داستان الم
اسرائیلی فوج کا غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے.
اسرائیلی فوج کا غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے شمالی اور جنوبی حصوں میں مقیم 10 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کو فوری گھر چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے۔
حماس نے اسرائیل کے بن گوریاں ہوائی اڈے پر حملے کی دھمکی دے دی ہے۔ اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کے لیے عالمی کوششیں بھی ہو ہی ہیں۔ امریکی صدر اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو فون پر بحران حل کرنے میں مدد کی پیشکش کی۔ فرانسیسی اور روسی صدور نے بھی جنگ بندی کی اپیل کی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے عالمی دباؤ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ پر بمباری کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ادھر اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ میں گھروں پر بمباری کر کے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ 12 جون کو 3 یہودی لڑکے جو اسرائیلی تھے اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقے مغربی کنارے سے لاپتہ ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ لاپتہ افراد میں ایک شخص امریکی شہریت کا بھی حامل ہے۔ جس کے بعد اسرائیلی فوج نے اپنے ان تینوں شہریوں کی بازیابی کے لیے سرچ آپریشن کا سلسلہ شروع کیا اس دوران لاپتہ شہری تو بازیاب نہ ہو سکے تاہم اسرائیلی فوج نے نہتے فلسطینیوں کو گرفتار کرنا شروع کیا اور سیکڑوں کی تعداد میں نہتے فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ چونکہ تینوں اسرائیلی باشندے اسرائیل کے زیر کنٹرول علاقے سے لاپتہ ہوئے اس لیے اس واقعے میں فلسطینی تنظیموں کے ملوث ہونے کے امکانات انتہائی کم ہیں۔ اسرائیلی بدنیتی اس وقت بھی ظاہر ہوئی جب اس واقعے کے 2 روز قبل یعنی 9 جون کو اسرائیلی کابینہ نے فلسطینی قیدیوں کو رعایت اور معافی ملنے کے امکان کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے قانون میں ترامیم کی منظوری دی۔
مجوزہ ترامیم کی پارلیمنٹ سے منظوری سے قانون کا باضابطہ حصہ بن جائیں گی جب کہ معافی دینے یا سزاؤں میں نرمی کرنے کا صدارتی اختیار بھی محدود ہو جائے گا۔ اس کے مقابلے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی عدالتوں کو ان سارے اقدام کرنے کا حق مل جائے گا جو اسرائیلی حکومت یا فورسز چاہتی ہیں۔ اس سے پہلے عدالتوں کو یہ اختیار نہ تھا کہ وہ صدر کو کسی ایسے فلسطینی قیدی کی سزا میں تخفیف سے روک سکیں جو مبینہ مقدمہ قتل میں گرفتار ہے لیکن اب نئے قانون کی منظوری سے عدالتیں صدر کو ایسا کرنے سے روک سکیں گی۔
اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ قانون میں ترامیم کا فیصلہ فلسطینیوں کی رہائیاں روکنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ خیال رہے کہ اکتوبر 2011ء میں اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت حماس نے غزہ کی پٹی میں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی سپاہی گیلا وشالیت کے بدلے صیہونی جیلوں سے 1050 فلسطینی رہا کرائے تھے علاوہ ازیں ایک سفارتی سطح کے ایک سمجھوتے کے ذریعے 78 فلسطینیوں کو رہائی ملی تھی۔ اب لگتا ہے کہ اسرائیل اپنی عدالتوں کے ذریعے فلسطینیوں کی قتل عام چاہتا ہے۔
اب آئیے اس امر کا جائزہ لیتے ہیں کہ 15 جون سے 3 یہودی لڑکوں کی تلاش میں اسرائیل فلسطینیوں پر کیا کیا قیامتیں ڈھا چکا ہے۔ غزہ کی پٹی کے شمال اور مغرب میں مختلف مقامات پر اسرائیلی فوج نے فلسطینی مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں پر بمباری کی، حماس کے مراکز کو نشانہ بنایا گیا، حکومت نے حراست میں لیے گئے فلسطینیوں سے تفتیش کے لیے سیکیورٹی اداروں کو تمام ظالمانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے کی اجازت دی۔
اسرائیلی فوجی حکام کے مطابق جنگجوؤں نے سرحد پار 5 راکٹ فائر کیے جن میں سے جنوبی اسرائیل میں ایک گھر کو نقصان پہنچا۔ 22 جون کو مغربی کنارے میں رات گئے اسرائیلی فوج کے کریک ڈاؤن کے بعد فلسطینی شہری سڑکوں پر آ گئے، پر امن مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فائرنگ سے 2 نوجوان شہید اور 5 زخمی ہو گئے۔ نہتے فلسطینیوں نے جواباً پتھراؤ کیا، فوج نے 6 شہریوں کو گرفتار بھی کر لیا، اس طرح گرفتار افراد کی تعداد 340 ہو گئی دریں اثنا اسرائیلی فضائیہ نے گزشتہ رات کے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں کارروائی بھی کی ہے۔
اس جنگ کا یہ پہلا فضائی حملہ تھا۔ 26 جون کو اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کی مقبوضہ مغربی کنارے میں غنڈہ گردی بہ دستور جاری رہی۔ انسانی حقوق کی تنظیم مرکز احرار کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے سے لاپتہ یہودی آبادکاروں کی تلاش کی آڑ میں جاری ظالمانہ مہم کے دوران سات فلسطینیوں کو شہید، درجنوں کو زخمی اور سیکڑوں کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ فلسطینی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی پولیس نے گھر گھر تلاشی کے دوران 250 معصوم بچوں کو بھی گرفتار کیا جنھیں جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
28 جون کو بھی لاپتہ ہو جانے والے 3 یہودیوں کی تلاش کی آڑ میں اسرائیلی فورسز نے غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں میں سرچ آپریشن کر کے سیکڑوں مسلمانوں کو حراست میں لیا جب کہ کئی گھروں کو مسمار بھی کیا گیا۔ اسرائیلی فورسز کے مظالم کے خلاف ہزاروں فلسطینی سڑکوں پر نکل آئے تو اسرائیلی فورسز ان پر ٹوٹ پڑیں۔ جھڑپوں میں چند اسرائیلی اہلکار بھی زخمی ہو گئے۔ 29 جون کو اسرائیلی فوج نے غزہ سٹی میں 12 فضائی حملے کیے جب کہ فلسطینی علاقے سے فائر کیے گئے راکٹوں سے جنوبی اسرائیلی علاقے میں فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھی۔
5 جولائی کو اسرائیلی ڈاکٹروں نے 16 سالہ فلسطینی نوجوان ابو خضیہ کی ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ میں بتایا کہ ابو خضیہ کی سانس کی نالی سے راکھ ملی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسے زندہ جلایا گیا ہے وہ 90 فیصد جھلس گیا تھا اور اس کے سر میں بھی چوٹ آئی تھی۔ یہ واقعہ یروشلم میں پیش آیا تھا۔ خضیہ کی تدفین سے پہلے اور بعد میں مشرقی یروشلم میں سیکڑوں فلسطینی نوجوانوں کا اسرائیلی پولیس کے ساتھ تصادم ہوا، یہ جھڑپیں رات بھر جاری رہیں۔ پولیس نے آنسو گیس کی شیلنگ کی اور 20 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا۔
جھڑپوں میں 62 فلسطینی اور 13 اسرائیلی پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔ رات گئے غزہ سے جنوبی اسرائیل پر راکٹ حملے اور مارٹر فائر کیے گئے جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ 7 جولائی کو غزہ سٹی میں اسرائیلی فضائیہ کی بمباری کے نتیجے میں 9 فلسطینی شہید ہو گئے۔ اس رات 14 فضائی حملے کیے گئے جب کہ صیہونی اہلکاروں نے فلسطینی نوجوان کے قتل کے شبے میں 6 یہودی شدت پسندوں کو گرفتار کر لیا۔ اس رات گئے آپریشن کے دوران 110 فلسطینی شہریوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ اسرائیلی فوج کے مطابق فلسطینی علاقے سے 50 راکٹ اسرائیلی علاقے میں فائر کیے گئے ہیں۔ 8 جولائی کو بھی اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ میں بمباری جاری رکھتے ہوئے مزید 13 فلسطینی شہریوں کو شہید اور 90 کو زخمی کر دیا۔
بمباری سے قبل حماس کے جنگجوؤں نے جنوبی اسرائیل میں راکٹ فائر کیے تھے۔ اسرائیل نے حماس کے خلاف اس ''پروٹیکٹیو ایج'' کے نام سے فضائی آپریشن کے ذریعے اس رات غزہ سٹی میں حماس کے 150 ٹھکانوں کو نشانہ بنایا مگر اس بمباری میں عام شہری ہلاک و زخمی ہو گئے اور کئی گھر بھی تباہ ہو گئے۔ اس رات حماس نے اسرائیلی علاقے میں 130 راکٹ داغے۔ اور اسرائیل نے مزید 29 فلسطینیوں کو گرفتار کیا۔ 9 جولائی کو اسرائیلی فضائی حملے کے نتیجے میں ایک فلسطینی مجاہد، 9 بچوں اور 6 خواتین سمیت مزید 22 فلسطینی شہید ہوگئے۔
اس روز اسرائیل نے 273 فضائی حملے کیے۔ سیکڑوں افراد زخمی ہوگئے 1800 مکانات منہدم ہوگئے۔ 10 جولائی کو بھی اسرائیلی فوج نے غزہ میں بمباری جاری رکھتے ہوئے 5 بچوں اور 4 خواتین سمیت مزید 31 افراد کو شہید کر دیا اور 15 افراد زخمی ہو گئے۔ اس روز حماس نے اسرائیلی ایٹمی پلانٹ دیمونا پر ایم 75 راکٹوں سے حملہ کیا۔ پلانٹ پر 3 راکٹ داغے گئے۔ اس روز حماس نے 15 راکٹ فائر کیے۔ حماس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے کے لیے اپنی شرائط پیش کر دی ہیں۔ جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے پارلیمانی کمیٹی سے کہا ہے کہ جنگ بندی ایجنڈے میں شامل نہیں۔