اور ادیب کے بھیس میں شہرت کی بلندیوں کو چھورہے ہیں۔ دانش وری کے پیکر میں مداری ’’ہجوم‘‘ لگائے بیٹھے ہیں۔ سیاست پر فسطائیت کی چادر تنی ہے۔

ٹرمپ کی کام یابی نے تو اس خدشے کو مزید تقویت بخش دی ہے۔ یورپی انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوگا کہ اکثر یورپی ممالک میں نوفسطائی (نیو فاشسٹ) عناصر کا ہی اقتدار قائم ہوا ہے۔ اسی طرح جدید معیشت بھی عوام دشمنی پر مبنی ہے۔ نیولبرل اقتصادی پالیسیوں کے تحت پوری دنیا پھر کسی ’’معاشی بحران‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے زیرتسلط تیسری دنیا کے ممالک قرضوں کے جال کی گرفت میں پھنستے ہی چلے جارہے ہیں۔ امریکی معیشت ’’ڈالر‘‘ کی طرح لڑکھڑا رہی ہے اور دنیا کسی نئے متبادل کی تلاش میں ہے۔ سیاسی مبصرین اور معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ متبادل ’’برکس اتحاد‘‘ ہوسکتا ہے۔ لیکن ایسا ہوسکتا ہے یا نہیں؟ یا ایسا ہورہا ہے یا نہیں؟ یہ سوالات الگ مضمون کے متقاضی ہیں جن پر تفصیل سے گفتگو کی جائے گی۔

ماحول ’’سرمایہ داریت‘‘ کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ پگھلتے گلیشیئرز، فضائی آلودگی اور کچروں کے کبھی نہ ختم ہونے والے ڈھیر سے یہ تصور بھی حقیقت بن چکا ہے۔ اپنے مضمون ’’ہمارے اصراف اور سماجی عدم مساوات ‘‘ میں اس حوالے سے اعدادوشمار اور دلائل پیش کرچکا ہوں۔

اس ضمن میں مذکورہ مضمون کا اقتباس یہاں دینا مناسب ہوگا،’’سرمایہ داریت کے استحصال اور ایسی انڈسٹریز کا قیام جو صرف اشرافیہ کی عیاشیوں کو پورا کرنے کی غرض سے قائم کی جاتی ہیں اور ماحول میں کاربوہائیڈریٹس کے اضافی اخراج کا باعث بنتی ہیں، کی وجہ سے ہی دنیا آج اس دہانے پر پہنچ گئی ہے کہ تہذیب کی عمارت کبھی بھی دھڑام سے گر سکتی ہے۔‘‘ ایسی صنعتیں جن سے صرف اشرافیہ ہی مستفید ہوسکتی ہے اور ایسی اشیائے جنس جن سے صرف امیروں کی ہی ’’بھوک‘‘ مٹ سکتی ہے، ماحولیاتی بگاڑ اور تباہی کا باعث بنتی ہیں۔

ٖثقافتیں بھی دم توڑ رہی ہیں بلکہ بہت سی تو دم توڑ چکی ہیں۔ نئی دنیا کی کولمبس کے ہاتھوں دریافت نے تو گویا ایک تہذیب کو ہی مکمل طور پر تہہ و بالا کردیا۔ آج بھی لاطینی امریکا، انڈونیشی اور فلپائینی جزائر، ہندوستان اور افریقہ میں چھوٹی چھوٹی ثقافتیں اور تہذیبیں ’’صنعتی ترقی‘‘ اور ’’جدیدیت‘‘ کے پاؤں تلے روندی جارہی ہیں۔ یہ ترقی اور جدت سرمایہ داروں کی منافع خوری اور ہوسِ زر کے لیے کی جارہی ہے اور اس کا عوامی مفادات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خود سوچیں یہ کیسی ترقی اور جدت ہے کہ ایک طرف اونچی اونچی عمارتیں بنائی جارہی ہیں اور دوسری طرف آبادیوں کی آبادیاں بے گھر ہیں اور جھونپڑوں میں انتہائی غیرانسانی حالات میں زندگی بسر کر رہی ہیں، انہیں بجلی، گیس، تعلیم، صحت، روزگار اور حتیٰ کہ پینے کے لیے صاف پانی تک میسر نہیں ہے۔ ایسے میں اگر ثقافتیں دم توڑ رہی ہیں تو حیرانی کی کوئی بات نہیں ہے کیوںکہ یہ ہمارے ’’نظامِ مقدسہ‘‘ یعنی سرمایہ داریت کی ہی کارگزاری ہے۔ ایسے میں بھارت کے ممتاز شاعر خمار بارہ بنکوی کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں

چراغوں کے بدلے مکاں جل رہے ہیں

نیا ہے زمانہ نئی روشنی ہے

سماج ’’انتہاپسندی‘‘ کی جانب گام زن ہیں، مذہب کے نام پر قتل ہورہے ہیں۔ اردگرد نظریں گھمائیے بلکہ خود کو ہی دیکھ لیجیے اگر آپ عقل و شعور کی بات کرنے کے عادی ہیں تو آپ کے احباب ہی آپ کو چپ کرواتے ہوںگے اور یہی کہتے ہوں گے کہ ’’خاموش ہوجاؤ ورنہ کوئی فتویٰ آجائے گا۔‘‘ ہم سایہ ملک ہندوستان میں بھی ’’ہندوتوا‘‘ کے تیزتر پھیلاؤ نے حالات کو انتہائی سنگین کردیا ہے۔

حالات کی سنگینی اس قدر ہے کہ اگر یہی صورت حال تسلسل کے ساتھ برقرار رہی اور مزید پھیلتی رہی تو ہندوستان کی وفاقیت کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں، جس کی واضح مثال امریکا اور کینیڈا میں سرگرم سکھوں کی آزادی کی تحریک ’’خالصتان‘‘ ہے۔ صرف پاکستان اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ انتہاپسندی اور شدت پسندی یورپ اور امریکا جیسے مہذب (نام نہاد) معاشروں بھی سرایت کرچکی ہے۔ عالمی سطح پر جاری اور گذشتہ برس ہونے والے واقعات سے اس بات کا خوب اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

اب باری ’’ادب‘‘کی ہے جس کی حالت کچھ زیادہ ہی پتلی ہوگئی ہے۔ ادب کسی بھی سماج کا عکاس ہوتا ہے۔ پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں جس طرح کا ’’ادب‘‘ پروان چڑھ رہا ہے اس سے سرمایہ داریت کی فرسودگی ہی عیاں ہوتی ہے۔

مابعدجدیدیت کے سائے تلے پنپنے والا ’’ادب‘‘ جو ’’مہابیانیوں‘‘ کا انکاری ہے از خود ایک مہا بیانیے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے اور عالمی شہرت یافتہ ’’دانش ور‘‘ بوکھلائے پھر رہے ہیں۔ یہ بوکھلاہٹ بجا ہے کیوںکہ وہ عالمی فکری بحران کی ’’بنیاد‘‘ کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور جوسمجھ بھی رہے ہیں تو وہ ’’بیان‘‘ کی قدرت سے غافل ہیں یا کردیے گئے ہیں۔ ادبی انحطاط کی سراسر ذمے داری ’’سرمایہ داریت کے سماجی و پیداواری تعلقات‘‘ کے تضادات پر عائد ہوتی ہے۔

دنیا بگڑ رہی ہے یا جسے مارکسی فکر کی روشنی میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ ’’بربریت‘‘ کی جانب بڑھ رہی ہے۔ اس بربریت کی نوعیت ’’سیاسی سے ادبی تک‘‘ محیط ہے۔ اس احاطے کی وسعت نے ’’انسان‘‘ کو مکمل طور پر گھیر لیا ہے۔ مستقبل کیا ہے؟ بظاہر اس کا جواب تاریکی میں گم ہے۔ انسان اور اس کے معروضی حالات انتہائی تنگ ہیں اور ایسے میں سماج کی مجموعی نشوونما کا سوال کچھ ’’عجیب ‘‘ معلوم ہوتا ہے۔ یہاں کارل مارکس کا مشہور زمانہ قول نقل کرنے میں مضائقہ نہیں، وہ کہتا ہے:’’سرمایہ مردہ محنت ہے، جو کسی ویمپائر کی طرح زندہ محنت کو چوس کر جیتا ہے۔ وہ جتنا جیتا ہے وہ اتنا ہی چوستا ہے۔‘‘ اس قول کے بیان کردینے سے بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے۔

ایک جونک کی طرح سرمایہ داریت انسانی سماج کے ’’جسم‘‘ سے خون نچوڑ رہی ہے۔ یہ خون محنت ہے جس کے ذریعے ’’ دولت‘‘ پیدا کی جارہی ہے۔ دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم سے ’’طبقاتی تضاد‘‘ شدت سے ابھر رہا ہے۔ اس شدت کو نیویارک، لندن، بیجنگ، ماسکو، برلن، دہلی اور کراچی میں محسوس کیا جاسکتا ہے، جہاں کی بلندوبالا عمارتیں اور ساتھ ہی بستی غربت سرمایہ داریت کی ’’فتح‘‘ کا پول کھل رہی ہے۔

سرمایہ داریت اور کارپوریٹ مافیاز سے لپٹی جمہوریتیں دنیا کو لاحق مہلک امراض کی دوا نہیں ہیں بلکہ ان کے ذریعے ہی تو یہ امراض پھلتے اور پھولتے ہیں۔ ایسے میں دنیا کو ’’نئے متبادلات‘‘ کی تلاش ہے اور وہ سرمایہ داریت کے فسوں سے نجات حاصل کرلینے کے لیے بے تاب ہے۔ بہرحال، مضمون کو مزید طویل کرنے کے بجائے پال کینیڈی کی کتاب ’’عظیم طاقتوں کا عروج و زوال‘‘ کا ایک اقتباس درج کرتا ہوں:

’’جہاں تک عالمی نظام کا تعلق ہے، دولت اور طاقت یا اقتصادی استحکام یا فوجی استحکام ہمیشہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم رہے ہیں اور انہیں اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ چوںکہ یہ چیزیں باہم مربوط ہیں اور دنیاوی معاشرہ تبدیلی پذیر ہے، لہٰذا بین الاقوامی نظام کبھی بھی ایک حالت پر قائم نہیں رہے گا۔‘‘

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں